نصف شب کے بعد 1940ء ماڈل کالے فون کی گھنٹی گمبھیر خاموشی کو چیرتی ہوئی کانوں تک پہنچی۔ ہاتھ بڑھا کر فون اُٹھایا۔ دوسری طرف سے ایوان بالا کا ایک ذمہ دار بولا: سر صبح 8 بجے آپ کا پاسپورٹ چاہیے۔ آواز سے لگا بولنے والا سخت دبائو میں ہے۔ میرے بولنے سے پہلے ہی کہنے لگا: سیئول میں انٹرنیشنل لیڈرشپ کانفرنس ہے جس میں سربراہانِ ریاست، حکومت اور پارلیمان کے ہیڈ شرکت کریں گے۔ یہ جنرل مشرف کا دور تھا اور میں اپوزیشن کی آوازوں میں سے فرنٹ لائنر۔ ساتھ ہی کہا: کل رات دس بجے لاہور سے آپ کی فلائٹ ہے‘ چیئرمین سینیٹ اچانک شدید ڈائریا کی وجہ سے نہیں جا سکتے‘ ان کی خواہش ہے اس موقع پر آپ پاکستان کی نمائندگی کریں‘ وہ آپ سے خود بات کریں گے۔ میں نے پاکستان کا مقدمہ لڑنے کا موقع ضائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ہاں کر دی۔ اگلی رات لاہور ایئرپورٹ سے بنکاک کے لیے روانہ ہوئے۔ شدید طوفان باد و باراں میں طیارہ ایئرپورٹ پر اترا۔ چند گھنٹے انتظار کے بعد پرواز کی تو برسات کی کڑکتی بجلیوں میں طیارے کے ٹائر بند ہونے سے پہلے ہی تھنڈر آ پہنچا۔ بدترین ہچکولے کھاتا ہوائی جہاز اللہ تعالیٰ کے سہارے آخرکار تائیوان ایئرپورٹ پر بہ عافیت لینڈ کر گیا‘ جہاں کئی گھنٹے کے مزید انتظار کے بعد تائی پے کے لیے رخت سفر باندھا۔ یہاں پھر کئی گھنٹے مزید رکنا پڑا اور ہم تھکے ہارے سیئول پہنچ گئے۔ سرکاری ڈیوٹی کے طور پر پارلیمنٹیرین یہ میرا بیرونِ ملک پہلا دورہ تھا۔ دوسری مرتبہ تب جب امریکہ کے تھنک ٹینکس سے خطاب کرنے کے لیے حکومت نے بطور وفاقی وزیر مجھے اس وقت بھجوایا‘ جب کچھ وزیر حضرات کے دورے شغلیہ نکلے۔
اگر کوئی صحافی پارلیمانی دورے کرنے والے خواتین و حضرات کی تفصیل مانگے تو تفصیلی فہرست دیکھ کر اِسے غشی کا دورہ پڑنا یقینی ہے‘ کیونکہ پارلیمنٹ میں ایسے اتالیق بیٹھے ہوئے ہیں جو بین الاقوامی امور کے لیے اکثر ایک ہی طرح کی ٹولیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ اتنے محب وطن واقع ہوئے ہیں کہ انہیں انگریزی سیکھنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔ میرے تین دوست وکیل یکے بعد دیگرے چیئرمین سینیٹ بنے۔ ان تینوں ادوار میں ان کی مہربانی تھی کہ مجھے پھر کسی خطرناک ''مشن امپوسیبل‘‘ پر جانے سے بچا لیا گیا۔ ان کے زمانہ چیئرمینی میں کبھی میرا نام پینل آف چیئرمین میں شامل کرکے سینیٹ کی چندگھنٹے صدارت کرنے کا رسک بھی نہ لیا گیا۔ پہلی اور آخری مرتبہ چیئرمین سینیٹ میاں محمد سومرو کے دور میں مجھے یہ فریضہ ملا۔ نہیں معلوم پچھلے سارے ادوار میں کتنے ارب یا کھرب خرچ کرکے پاکستان کے بیوروکریٹس، ریاستی ذمہ دار، پارلیمنٹیرینز باہر گئے‘ اور کس کس نے کتنے تحفے سرکار کے توشہ خانے میں جمع کروائے۔ یہ تفصیل اس وقت سامنے آئی جب برادرم کلاسرا نے اس تہلکے کو ہاتھ لگایا۔ تب میں پارلیمانی امور کا وزیر تھا۔ کیبنٹ ڈویژن، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میرے ذمے تھے۔ آج کل اعلیٰ ترین جوڈیشل فورم پر ایک اور قسم کے تحفے کا شور ہے۔ اگر کوئی احتساب گر یا تفتیش کار رئوف کلاسرا سے رابطہ کرکے توشہ خانوں کے تحفوں کی تفصیل لے تو اس سال مئی میں آنے والا بجٹ ان کی ریکوری سے بآسانی پورا ہو جائے گا۔ سونے کے صندوق، نقرئی تلوار، بندوق‘ ہیروں کے قیمتی ہار، کروڑوں روپے کی گاڑیاں، اُڑن طشتری جیسے صوفے اور ساری دنیا کے عجائبات کے نادر نمونے، انتہائی بیش قیمت ہینڈی کرافٹس، اینٹیک نوادرات، بغداد کے قالین اور پتہ نہیں کس کس طرح کے عجائبات زمانہ ان تحفوں کی تفصیل میں شامل ہیں۔ مغلوں کے دور میں ایسے تحفے ہدیہء تہنیت کہلاتے تھے۔ گورا صاحب نے ان تحفوں کو ڈالی کا نام دیا۔ وزیر اعظم پاکستان نے اپنے دفاع میں ایسے تحفے وصول کرنے والوں کو بڑا نایاب مشورہ مفت دے ڈالا۔ فرمایا: جو لوگ کرپشن کے پیسے اور جائیدادیں بناتے ہیں وہ کبھی ان کو اپنے نام پر نہیں رکھتے۔ لیکن توشہ خانے والے تحفے کس کس نے لنڈے کے بھائو اُڑا لیے‘ ان کے نام تو موجود ہیں۔ پاکستان کا نظامِ قانون و انصاف توشہ خانہ کی لوٹ مار پر کب بیدار ہو گا؟ قوم ''انتظار فرمائیے‘‘ کی لائن میں لگی گھڑی‘ وقت دیکھ رہی ہے۔ بات ہو رہی تھی اتالیق کی۔ جنرل ضیا کو بہترین اتالیق نصیب ہوئے‘ جنہوں نے اُن کی شیروانی میں ایک بٹن مارشل لا کا لگایا‘ دوسرا بٹن مغربی جمہوریت والا ٹانکا۔ اسی دور میں ایک لائف ٹائم اتالیق نے جنرل کو راز کی ایک بات بتائی۔ کہا: پاکستان کی یوتھ توڑ سکتا ہوں‘ وہ بھٹو کو بھول جائیں گے۔ اسی ''عطیہ‘‘ کے جواب میں انتہائی مناسب ہدیہ آیا اور امورِ نوجواناں کی وزارت بنا دی گئی۔ نوجوان بھٹو جیسے لیڈر سے تو کیا ٹوٹتے‘ اتالیقوں کے دن پھر گئے۔ گزشتہ دو دن لاہور میں گزرے‘ جو کبھی ''لاہور‘‘ ہوتا تھا۔ آج کل کنکریٹ جنگلے اور سریے کا جنگل نظر آتا ہے۔ پرانا لاہور نہیں ہے‘ لیکن چند لوگ اس جنگل کو منگل بنا کر رکھتے ہیں۔ انہی میں سے ایک مہربان تشریف لائے۔ فرمایا کہ میرے ایک مہربان نے اپنے کالم میں یہ تہلکہ خیز انکشاف کیا: پاناما کیس میں بابر اعوان بچ گئے۔ اس جملے نے مجھے رئوف کلاسرا کی شاہکار کتاب ''قتل جو نہ ہو سکا‘‘ پھر یاد دلا دی‘ جس میں ایک بڑے اتالیق نے سابق صوبائی منصف اعلیٰ کے مجوزہ قتل کی سٹوری بنائی۔ 'قتل جو نہ ہو سکا‘ والے سچے واقعے کے ایک سال بعد میں لاہور کے معروف وکیل پیر کلیم احمد خورشید صاحب کے فنکشن میں شریک ہونے کے لیے اسلام آباد سے آیا۔ لاہور کے صحافی اور کیمرہ مین کہنے لگے، آج گفتگو کی ضرورت نہیں‘ ہم آپ تک ایک فتویٰ پہنچانے آئے ہیں۔ واجب القتل کا یہ فتویٰ بھی ایک اتالیق نے ہی دیا تھا۔ ظاہر ہے اس کا مکتوب الیہ میرے علاوہ اور کون ہوتا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں نے واجب القتل کے اس حکومتی فتوے کے خلاف شدید احتجاج ریکارڈ کرایا اور فتوے کے خلاف قراردادیں پاس کیں۔ اس فتوے کے چند ماہ بعد پنجاب کے سابق سینیٹر وزیر ملک مشتاق اعوان نے پریشانی کے عالم میں فون کیا اور کہا: ابھی ملنا چاہتا ہوں۔ وہ گھر تشریف لائے اور بتایا کہ سابق وفاقی وزیر سردار میر باز خان کھیتران آ رہے ہیں۔ نڈرکھیران نے کہا: بات کہنے کی نہیں‘ لیکن بہت ضروری ہے۔ ان کے آبائی ضلع آواران، بلوچستان سے ملنے والی پنجاب کی سرحد سے ''تین فراری‘‘ اٹھائے گئے تھے۔ انہیں ملتان رکھ کر سات دن تک بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ واجب القتل والے فتوے کا اتالیق ان سے ملا اور انہیں کہا: قصور بتائوں یا کام؟ پھر انہیں کام بتایا‘ جس میں ایک وکیل کی اخباری تصویر تھی۔ کہا: یہ گوجرانوالا اور لاہور کے درمیان کا کام ہے۔ آپ کو لانے اور بحفاظت سرحد پار کروانے کے ذمہ دار ہم ہیں۔ کام نہ ہوا تو آپ ''پار‘‘ ہو جائیں گے۔ وکیل کون تھا، تصویر کس کی تھی؟ اس کی تفصیل سپریم کورٹ میں موجود ہے۔ اس حوالے سے پٹیشن کی سماعت میں اتالیق کا صرف اتنا موقف آیا: ''اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی سے بات ہوئی ہے۔ ہم نے ان کی تسلی کرا دی‘‘۔
آج کل پاناما کا ہنگامہ ہے‘ جس میں اتالیق پھر متحرک ہوئے۔ ان واقعات کے کچھ عرصے بعد مجھے محترم مجیب الرحمن شامی صاحب نے کمال مہربانی سے اپنے بالاخانہ پر دعوت دی۔ دل میں اتر جانے والی گفتگو سنی۔ لذیز کھانا معدے کی نذر کیا۔ باہر آیا تو انہوں نے عطا کی حد کر دی۔ پورچ میں مجھے اور میرے دوستوں کو رخصت کیا۔ ساتھ دعا دی: اللہ آپ کو صحت اور حفاظت سے رکھے۔ میں نے آمین کہا۔ اسی دعا کا اثر ہے کہ چل پھر رہا ہوں۔ ساتھ یہ بھی جانتا ہوں کہ رزق میں فراخی یا تنگی، عزت اور ذلت کے فیصلے، موت و حیات کے معاملے، زمین پر شاہی محل میں نہیں ہوتے۔ محترم شامی صاحب بھی مجھے کالم میں یاد کرتے ہیں۔ خاص طور پر جب ان کی ممدوح حکومت مجھ پر زیادہ مہربان ہو جائے۔
ٹی وی کے مزاحیہ پروگراموں میں جہاں بھی میری ''ڈمی‘‘ بنی ہے، اداکار ایک ڈائیلاگ ضرور بولتا ہے ''میں کسی کا نام نہیں لوں گا‘‘۔ احمد ندیم قاسمی پروین شاکر سمیت ہزاروں کے اتالیق تھے۔ میرے قبیلے میں عبدالقادر حسن صاحب جیسے قابل فخر اتالیق بھی۔ قاسمی صا حب کی روح میں اتر جانے والی نعت کا شعر ہمیشہ سے میرا ''ماٹو‘‘ رہا۔
دستگیری میری تنہائی میں تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا