اُن دنوں مسٹر جوبائیڈن سینیٹر ہوا کرتے تھے۔ ان کا پہلا تذکرہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی زبان سے سنا۔ تب پی پی پی میں گلوبل واچ کمیٹی قائم تھی جس کے ذمے عالمی امور پر نظر رکھنا تھا۔ میں اس کمیٹی کا کوآرڈی نیٹر تھا جبکہ سابق ایم این اے پلوشہ بہرام کمیٹی کی سیکرٹری تھیں۔ محترمہ نے پلوشہ سے کہا کہ آپ جوبائیڈن سے میری ملاقات کا وقت رکھوائیں۔ پلوشہ کا جوبائیڈن کے ساتھ رابطہ اور ورکنگ ریلیشن شپ تھا۔ شہید بی بی اور جوبائیڈن کے درمیان وہ پہلی ملاقات مستقل رابطے کا باعث بن گئی۔کچھ عرصے بعد سینیٹر جوبائیڈن ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نائب صدر چن لیے گئے۔ اس کے باوجود انہوں نے اس تعلق کو بڑے سلیقے سے نبھایا۔ جوبائیڈن کے حصے میں اقتدارکا طویل عرصہ آیا۔ ان کے اقتدارکا یہ عرصہ صحیح معنوں میں شفافیت کی کھلی کتاب ثابت ہوا۔ جوبائیڈن کے صاحبزادے جو، جونئیر کی بیماری کی کہانی نے جوبائیڈن کے اقتدارکا پول کھول کر رکھ دیا۔ ایک الوداعی تقریب میں امریکہ کے قومی منظر نامے پر گفتگو کرتے کرتے جوبائیڈن کے اندر پدرانہ شفقت کا سیلاب اُمڈ پڑا۔
باپ کی حیثیت سے جوان بیٹے کی جان لیوا بیماری کے ذکر پر جوبائیڈن کی تقریر آنسوئوں کے سیلاب میں بہہ گئی۔ جوبائیڈن نے انکشاف کیا کہ ان کے بیٹے کو کینسرکا موذی مرض لاحق ہے اور ان کے پاس کوئی نقدی یا وسائل نہیں ہیں، اس لئے اپنے لخت جگر کے علاج کی خاطر وہ اپنا گھر بیچ رہے ہیں۔ اس پر امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر نے اپنے نائب صدر سے قدیم رشتہ اور تعلق نبھانے کا فیصلہ کیا۔ بارک حسین اوباما نے جوبائیڈن کو گھر فروخت کرنے سے روک دیا اور انھیں علاج کے لئے رقم قرض کی صورت میں پیش کردی۔
اگلے روز آئس لینڈ کا سابق وزیر اعظم اپنے ووٹروںکو اکیلا سائیکل پر جاتا نظر آیا۔ آئس لینڈ کے سابق وزیر اعظم جنھوں نے پاناما لیکس میںاپنا ذکر آنے پر وزارت عظمیٰ کو ٹھوکر ماری، اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا، استعفیٰ دیا اور ایوان اقتدار سے اُٹھ کر گھر چلے گئے۔ اب موصوف اکیلے عام لوگوں کے درمیان گھومتے نظر آتے ہیں۔ ان کی سواری بائی سائیکل ہے، وہ گھر کا خرچہ، بچوں کی فیس، کاروبار زندگی چلانے کے لئے عام آدمی کی طرح ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔
ایک اور طاقتور مغربی لیڈر کا واقعہ بھی سن لیجئے۔ اگست 2015ء میں سپریم کورٹ سے عمومی رخصت (General Adjournment) لے کر بچوں کے ساتھ چھٹیاں گزارنے لندن پہنچا۔ میرے بچوں اور میری بیگم کی سب سے بڑی تفریح ہائیڈ پارک سمیت واک کرنے کے مختلف مقامات ہیں۔ ہمیشہ کی طرح صبح کے ناشتے سے پہلے ویسٹ منسٹر کے علاقے میں ہماری واک شروع ہوئی۔ ایک عام سی گلی کے اپارٹمنٹ کے باہر لندن پولیس کا اہلکار کھڑا نظر آیا۔ پولیس والے نے مسکرا کر ہمیں ہیلو کہا۔ میرے بیٹے نے ہیلو کے جواب میں اس سے پوچھ لیا کہ آپ صبح سویرے اس اپارٹمنٹ کے باہرکیوں کھڑے ہیں۔ لندن پولیس کا جوان مسکرایا اور بولا یہ سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا گھر ہے۔ میں یہاں سکیورٹی کی ڈیوٹی دے رہا ہوں۔ ٹونی بلیئر بھی آج کل لندن کی ٹرینوں میں سفر کرتا ہے۔ مسافروںکی لائن میں کھڑے ہو کر ریل گاڑی پر چڑھتا اور عام مسافروںکی طرح اوور لوڈڈ ٹرین کا ڈنڈا پکڑکر سفر طے کرتا ہے۔
اب آئیے ذرا سی دیر کے لئے کسوٹی کھیلتے ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیںکہ پانچ سال پہلے سوئٹزر لینڈکا وزیر اعظم کون تھا؟کیا آپ پولینڈ کے سابق سربراہ کا نام جانتے ہیں؟ کیا آپ کو اٹلی کے گزشتہ حکمران کا حال معلوم ہے؟ فرانس میں پیرس کا سابق میئر کون تھا؟ لندن کے خزانے کے پچھلے انچارج کا نام کیا ہے؟ ہم میں سے اکثر کو دنیا کے منتخب لیڈرزکے نام تک معلوم نہیں۔کینیڈا میں لاکھوں پاکستانی بستے ہیں۔ جسٹن ٹروڈو سے پہلے کینیڈا کا حکمران کون تھا، وہ یہ بھی نہیں جانتے۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے۔ جمہوری طرز انتخاب کا نظام رکھنے والے ملکوں میں عام لوگ بھی صدر اور وزیر اعظم بن جاتے ہیں۔ویسے ہی جیسے آج کل لندن کے بس ڈرائیورکا پاکستانی بیٹا شہر انگلستان کا لارڈ میئر ہے۔ یہ عام آدمی، مڈل کلاس والے، محنت کشوںکے بچے، کروڑ پتی، ارب پتی، کھرب پتی بننے کی دوڑ میں شامل نہیں ہوتے۔ جن وسائل کے ساتھ اقتدار میں آتے ہیں ان سے کم وسائل کے ساتھ اقتدارکا عرصہ پورا کر کے اپنے عوام جیسی زندگی گزارنے کے لئے عوام میں واپس چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں مغربی جمہوریت میں موجود ہیں۔ یہ مثالیں ایک دو نہیں، سینکڑوں ہزاروں میں ہیں۔ مجھے معلوم نہیںکہ اس میںکیا راز پوشیدہ ہے۔ نئے ملینیم کے 16ویں سال میں جہاں جہاں ظلِ الٰہی، آٹوکریٹ، جمہوری نازی علم والے، خاندانی بادشاہ اور شخصی حکمران عوام کے وسائل پر قبضہ جما کر بیٹھے ہیں، ان میں بھاری اکثریت مسلم حکمرانوں کی ہے۔ یہ اسی اقتدار پرست سو چ کا طرّہ ِامتیاز ہے کہ ڈکٹیٹرشپ کے سائے میںجینے والے لوگ نہ تو بغاوت کرتے ہیں اور نہ ہی احتجاج۔ اس نظام میں باغیوں پر مغرب کے بنائے وہ ہتھیار استعمال ہوتے ہیں جو مغربی ملک اپنے عوام پر استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
اس لئے دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا نائب صدر لمبا عرصہ اقتدار کے مراکز میں بیٹھا رہا لیکن نادان جوبائیڈن ہماری جمہوریت کے علم برداروں سے اتنا بھی نہ سیکھ سکا کہ بیٹے کے علاج کی خاطر چند ملکوں میں تھوڑی سے آف شورکمپنیاں بنا لیتا۔ اسے چاہیے تھا کہ چار پانچ براعظموں میں پلازے، اپارٹمنٹس، شیٹو، ٹاورز، سرور والے پیلس اور چند جزیرے خرید لیتا تو آج اُسے کینسر کے مریض بیٹے کی بیماری پر آنسو بہانے کی بجائے ڈالروں کے کنٹینرز بہا دینے کی سہولت حاصل ہوتی۔
اس ہفتے مجھے شادی کی دو عدد منفرد اور ''وکھری ٹائپ‘‘ کی دعوت میں جانے کا موقع ملا۔ پہلی دعوت قانون نافذ کرنے والے سابق بڑے کی طرف سے تھی جہاں قانون نافذ کرنے والے کئی سابق و حاضر جمع تھے۔ ایک مشہور زمانہ سابق سیکرٹری داخلہ نے پاناما کیس پر گفتگو چھیڑنی چاہی تو میں نے طرح دے دی، موضوع بدلا اور پوچھا آپ کی ریٹائرمنٹ کیسی جا رہی ہے؟ گھاگ بیوروکریٹ فخریہ انداز میں کہنے لگا کہ دو بچے امریکہ، ایک کینیڈا اور ایک فرانس میں سیٹلڈ ہیں۔ ساتھ ہی دو بین الاقوامی اداروںکا نام لے کرکہا کہ آج کل ان کا کنسلٹنٹ ہوں۔ زیادہ وقت جہاز پر گزرتا ہے یا سات سمندر پار۔ سروسز آف پاکستان کو نوچ کر کھا جانے والے ایسے بھیڑیے درجنوں نہیں، ہزاروںمیں ہیں۔ مجھ سے نہ رہا گیا، چنانچہ سوال دا غ دیا۔ پاناما میں بھی کچھ بنایا؟ یہ سن کر اس نے اپنے اوپر بزرگی طاری کی اور مصنوعی کھانسی کے دورے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کھسک گیا۔
دوسری شادی ایک سابق وزیرکے بھتیجے کی تھی جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر وہ وزارتی موٹرکیڈ میں سفر کرتے ہوئے سڑک پر پڑی ہوئی ایک عدد لاوارث اینٹ بھی دیکھ لیتے تو فوراً اس اثاثے کو پروٹوکول گاڑی میں محفوظ کروا لیتے اور ساتھ ارشاد فرماتے کہ ایک اینٹ اور ملی تو سمجھو 500 روپیکھرے ہوگئے۔ موصوف مہمانوںکو اپنی معاشی کامیابی کی داستان سنا رہے تھے۔ عراق سے برازیل تک، لندن سے پاناما تک، سوئٹزر لینڈ سے بہاماس تک، الجزائر سے دوبئی تک۔۔۔۔ دولت +دولت =دولت
وہ بولتے رہے اور میں سوچتا رہا۔ غریب آدمی کا گوشت نوچ کر ڈالروں کے بریف کیس بھرنے والے پوری زندگی سرکاری کاغذات میں الیکشن کمیشن کے اثاثہ جات میں مقروض اور مز ید غریب دیکھائی دیتے ہیں۔ یہ اللہ اور رسولؐ کا نام لے کر ہر سال جھوٹا حلفیہ بیان پیش کرتے ہیں۔ باقی رہی عزت یا آبرو، بھیڑیے کی عزت کون کرتا ہے، جسے وہ عزت سمجھتا ہے وہ اصل میں اس کے شکاری دانتوں کی دہشت کے سوا کچھ نہیں۔ جوبائیڈن کے آنسوئوں نے اسے اقتدار سے بھی زیادہ محترم بنا دیا۔ جوبائیڈن کے آنسو اور بھیڑیے کی عزت میں یہی فرق ہے۔