"SBA" (space) message & send to 7575

ترقی کے دشمن اور جمہوریت کے مخالف۔۔۔۔امریکہ میں

ووٹروں کی اکثریت کی مخالفت کے باوجود ڈونلڈ جے ٹرمپ کو نواز شریف جیسا بھاری مینڈیٹ مل گیا۔ بے چاری مادام ہیلری کلنٹن اور آزادی کی دیوی، جمہوریت کی اس بے مثال کامیابی کے سامنے آنسو بہانے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ مگر''ترقی‘‘ کے دشمن اور ''جمہوریت‘‘ کے مخالف سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ امریکہ کے عام لوگ ہیں، خاص لوگ ترقی یافتہ ہوتے ہیں اس لئے ان کا ایجنڈا نسل در نسل جمہوریت کی تابعداری ہے، وہ جمہوریت جو ترقی کے لئے کبھی 22 گھرانے منتخب کرلیتی ہے اور کبھی22 ہزار رشتہ دار، فرنٹ مین، سمدھی، بچے یا بھتیجے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی ''جمہوریت‘‘ کے مخالف اور ''ترقی‘‘ کے دشمن صرف کالے نہیں، صرف مہاجر نہیں، صرف مسلمان بھی نہیں، سارے عام لوگ ہیں۔ اسی لئے ''ترقی‘‘ دشمنی اور ''جمہوریت‘‘ مخالفت کا یہ تازہ فیصلہ لندن پلان نہیں کہلا سکتا۔ مگر اس فیصلے نے امریکی جمہوریت کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ آئیے ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں یہ تاریخ کس طرح بدلی گئی؟
وائٹ ہاؤس کی تاریخ میں پہلی بار قصرِ سفید کے باہر ساری لائٹس بند کر کے بلیک آئوٹ کر دیا گیا۔گمان غالب ہے کہ وائٹ ہاؤس کو بپھرے ہوئے ووٹروں کے غم و غصے سے بچانے کے لئے چھپا دیا گیا۔ ہماری جمہوریت شریف کی طرح ٹرمپ شریف نے اس بلیک آؤٹ کے ذریعے ''جمہوریت‘‘ کے حسنکو بچا لیا۔ امریکہ میں انڈے اور ٹماٹر پاکستان سے سستے ہیں، اس لئے ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ قصرِ سفید پر چڑھ دوڑنے والے مظاہرین اسے کالی سیاہی،گندے ٹائروں کے دھویں یا پرانے ڈیزل سے کالا شاہ کالا کر کے رکھ دیتے۔ جن خواتین وحضرات نے وائٹ ہاؤس رات کے وقت دیکھ رکھا ہے، وہ جانتے ہیں وائٹ ہاؤس کی چکا چوند لائٹیں دور سے آنے والوں کو دعوت ِ نظارہ دیتیں ہیں اور اس بات کا بلاوا بھی کہ ادھر آؤمیں یہاں کھڑا ہوں۔ امریکہ کی سر زمین پر پہلی بار امریکی مظاہرین نے اپنے ہاتھوں سے اپنا پرچم نذرِ آتش کر دیا۔ یہ وہ مظاہرین ہیں جن کا خیال ہے ان کے ووٹوں پر ڈکیتی پڑگئی ہے۔ ووٹوں کا ڈکیت کسی ملک کا صدر ہو یا ووٹوں کا چور وزیراعظم دونوں جگہ مظاہرین ایک جیسا ہی نعرہ لگاتے ہیں۔ مظاہرین کو اس بات کی پروا ہرگز نہیں ہوتی کہ اس نعرے کی زد میں آنے والا ملک کا صدر ہے یا حکومت کا وزیراعظم۔ اسی وجہ سے امریکہ ہو یا پاکستان دونوں جگہ چور والا شور مچ جاتا ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو پاکستان اور امریکہ دونوں ملکوں میں پہلی بار ایک قدرِ مشترک کھل کرسامنے آئی اور وہ یہ کہ پاکستان اور امریکہ میں ''ترقی‘‘ کے مخالفین اور ''جمہوریت‘‘ کے دشمن عام آدمی کا ایجنڈا مشترک ہوگیا ہے۔
اس مرحلے پر پنجاب پولیس کی سیاسی قیادت کو مبارکباد نہ دینا بڑی زیادتی کی بات ہے، جس پولیس کا چیف پارٹ ٹائم وردی میں مگر اندر سے فل ٹائم سیاستدان ہے۔ نہ صرف سیاستدان بلکہ اپنے سرپرست سیاستدانوں کا ترجمان بھی۔ بالکل ویسے ہی جیسے کسی زمانے میں عدل کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھ کر ایک چیف مسلسل سیاست میں ملوث رہا۔ لیکن دیس پنجاب کی اس جوڑی کے درمیان صرف ہلکا پھلکا فرق پایا جاتاہے۔ پہلے چیف کے پاس ڈھول کی تھاپ پر ناچنے والے اچھل اچھل کر اور کود کود کر جانثار جانثارکے نعرے لگانے پر مجبورکئی درجن باوردی وکیل بھی تھے۔ ان میں سے زیادہ جوش کا مظاہرہ کرنے والے باوردی عہدوں تک پہنچ گئے۔ ایسے عہدے جن کی کرسی پر چڑھ جانے کے بعد ''کوڈ آف کنڈٹ‘‘ لاگو ہوکر نعرے بند کروا دیتا ہے اور جو قسمت کے مارے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے وہ آج کل جانثار کے لفظ کا بڑا خطرناک پنجابی ترجمہ کر رہے ہیں۔ ایسا ترجمہ جو ناقابلِ اشاعت ہے۔ اس ترجمہ پر''صرف بالغوں کے لئے‘‘ کا لیبل لگایا جائے تب بھی اسے چھاپا نہیں جا سکتا۔
بات ہو رہی تھی ''ترقی‘‘ کی، اسی لئے یہ گھوم پھرکر وہاں چلی گئی جہاں جہاں بے مثال ''ترقی‘‘ جاری ہے۔ ایسی ہی ترقی کے کُھرے کا کُھرا ہمارے دوست میاں محمود الرشید نے اگلے روز پھر تلاش کر لیا۔ پنجاب اسمبلی اکاؤنٹس کمیٹی میں انکشاف ہوا کہ سستی روٹی سکیم میں صرف سبسڈی کی مَد میں 24 ارب روپے جھونک دیے گئے۔ پنجاب کے غریب آدمی کی جیب کاٹ کر نکالے گئے یہ 24 ارب روپے کس کو ملے، کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی کوئی ایسا گستاخانہ سوال پوچھنے والا ادارہ، ایٹمی جمہوریہ میں برداشت کیا جا سکتا ہے۔ مشہورِ زمانہ سستی روٹی اگر کسی نے کھائی ہوتی تو وہ اس کا ذائقہ بھی بتا سکتا تھا۔ اس جنّاتی سستی روٹی کا بے لذت تذکرہ مکمل کرنے سے پہلے ایک گمشدہ رُباعی ذہن میں آئی ہے، بالکل سستی روٹی سکیم جیسی گمشدہ:
ایک ہی اپنا ملنے و الا تھا
ایسا بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں
کیا ہوا یہ کسے نہیں معلوم
کیوں ہوا کوئی پوچھتا ہی نہیں
ترقی کا ایک اور شعبہ پنجاب سپیڈ برانڈ لوڈ شیڈنگ ہے۔ اگلے روز جس کا اظہار وزیر اعظم نے پسندیدہ پٹواریوں کے تاریخی اجتماع سے خطاب کے دوران ان لفظوں میں کیا: ''لوڈ شیڈنگ 2018ء تک دفن ہو جائے گی‘‘۔ یہاں بھی ''ترقی‘‘ کے دشمن اور''جمہوریت‘‘ کے مخالف چپ نہ رہ سکے۔ نیپرا رپورٹ نے اسی دن نواز شریف کو ترکی بہ ترکی یہ جوابِ آں غزل پیش کیا''2018ء میں بھی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو گی‘‘۔ ترقی کے دشمنوں نے ساتھ ہی کہا 13گرڈ سٹیشن اور ٹرانسمیشن لائن کے 9 منصوبے بد ترین تاخیر کا شکار ہیں۔
جوزف سٹالن نے کمال کا جملہ کہہ رکھا ہے: ''جو ووٹ دیتے ہیں فیصلہ ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ووٹ گننے والوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے‘‘۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نواز شریف ووٹوں کی پولنگ بند ہونے کے بعد دیوانِ عام، رائے ونڈ محل کی بالکونی پر کھڑے ہو کر یہ کیوں کہتے: ''مجھے دو تہائی اکثریت دے دو، بھاری اکثریت‘‘۔ ہم سب کو یاد ہے اس وقت سارے ووٹر گھر جا چکے تھے، لیکن گننے والے طے کر رہے تھے کس کو کتنے ووٹ ملیں گے۔ جس طرح غریب بستیوں میں پیدا ہونے والی مزدور پیشہ خواتین کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ قدرت نے انہیں کس بلا کا حسین تخلیق کیا، اسی طرح امریکہ اور پاکستان میں جیتنے والوں کو نہیں معلوم ہوتا انہیں اتنی بھاری اکثریت کہاں سے مل گئی۔
امریکہ کے انتخابی نظام میں فیصلہ کرنے والے30 کروڑ سے زائد امریکی عوام یا 20 کروڑ ووٹر نہیں ہوتے، بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی 50 ریاستوں میں ایوانِ نمائندگان کے435 ارکان، ایوانِ بالا کے100سینیٹرز اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے تین ووٹوں کی طرز کے مجموعے کا نام امریکی جمہوریت ہے۔ جس کے کل ووٹوں کی تعداد 30 کروڑ عوام کے مقابلے میں صرف 538 ہے۔ یہ تعداد سامنے رکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہمارے آر او، الیکشن کمیشن کے اہلکار، ڈی پی او، حکمران خاندان اور ڈی سی او شامل کریں تو یہ تعداد بھی 538 ہی بنتی ہے۔
امریکہ کی جمہوریت کا ایک اور حسن بھی قابلِ ذکر ہے۔ اس وقت نیو یارک کی ریاست کے پاس صدر بنانے کے لئے کل 29 ووٹ ہیں۔ ان29 کو الیکٹرزکہا جاتا ہے جبکہ نیویارک کی آبادی کا تناسب نکالیں تو ایک الیکٹر 5 لاکھ 35 ہزار ووٹروں پر بھاری ہے۔ اس نظام کی وجہ سے موجودہ صدارتی الیکشن میں 80 فیصد سے زیادہ ووٹ کاسٹ کرنے والے عوام کی رائے انتخابی نتیجے میں شامل نہیں۔ یہ الیکٹورل کالج1787ء میں بنا۔ آج2016ء میں ''ترقی‘‘کے دشمن اور ''جمہوریت‘‘ کے مخالف اس گنتی نظام کے باغی ہیں۔ 
ڈونلڈ جے ٹرمپ جس تبدیلی کی بات کرتا رہا وہی اس کے گلے پڑ گئی۔ یہ تبدیلی اسے چار سال تک بھگتنا پڑے گی، بالکل ویسے ہی جیسے وفاقی حکومت موئن جودڑو کے وزیرِ اعلیٰ کا تین سال تذکرہ کرتی رہی۔ وزیراعظم نے نوجوانوں سے''اصلی تبدیلی‘‘ کے جو وعدے کیے ان میں سے ہڑپہ کے زمانے کا گورنر، سندھ کے حصے میں آیا۔ ''ترقی‘‘ کے دشمن اور ''جمہوریت‘‘ کے مخالف جس دن کسی کسان لیڈر، ٹریڈ یونین لیڈر یا لڑ کر مرنے کے عادی طبقاتی لیڈر کے ہاتھ آگئے اس دن پتا چلے گا کو نسی ''ترقی‘‘ اور کہاں کی ''جمہوریت‘‘۔ ابھی تو بپھرے ہوئے لوگ بکھرے ہوئے ہیں:
تیرے سینے میں دم ہے، دل نہیں ہے
ترا دم گرمیِٔ محفل نہیں ہے
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور 
چراغِ راہ ہے ، منزل نہیں ہے 
(اقبال)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں