"SBA" (space) message & send to 7575

دی لیڈر

1979ء کے آغاز میں مجھے کنگ سعود یونیورسٹی میں سکالرشپ ملا۔ اسی سال پی آئی اے کا ایک طیارہ طائف کے تاریخی شہر کی پہاڑیوں میں گرا تھا۔ اسی سال جہیمان العتیبی کے گروہ اور اس کے نوجوان ساتھیوں نے مکہ میں کعبہ شریف پر قبضہ کی مذمو م حرکت کی۔ کئی سال تک پی آئی اے کے اس طیارے کے گرنے کی سازشی کہانیاں زیر گردش رہیں۔ اسی ہوائی جہاز میں زمانہ طالب علمی کے میرے دوست جی این بٹ کی والدہ اور والد بھی سوار تھے جو حج کے فوراً بعد واپسی کے سفر میں شہید ہو گئے۔ میں سیدھا جی این کے پاس پہنچا اور دعائے مغفرت کی۔ زندگی کے پہلے عمرہ کی سعادت کے وقت سے وہی میرے اور میرے خاندان کے معلم چلے آتے ہیں۔ جی این بٹ کے ساتھ ہی کچھ سال قبل مدینہ شریف کے باہر غزوہ اُحد کے میدان کی پشت پر کھڑے پہاڑوں میں اس غار کی تلاش شروع کی جہاں دندان مبارک کی شہادت کے بعد آقائے نامدار ﷺ نے دنیا کی پہلی اسلامی ریاست کے کمانڈر اِن چیف کی حیثیت سے جنگ کی قیادت فرمائی۔ وہ ریاست جو ہجرت کے دن بننا شروع ہوئی اور فتح مکہ کے روز اس کی تکمیل ہو گئی۔ دنیا کی تاریخ میں آپؐ کے امتی عاشق ہی نہیں بلکہ مستشرق بھی آپ ؐکو لیڈرشپ کا رول ماڈل مانتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں محسن انسانیت اور عالم انسانیت کے عظیم ترین لیڈر حضرت محمد مصطفی ٰﷺ کی ٹیم کی طرف۔ 
آپؐ کے اس جہاں فانی سے پردہ فرما جانے کے بعد نجد کے قریب یمامہ کے مقام پر جھوٹے نبیوں کی یونین اور ان کے سربراہ مسیلمہ کذاب نے 50,000 کا لشکر جمع کیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس فتنے کے خاتمے کے لیے خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں4 سے 5 ہزار کا لشکر بھیج کر منکرین ختمِ نبوت کا خاتمہ کیا۔ ساتھ ہی منکرینِ زکواۃ کے خلاف نازک زمینی صورتِحال سے بے پروا ہو کر کامیاب جنگ لڑی۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے باڈی گارڈ ساتھ نہیں لیے، خیبر کے دروازے پر پہنچ کر مرہب کو خود للکارا اور اُسے اس کے غرور سمیت واصلِ جہنم کر کے شجاعت کی اَن مٹ تاریخ رقم کر دی۔ سیدنا عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو حضرت ارقمؓ کے گھر خفیہ تبلیغ ہوتی تھی۔ تلوار نیام سے نکالی اور دربارِ رسالتؐ میں عرض کیا تشریف لائیے چلیے کعبہ میں نماز ادا کریں گے۔ سیدنا عثمان غنیؓ نے اس وقت کے 50,000 آج کے 50 سو کروڑ اپنی گرہ سے خرچ کر کے یثرب کے یہودیوں سے میٹھے پانی کا کنواں خریدا۔ پھر یہ کنواں آپؓ نے بلا معاوضہ عام شہریوں کے حوالے کر دیا۔ یہ ہیں خاتم اُلمرسلینؐ کی ذاتی تربیت میںتیار ہونے والے لیڈرز۔
نبوت کے اعلان کی طرف دیکھیں تو اﷲ کے آخری رسول ﷺ پہاڑ پر جا کھڑے ہوئے۔ جہاں سے آپ ﷺ مکہ کے مشرکوں سے گواہی مانگتے ہیں کہ اگر میں آپ سے کہوں پہاڑ کے پیچھے لشکر تم پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے تو کیامان لو گے۔ اجتماع جواب دیتا ہے، جی ہاں آپ ﷺ کی بات ضرور مان لیں گے، اس لیے کہ آپ ﷺ صادق اور امین ہیں۔
دی لیڈرز کا اگلا مرحلہ آخری نبوت کی چار مشعلوں کے بعد عمر ثانی سیدنا عمر بن عبدالعزیز ؓکے دور میں شروع ہوا۔ روکھی سوکھی کھانے والا عمر بن عبدالعزیز جیسا بادشاہ تاریخ نے پھر نہ دیکھا۔ اسلامی ریاست کے سارے خزانے عمر ثانی کی دسترس میں رہے لیکن شاہی لباس سے دوری برقرار رہی۔ حکمرانی کا کر وفر نہ ہم نفسوں کو برتری کا احساس دلانے کی طرف توجہ۔ تاریخ انسانی کو عمر ثانی جیسے عجز و نیازکا چلتا پھرتا نمونہ شاید ہی کوئی اور دکھائی دے۔ 
ایک اور منظر دیکھیے، یہ بیت المقدس ہے۔ جہاں 1105ء کا سب سے طاقتور کمانڈر انچیف مغرب کے صلیبی بادشاہوں پر غالب آچکا ہے۔ آخری صلیبی جنگ کا آخری میدان سجا ہے۔ صلیبی سپاہ کا بادشاہ امن کا کاسہ لے کر باہر نکلتا ہے۔ سفید جھنڈا اٹھائے عیسائی بادشاہ اپنے اوپر غالب آنے والی عساکر کے چیف کو باڈی گارڈ کے بغیر گفتگو کے لیے اکیلا بُلاتا ہے۔ صلیبیوں پر غالب فوج کے کمان دار کے لب پر یہ دعا جاری ہے: اَلَھُم اجَعلنیِ صغیراً فی عَینی وَکبَیراً فی عُیُونِ النّاس۔ (اے میرے رب مجھے اپنی نظروں میں حقیر اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بنا دے۔) آخری صلیبی جنگ کے کمانڈر انچیف اور مسلم سپاہ کے آرمی چیف کے درمیان وَن آن وَن امن مُذاکرات کا ڈائیلاگ تاریخ کے صفحات میں یوں محفوظ ہے:
صلیبی بادشاہ: ہم بیت المقدس سرنڈر کرتے ہیں۔ کیا آپ ہمیں امن اور سلامتی کے ساتھ پسپائی کی اجازت دیں گے تاکہ ہم سمندر تک پہنچ کر اپنے بحری بیڑوں میں یورپ واپس چلے جائیں؟
فاتح فوج کا کمانڈر: جی ہاں! فوجی، بادشاہ، شہزادے، شہزادیاں اور جو کوئی آپ کے ساتھ جانا چاہے سب کو بحری بیڑے تک عزت اور حفاظت سے پہنچایا جائے گا۔ 
صلیبی بادشاہ: آپ ہمیں حفاظت اور عزت سے کیوں جانے دیں گے؟جب ہم نے بیت المقدس فتح کیا تو ہمارے گھوڑوں کی ٹانگیں مسلمانوں کے خون میں ڈوب گئی تھیں، آپ ہمیں کیونکر زندہ چھوڑیں گے؟
فاتح فوج کا کمانڈر: اس لئے کہ میں صلاح الدین ایوبی ہوں، تم صلیبی بادشاہ تھے۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ جنگ کے سب سے ہیبت ناک کمانڈر نے امن کی خواہش رکھنے والے محصور قیدیوں کو لائو لشکر سمیت، خون کا ایک قطرہ تک بہائے بغیر، اپنی سپاہ کی نگرانی میں میدان جنگ چھوڑ کر واپس جانے دیا۔ 
یہ تھے عظیم فاتح اور عظیم لیڈر حضرت صلاح الدین ایوبی۔ 
مفکر پاکستان، شاعر مشرق کے ذہن میں بھی ''دی لیڈرز‘‘ کا ایسا ہی تصور تھا۔ اسی لیے علامہ اقبال نے محمد علی جناح کو برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کرنے پر راضی کیا۔ اقبال کا سیادت و قیادت کا تصور یوں ہے: 
ہزار خوف ہوں لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق 
آج کی ہماری لیڈر شپ کے پیمانے کیا ہیں؟ دو عدد لیڈرز ''ان دی میکنگ‘‘ کے فرمودات سے جان لینے میں آسانی ہوگی۔ پہلے نے کہا: ''بَچّو، کرپشن کرپشن ہوتی ہے، جو ہوتی رہتی ہے‘‘۔ دوسرا بولا: ''وزیر اعظم کے لئے صادق اور امین ہونے کی شرط کہاں سے ضروری ہوگئی‘‘۔
دنیا واقعی بدل گئی ہے۔ امن اور جنگ کے اصول بھی۔ اسی لیے عرشی نے پکار کرکہا تھا:
پرندے اب نہیں آتے
نہ اب کنکر برستے ہیں
بموں اور گولیوں کے بالمقابل 
کیا کریں کنکر۔۔۔۔؟
ابابیلوں کے غول 
اس کشت و خوں سے ڈر گئے شاید 
مسلماں بستیوں سے
وہ بھی ہجرت کر گئے شاید
یہاں پر مست ہاتھی بن کے حاکم دندناتے ہیں
فلک کی سمت اٹھتی ہیں مدد کے واسطے نظریں۔۔۔
فرشتے دیکھتے تو ہیں
مگر آنکھیں چُراتے ہیں
پرندے اب نہیں آتے، نہ اب کنکر برستے ہیں
فلک کی سمت اُٹھتی ہیں نگاہیں
دل ترستے ہیں
ہماری کس مپُرسی دیکھ کر کفار ہنستے ہیں
بہت آوازے کسَتے ہیں 
پرندے کس لیے آئیں
گرائیں کس پہ وہ کنکر۔۔۔۔؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں