"SBA" (space) message & send to 7575

نئی پارلیمانی تاریخ

میں اٹھا، اپنی نشست پر کھڑے ہوکر حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے درمیان نشستوں کو تقسیم کرنے والی گلی کی طرف اشارہ کیا اور ڈپٹی چیئرمین سے کہا: آپ اسے پاناما کی گلی سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔ وزارت صحت عوام کے سامنے جواب دہ ہے۔ مجھے پوچھنے دیں۔ 2014ء میں کھانسی کے سیرپ نے رپورٹ شدہ معلومات کے مطابق 200 سے زیادہ لوگ مارے۔ اس سے اگلے سال 2015ء میں دل کے مرض کی جعلی دوا سے مرنے والوں کی تعداد 300 سے زیادہ تجاوزکر گئی۔ اس سال سرکاری ہسپتالوں سمیت لاہور میں امراض قلب کے مریضوں کے لئے دل کی شریانوں میں نقلی سٹنٹ (Fake Stent) فروخت ہو رہا ہے۔ میری بات میں مداخلت ہوئی اور مجھے کہا گیا پارلیمان کی روایت خراب نہ کریں، تشریف رکھیں۔ عرض کیا، میںیہاں تشریف رکھنے نہیں آیا گرلنگ (Grilling Hour) سب سے بڑے پالیمان کی روایت ہے۔ احتساب اور سرکاری اداروں کی گو شمالی وقفۂ سوالات میں ہی ہوتی ہے۔ چیئر سے مسلسل بولنے کی آواز مائیک سے چیختی رہی۔ میں مائیک کے بغیر بے موت مارے جانے والوں کے حق میں بولتا رہا۔ آخرکار میں نے کہا، جناب ڈپٹی چیئرمین! آپ ایوان بالاکو ''کشمیر کمیٹی‘‘ کی طرح چلا رہے ہیں۔ سب کو معلوم ہے آپ حکومت میں ہیں۔ لیکن یہ تو ''ریفری‘‘ کی کرسی ہے۔ اس جانبداری پر میں آپ کے رویے کے خلاف ایوان سے واک آئوٹ کرتا ہوں۔ میں اٹھ کر اپوزیشن لابی کی طرف چل پڑا۔ میرے پیچھے اے این پی کے سینیٹر شاہی سید،ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر سیف، تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی، پی پی پی پارلیمنٹیرین کے سینیٹرز روبینہ خالد، فرحت اللہ بابر اور دیگر سینیٹرصاحبان بھی واک آئوٹ کر گئے۔ پارلیمانی امورکے وزیر شیخ آفتاب منانے آئے۔ ایوان میں واپس پہنچ کر مجھے مائیک ملا، میں نے اوپر درج مریض دشمن حقائق پھر سے ایوان کے سامنے رکھے۔ ان میں تین باتوں کا اضافہ کیا۔ پہلے یہ کہ آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت عوام کی صحت و سلامتی اور جان کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست کے منیجر کا کردار حکومت ادا کرتی ہے۔
لاہور میں اتنی بڑی جعل سازی تین بار ہوئی۔ حکمران سوتے رہے یا کمشن بناتے رہے۔ دوسرا نقطہ یہ اٹھایا کہ 18ویںآئینی ترمیم کے بعد صحت کا محکمہ صوبوں کے حوالے ہو گیا۔ ہر صوبے نے اپناعلیحدہ ڈرگ ایکٹ بنالیا۔ ڈرگ ریگولیشن اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) غیر آئینی ادارہ ہے، بلکہ عوام کے لئے کچھ نہ کرنے والا سفید ہاتھی۔ تیسرا یہ کہ عوامی صحت سے متعلقہ لاہور میں رونما ہونے والی وارداتوں کی وجہ کیا ہے؟ اب سنیے وہ جواب جس نے ایک نئی پارلیمانی تاریخ رقم کر دی۔ وزارت صحت کا جواب دینے کے لئے بلیغ الرحمن کھڑے ہوئے اور انگریزی میںعوامی اہمیت کے تینوں سوالوں کا ایسا مشترکہ جواب دیا جس نے پارلیمنٹ اور عوامی صحت کے درمیان دیوار چین پر تازہ کنکریٹ ڈال کر جنگلہ لگا دیا۔ وزیر مملکت بولا: All the three questions are irrelevant یعنی تینوں سوالات غیر متعلقہ ہیں۔ اس جواب پر حکومت کے آخری اقتداری جھٹکوں کامزا لینے کے لئے بے چین امیدواروں نے ڈیسک بھی بجا دیے۔
پاکستان میں نئی پارلیمانی تاریخ کا جدید باب ہم سب کو مبارک ہو۔ یقین رکھیے، جمہوریت اسی طرح پھلتی پولتی رہی تو بہت جلد تعلیم، ہنر، نوکری، عوام کی جان و مال کی حفاظت،گھریلو تشدد، بچوں کے خلاف بے رحم رویے، بھارت کی تابعداری پر مبنی خارجہ پولیسی، چین سے ملنے والے مہنگے قرضے، سٹریٹ کرائم، انصاف تک رسائی، مہنگائی، بے روزگاری، ماحولیاتی تبدیلی، کسانوں کا بھوک سے مرنا، مزدور کش حکومتی فیصلے، پاکستانی رو پے کی بے توقیری جیسے مسائل کو Irrelevant یعنی غیر متعلقہ قراردینے کا قانون نافذ کر دیا جائے گا۔ یوںتاریخ میں ہمارے جمہوری حکمرانوں کا نام جنگلے اور سریے کے بنے ہوئے حروف پر ڈالر اور ریال کے پانی سے لکھا جائے گا۔ 
پارلیمنٹ ہائوس کے دروازے پر پہنچا تو سامنے رپورٹرز کا ہجوم تھا۔ ایک نوجوان رپورٹر نے اداس چہرے کے ساتھ سوال کیا: کل امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر کے عہدے کا حلف لیں گے، پھر کیا بنے گا؟ یہ غیر متوقع سوال تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کئی اعتبار سے اس صدی کا گیم چینجر ہے۔ امریکہ جیسی عالمی طاقت کے عالمی گیم چینجرکو للکارنے کی ہمت ڈونلڈ ٹرمپ ہی کر سکتا تھا، جو اس نے دل کھول کرکی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی الیکشن میں روسی مداخلت کے بارے میں سی آئی اے اور ایف بی آئی جیسے طاقت کے بے تاج بادشاہوں کی رائے پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کمال کا جواب دیا: ''یہ وہی سی آئی اے ہے جس نے کہا تھا کہ عراق میں صدام نے عالمی تباہی کے ہتھیاروں(Weapons of Mass Destruction)کے ڈھیر چھپا رکھے ہیں‘‘۔ گزشتہ رات مجھے سی این این کی کیپٹل ہل سے ٹیلی تھان نشریات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ سکرین پر ایک جانب ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کی الٹی گنتی چل رہی تھی اور دوسری جانب الجھے بالوں کے ساتھ چہرے پر اڑتی ہوائیں لیے چار تجزیہ کار اور ایک غصیلہ میزبان(Anger Person) ڈونلڈ ٹرمپ کا وائٹ ہائوس میں داخلہ روکنے کی جد و جہد کر رہے تھے۔ بیچاروں کا حال اس چھپکلی جیسا تھا جو نمرود کی جلائی گئی آگ کو مزید تیز کرنے کے لئے انگاروں پر پھونکیں مارے جار ہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح مغرب کے مین سٹریم میڈیاکی تاریخ ساز ناکامی ہے۔ بڑے میڈیا ہائوسز کے ساتھ ساتھ عالمی مارکیٹ میں رائے عامہ کے تین بڑے تاجروں کا منہ کالا ہوگیا۔ سر فہرست، کمرشل بنیادوں(Paid Content) پر دنیا کے امیر لیڈرز کے حق میں سروے کرنے والے ادارے، مقبولیت کی سند جاری کرنے والے میڈیا منیجر اور ان سے بھی بڑھ کر بھاری بھرکم لفظوں کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی عبرت ناک شکست کی پیش گوئیاںکرنے والے سیاسی پنڈت شرمندہ ہوئے۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں آمد بھی وکھری ٹائپ کی رہی۔ ٹرمپ نے کسی ریاستی عمارت (کیپٹل ہل) میں جانے سے پہلے ٹرمپ ٹاور سے دنیا کو چہرہ نمائی کروائی۔ امریکہ کی روایتی سیاست کا باغی ڈونلڈ ٹرمپ کرسی صدارت تک نہیں پہنچا تھا کہ مین سٹریم میڈیا نے کہنا شروع کر دیا، ٹرمپ کا اقتدار دو سال کے لئے ہے۔ ساتھ کہا، لوگ اسے مسترد کر دیں گے۔ اس کا مواخذہ ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ احتجاجی جلوس اور گھیرائو جلائو بھی ہوا۔
یہ وکالت نامہ آپ کے ہاتھ میں پہنچنے تک ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں 48گھنٹے پورے کر چکاہو گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے ساتھ کیا کرے گا، امریکہ کے ساتھ کیا کرے گا، معیشت کے ساتھ کیا کرے گا، تارکین وطن کے ساتھ کیا کرے گا، پڑوسی ملکوںکے ساتھ کیسا سلوک روارکھے گا اور دنیا کے ساتھ ساتھ امریکی اسٹیبلشمنٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کیا کرے گی؟ ان سوالوں کے جواب کے لئے انتظار کی گھڑیاں ختم ہو چکی ہیں۔ ایکشن جاری ہے۔
وطن پرستی، عوام دوستی اور گورننس کے پاکستانی اور امریکی ماڈل ہمارے سامنے ہے۔ ہماری جمہوریت کے ماڈل میں پارلیمنٹ کے فلور پر بے بس مریضوں کے مرنے کا سوال اٹھانا فضول اور غیر متعلقہ بات ٹھہری۔ ہمارے لئے مریضوں کی دلجوئی کا واحد ماڈل ساری دنیا سے لئے گئے ''سوفٹ لون‘‘ ہیں۔ قرض تو قرض ہوتا ہے۔ جو قرضہ اربوں ڈالر کے سود سمیت واپس کرنا پڑے، وہ سوفٹ کہاں سے ہوگیا! جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کہتا ہے میں قرضے ختم کروںگا۔ یہاں وطن پرست کہتے ہیں، بتیس برسوں سے ہمارے ملک کو کھا کر ملک کو گالی دینے والے مہمان کو شناختی کارڈ دو، اسے پاسپورٹ جاری کردو۔ ٹرمپ کہتا ہے، غیر ملکی اجنبی امریکہ میں نہ رہیں۔ ہماری جمہوریت کہتی ہے، ملتان کا میٹرو، لاہور کی اورنج ٹرین، قطر کی ایل این جی اور میگا پروجیکٹس کے ٹھیکے والے معاہدے ''ٹاپ سیکرٹ‘‘ ہیں۔ ٹرمپ کہتا ہے، امریکی معیشت کو تباہ کرنے والے بین الاقوامی معاہدے اڑا کر رکھ دوںگا۔ پالیمانی تاریخ عمل سے لکھی جاتی ہے، چٹوں پر نہیں۔ یا لِلعجب! چٹ نے ہمارے وزیراعظم کا پیچھا ڈیووس میں بھی نہیں چھوڑا۔ ذرا سوشل میڈیادیکھ لیں۔ 
ٹرمپ کااصلی امتحان تب ہوگا جب اسے وزیر اعظم نوازشریف کی ''ِچٹوں‘‘ کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب سے لے کرحلف برداری تک ہیلری کلنٹن، امریکن اسٹیبلشمنٹ اورسٹیٹس کو کے مالکان کو چاروں شانے چت کردیا۔ مگر نواز شریف کی چِٹ ڈپلومیسی سے ٹرمپ کو شکستِ فاش ضرور ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں