متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، عمان میں پہلی بار موسم بدل گیا۔ سعودی عرب میں ہونے والی برفباری کی خبر اور تصویریں آپ دیکھ چکے ہیں۔ وطن عزیز میں موسم سرما کی بارش بہت دیر سے شروع ہوئی۔ زمین، فصل، پودے، آبی ذخائر اور انسانی ضرورتوں کے لیے روٹین کی بارشیں ہونا ابھی باقی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے اقتداری ٹولے کو موسمیاتی تبدیلیوں کی کوئی خبر ہے یا پروا بھی...؟
اس تمہید کی وجہ دبئی کی آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتوں کے عین درمیان واقع وسیع و عریض پارک، مصنوعی نخیل اور درختوں کے جھنڈ ہیں۔ انہی میں سے ایک ہوٹل کے سوئمنگ پول میں فاختائیں تیرنے آتی ہیں‘ اس بات سے بالکل بے نیاز ہو کر کہ شکروں نے بھی شہر کو شکارگاہ بنا لیا ہے۔ دبئی کے شیخ یعنی حکمران کے محل کا موازنہ اپنے مشہور زمانہ رائیونڈ محل سے کیا جائے تو اصلی بادشاہ کا محل شرما کر رہ جائے۔ رقبہ میں اماراتی محل ہمارے جاتی امرا محل کا کیا مقابلہ کرے گا۔ اصلی محل کی چاردیواری محض پانچ فٹ کے قریب اونچی ہے۔ اس پر کاٹ دار تار، نہ ہی برقی رو والے فینس۔ نہ سرکاری خرچے پر تین فٹ چوڑی کنکریٹ اور ہزاروں میٹرک ٹن لوہا۔ شیخ کے محل کے اندر کیکر کے درختوں کا ذخیرہ ہے‘ جہاں ہر طرح کی جنگلی حیات، پھول اور رہائش گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ اس اصلی بادشاہ کے اس محل سے بیس منٹ کی مسافت پر دنیا کا انوکھا عجوبہ بنایا گیا ہے۔ پستہ قامت کیکر کے درختوں کے جھنڈ میں معجزاتی باغ (MIRACLE GARDEN) اگایا گیا ہے‘ جس میں ہزاروں قسم کے رنگ برنگے پھول سیاحوں کا استقبال کرتے ہیں۔ ترتیب سے تعمیر کی گئی روشوں کے جھرمٹ میں ایمرٹس ایئرلائن کا بوئنگ 777 طیارہ کھڑا ہے۔ یہ طیارہ بھی پھولوں سے لدا ہوا ہے۔ اس طیارے کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں کوئی پھولدار بیل نہ چڑھائی گئی ہو۔ پھولوں کا یہ شاہکار متحدہ عرب امارات کے صحرائی علاقے کی عین وسط میں واقع ہے۔ اس سے چند کلومیٹر آگے عرب دنیا کا پہلا چائنا ٹائون موجود ہے۔ اس چائنہ ٹائون کو ''ڈریگن مال‘‘ کہتے ہے۔ ہر وہ چیز جو چائنہ میں تیار ہو رہی ہے‘ اسے یہاں لا کر سجایا جاتا ہے۔ دبئی کی تاریخ اور ثقافت مختصر ہے مگر پوری طرح سے حکمرانوں کی نظر میں۔ اس تاریخ کا آغاز نئے دبئی سے ہوتا ہے‘ جس کو سال 1971ء میں خود مختاری ملی۔ اس سے پہلے اس سارے خطے میں برطانیہ کا ر اج تھا۔ سال 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد دبئی پر بھارت کی حکمرانی چلتی رہی۔ اور تو اور یہاں پر بھارت کی کرنسی ہی آفیشل کرنسی تھی۔ سال 1971ء میں موجودہ نظام سامنے آیا‘ جس کی اولین دوستی شہید وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ذریعے پاکستان سے ہوئی۔ پی آئی اے کا ایک طیارہ کرائے پر لے کر امارات ایئرلائن کا آغاز کیا گیا۔ آج کا دبئی کہاں کھڑا ہے‘ یہ حکمرانوں کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ پچھلے دو برسوں کے دوران پاکستان کی مقتدر اشرافیہ نے دبئی میں ریکارڈ توڑ مال بھجوایا۔ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہمارے قومی منیجرز کی نظر کہاں ہے؟ اس کے مقابلے میں ہندوستان دبئی سے کیا لے جاتا ہے‘ اس پر پوری کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ ایک انتہائی اہم مگر تازہ خبر پاکستان کے اداروں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہو گی۔ اس خبر کا محرک ہمارا ازلی دشمن بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی ہے۔
گزشتہ دو برسوں میں بھارتی وزیر اعظم نے یو اے ای کے جتنے بھی دورے کیے‘ ان کا اصل مقصد سال 2017ء میں سامنے آیا۔ تفصیل کے مطابق یو اے ای کے ہر دورے کے دوران بھارت کا وزیر اعظم ان بھارتی شہریوں کی لمبی فہرست ہاتھ میں پکڑ کر جاتا رہا، جن کا دبئی میں کالا دھن پڑا تھا۔ اس سلسلے میں بھارت کے وزیر اعظم نے اگست کے مہینے‘ سال 2015ء میں دبئی کا پہلا دورہ کیا تھا۔ دبئی کے متعلقہ حکام یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مودی کے ہاتھ میں ان سینکڑوں بھارتی امرا کی تین فہرستیں تھیں‘ جو بھارت سے مال چوری کرکے اسے یو اے ای میں سفید کرنے کے لیے لائے۔ پہلی فہرست میں ہندوستانی بینکرز کے نام شامل تھے۔ دوسری لسٹ میں معروف بھارتی امرا کی آف شور اور فرضی کمپنیوں کے کوائف درج تھے‘ جبکہ تیسری فہرست میں ہندوستانی شہریت رکھنے والوں کے نام اور ان کے یو اے ای میں اثاثوں کی پوری تفصیل۔ مودی اور بھارت کے انتہائی بااثر بینکرز کے درمیان شدید معرکہ شروع ہوا۔ عرب ملکوں میں بھارتی بینکرز کی لابی نے یو اے ای پر دبائو ڈالا کہ اگر یو اے ای میں بھارتی سرمایہ کاروں کے نام اور اثاثوں کی تفصیل ظاہر کی گئی تو پھر یو اے ای کے بینک امریکی ڈالر کے کلیئرنس ''سٹیسٹس‘‘ سے محروم ہو جائیں گے۔ دوسری جانب مودی نے دبئی سے رابطے اور دورے جاری رکھے‘ جن کے نتیجے میں آخرکار بھارت کا قوم پرست وزیر اعظم اپنی قوم کی لوٹی ہوئی دولت کے حوالے سے تاریخی فیصلہ کروانے میںکامیاب ہوا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت کے اگلے پندرہ سے بیس سال کے بجٹ کے برابر دبئی میں چھپی ہوئی بھارتیوں کی سیاہ دولت پکڑی گئی ہے۔
اب آئیے یو اے ای کی حکومت کے اس دلیرانہ اور تاریخ ساز اقدام کا جائزہ لیں، جس کے عالمی سطح پر اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ہے متحدہ عرب امارات کا تہلکہ خیز نیا قانون جو یکم جنوری سال 2017ء سے لاگو اور موثر ہوا ہے۔ اس قانون کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
1: نئے قانون کے تحت دبئی میں واقع کسی بھی غیر ملکی فرد، کمپنی یا گروپ کے اثاثے منظرعام پر لائے جا سکتے ہیں۔
2: کسی بھی ایسے شخص‘ ادارے یا گروہ‘ جس کے اثاثہ جات دبئی میں ہوں‘ کی بابت مکمل تفصیلات اس کے آبائی ملک سے شیئر کی جا سکیں گی۔
3: جو ملک بھی اپنے ہاں سے لوٹی ہوئی دولت واپس مانگنا چاہے اسے ریاستی سطح پر ایسی درخواست کرنے کی اجازت ہو گی۔
4: غیر ملکی شہریوں کے وہ اثاثے‘ جو اس زُمرے میں آتے ہوں ان کو یو اے ای کے حکام منجمد (Freeze) کر سکتے ہیں۔
چونکہ نریندر مودی کی اپنی دولت، محلات، ٹاور دبئی میں نہیں ہیں‘ اس لیے بھارت کے وزیر اعظم نے فوری طور پر اپنے ایک شہری کے اثاثے یو اے ای میں کامیابی سے منجمد کروا لیے۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ایک شخص کے منجمد ہونے والے اثاثوں کی مالیت 15,000 کروڑ روپے سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ یہاں پاکستانی شہریوں کے پوچھنے کا ایک ہی سوال
بنتا ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا ریاست پاکستان کے وہ پانچ تفتیشی ادارے‘ جن کا کام ہی چوری کے مال اور لوٹی ہوئی ملکی دولت کا سراغ لگانا ہے‘ ہمت کرکے دبئی میں پاکستانیوں کے کالے دھن کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے؟
دبئی کے سوئمنگ پول کے دوسرے سرے پر شکرے بیٹھے رہتے ہیں۔ دن میں صرف ایک بار یہ شکرے کسی کمزور سی فاختہ کو شکار کرتے ہیں۔ مجھے یوں لگا جیسے یہاں کی فاختہ اور باز میں مفاہمت کا فارمولہ طے ہے۔ نمونے کا حملہ، دکھاو ے کا شکار۔ بالکل ایسا ہی جیسا آج کل احتساب کے قانون کو بدل کر نیا مفاہمتی قانون لانے کی تیاری جاری ہے۔ اس قانون سازی کے تعاقب میں دوڑنے والے لیڈر اگلے الیکشن کے دوران پھر ''مفاہمتی انتخاب‘‘ کروانا چاہتے ہیں۔ کہیں تم کہیں ہم۔ 20 کروڑ لوگ 70 سالوں سے انصاف کے تعاقب میں بھاگ رہے ہیں۔ جسے یقین نہ آئے وہ چائلڈ لیبرکرنے والی دس سالہ طیبہ سے پوچھ لے‘ یا قصورکی اس بے قصور ماں سے جو صحت مانگنے کے لیے خادم اعلیٰ کے شہر گئی تھی۔ جمہوریت نے قصور کی ماں کا قصور ڈھونڈ نکالا‘ اور اسے بحفاظت تابوت میں ڈال کر قصور والوں کے حوالے کر دیا۔ (ختم)