اس نے قوم سے عہد کیا تھا جونہی قصرِاقتدارمیں پہنچوں گا انتخابی مہم کے وعدوں پر عمل درآمدمیراپہلا کام ہوگا ۔لوگوں نے اس کے وعدے پر یقین کرلیا۔ چنانچہ اس نے مخالف امیدوارکو ان علاقوں میں بھی شکست دے دی جہاں کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتاتھا ۔سوشل میڈیا،کارپوریٹ میڈیااور سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے اس کاراستہ روکنے کے لیے ایم ایم اے بناڈالی ۔ یہ جنرل مشرف والا مُلاں ملٹری الائنس نہیں تھا بلکہ یہ میڈیاملٹری الائنس بن گیا۔ آخری ووٹ کی گنتی تک اس ایم ایم اے نے اُسے ہاراہوا کھلاڑی بتایا ۔اُس نے امریکی ایم ایم اے کا سب سے بڑابُرج الٹادیا۔ اس طرح ڈی جے ٹرمپ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا 45واں صدر بن کر وائٹ ہائوس میں جاپہنچا۔ اس نے پہلے دن اڑھائی درجن سے زیادہ ایگزیکٹوآرڈرجاری کیے۔جن کوہمارے پارلیمانی نظام میں صدارتی آرڈیننس کہاجاتا ہے ۔
اسی دن سے امریکہ کے ریاستی اداروں،عوام اورسول سوسائٹی کا امتحان شروع ہوگیا ۔امریکی صدر کو ایگزیکٹوآڑدرجاری کرنے کا اختیارہے ۔قوم کے پاس ایسے آرڈرماننے کا قانونی آپشن موجودنہیںلیکن اظہارِرائے کا ایک لا زوال آپشن ہے۔سول سوسائٹی اکثریتی رائے عامہ کی ترجمان سمجھی جاتی ہے جبکہ امریکہ کے ریاستی ادارے امریکی ریاست کے محافظ گردانے جاتے ہیں۔لیکن ریاست کے ان تینوں عناصرنے دنیا کے سب سے طاقتورصدرکے سامنے" نومسٹرپریذیڈنٹ" کاعلم بلندکردیا ۔
آئیے پہلے چلئے عوام کی طرف۔ عوام امریکہ کو اپنے لیے مواقع کی سرزمین کہتے ہیں۔جہاں ہرکسی کے لیے قانون اورآئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ترقی کرنے کا راستہ کھلاہے ۔اسی راستے سے ابراہم لنکن جیساوکیل اوربارک حسین اوباما جیساکالا نیگروقصرسفید میں 8سال تک بیٹھارہا ۔عوام نے کمال کردیا۔ جس کاسب سے بڑامظاہرہ اسی ہفتے تب ہوا جب ایک شدت پسند امریکی شہری نے دوہندوستانیوں کوشکل وصورت کی وجہ سے عرب سمجھ لیا اوران پر فائرنگ کرڈالی ۔ایک اورامریکی گورافائرنگ دیکھ کر خوف زدہ ہونے کی بجائے اپنے ملک کے ہندوستانی شہریوں کی زندگی بچانے کے لیے چھاتی تان کرگولیوں کے سامنے کھڑاہوا۔اسے تین گولیاں لگیںوہ ہسپتال لے جایاگیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کا جسدچیرپھاڑکر گولیاں اس کے جسم سے نکال لیںاوراس کی زندگی بچادی۔امریکی صدرنے مسلم شدت پسندی کانعرہ لگایا توملک کے طول وعرض میں ادیب ،شاعر،اداکار،سیاسی لیڈراورعیسائی مذہبی رہنما سامنے آگئے۔ امریکہ کی نادرا کو درخواست کی کہ ان کے آئی ڈی کارڈمیں مذہب کاخانہ تبدیل کرکے عیسائی کی جگہ مسلم لکھاجائے ۔امریکہ کے یہ عام لوگ آج کل دنیاکے سب سے طاقتورصدرکے لیے" اصلی لوہے کے چنے" ثابت ہوئے ہیں ۔وہ روزانہ اپنے منتخب صدرکویاددلاتے ہیںکہ ان کی موجودگی میں امریکہ کاصدراپنی پبلک کی مرضی کے خلاف قومی زندگی کاکوئی صفحہ پھاڑکر دوبارہ نہیں لکھ سکتا ۔امریکہ کے مظاہرین میںبھاری اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کاسیاست سے دوردورکا واسطہ نہیں،یہ پڑھے لکھے، روشن خیال سوشلسٹ ڈیموکریٹس ہیں۔ جن کی سوچ یہ ہے کہ غریب ملکوں کے مہاجروں کوامریکہ نے جو چھت اور شناخت فراہم کی وہ اُن کا صدربھی واپس نہیں لے سکتا ۔
احتجاج کی یہ لہربین الاقوامی ضمیر جھنجوڑرہی ہے ۔اسی کی وجہ سے یورپ کے اکثرملکوں کے حکمران امریکی صدر ڈی جے ٹرمپ پرتنقید کرنے والوں کی پہلی صف میں دکھائی دیتے ہیں۔احتجاج کی اس عوامی لہر نے ایک اورمعجزہ کردکھایا ۔امریکہ کے بلڈر، میگا پروجیکٹ بنانے والی کمپنیوں اورٹھیکہ داروں نے ڈی جے ٹرمپ کی مشہورزمانہ دیوارکی تعمیرکا ٹھیکہ لینے سے انکارکردیا ۔ان کمپنیوں کا کہناہے ہم اپنی رائے عامہ کااحترام کرتے ہوئے پڑوسی ملکوں کی سرحدپرمتنازعہ دیواربنانے کے جرم میں شریک نہیں ہوں گے۔ امریکی سول وارکے بعد پہلی مرتبہ کسی صدرکے خلاف عوامی مزاحمت کی اتنی زوردارتحریک چل رہی ہے ۔لطف کی بات یہ ہے کہ اس تحریک میں نہ کوئی سیاسی جماعت شامل ہے نہ ہی اس کی قیادت کسی سیاست دان کے ہاتھ میں ہے ۔تازہ امریکی مزاحمت میں ہرعلاقے ،ہرنسل ،ہرمذہب اور ہررنگ کے لوگ شامل ہیں ۔
اس اَپ رائزنگ کا خاص پہلو امریکہ میں طلبا تحریک کی بحا لی ہے ۔ ویت نام پر امریکی جارحیت کے خلا ف امریکی طلبا رائے عامہ کی طا قت اور اقتدار کی لابیوں پر اثر انداز ہوئے اور ویت نامی شہریوں کے قتل عام کے خلاف فیصلہ کن مزاحمت کی۔ عراق حملے کے بعد صدام حسین نے اسے'' اُم اُلحَرب ''کہا تھا ۔عراق پر امریکہ اور ا س کے اتحادیوں کا حملہ 100 فیصدکئی جنگوں کی ماں ثابت ہوا۔اس جنگ میں امریکہ کے ریاستی اداروں نے اس قدر جھوٹ گھڑا ،جس سے متاثر ہو کر طلبا تحریک غیر فعال ہو گئی ۔خود امریکہ کے عوام کو طلبا تحریک کی اس غیر فعالیت کی سزا ڈی جے ٹرمپ کی صدرات کی صورت میں ملی ۔لیکن ڈی جے ٹرمپ کے آنے کا ایک اہم نتیجہ یہ بھی نکلا کہ امریکہ میں طلبا تحریک دوبارہ فعال ہو گئی۔ آج ملک کے طول و عرض میں جاری مظاہرے اسی تحریک کے مرہون ِ مِنت ہیں ۔اگر آپ پاکستان میں مو جودہ سیاسی کلچرپر ایک نظر ڈالیں تو سیاسی جماعتوں کی پہلی صف میں نظر آنے والے اِنویسٹرز اور ڈیلر ویلر کا اثر و رسوخ بھی تب شروع ہوا۔جب طلبا یونینزپر پا بندی لگائی گئی۔ساتھ ساتھ مزدور تحریک کو کمزور کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال ہوئے۔آج بھی اگر ترقی پسند اور جمہوریت دوست طلبا اورمزَدُور اکٹھے ہو جائیں ،تو جھوٹ، رشوت اور سرمائے کے گملے میں پرورش پانے والا نظام دھڑام سے گر جائے گا۔اسی لئے سیاسی جماعتیں طلبا یونینزکی بحالی کا مطالبہ تو کرتی ہیں ۔لیکن ان کی بحالی کے لئے عملی قدم اٹھانے کارِسک لینے کو کوئی بھی تیارنہیں۔
کوئی بھی کا سیدھا مطلب پنجاب، سندھ، کے پی کے، بلوچستان، گلگت بلتستان،آزادجموںکشمیراوروفاق میں برسر اقتدار سیاسی اشرافیہ ہے۔
امریکہ کادوسراطبقہ جوصدرڈی جے ٹرمپ کے خلاف مزاحمت کررہا ہے ،وہ ہے سول سوسائٹی ۔ہمارے ہاں سول سوسائٹی کہلانے والے لوگ اورانسانی حقوق کے چیمپئن ادارے دوحصوں میں تقسیم ہیں۔پہلاحکومت کا پرچم برداراور دوسرافنڈنگ کرنے والے ملکوں کے ایجنڈے کا علمبردار۔اسی لیے ماڈل ٹائون سانحہ ہویا اے پی ایس میں بچوں کاقتل عام شاہراہ دستورپر گرنے والے 7لاشے ہوںیامہنگائی ،بدامنی،بُری حکمرانی ان قومی مسائل پر ـ''پرچم بردار‘‘اور'' علمبردار‘‘دونوں ہمیشہ ایک ہی پیج پررہتے ہیں۔ان علمبرداروں میں سے کچھ نے تو سہ ماہی سروے جاری کرکے پانچوں انگلیاں مفادات کے گھی میں اورسراقتدارکی کڑاہی میں پھنسایا ہواہے ۔امریکہ کے ادارے اپنے ہی صدرکے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں ۔وائٹ ہائوس منتظمین سے لے کرایف بی آئی تک مختصرلفظوں میں یہ کہنا بے جانہیں ہوگاکہ امریکی ریاست کے عوام،ادارے اورسول سوسائٹی دنیا کے طاقتورترین صدرکے سامنے حرف انکار کو اعزازسمجھتے ہیں ۔
ایک ہم ہیں اورہمارے ادارے جن پر پشتوکہانی فٹ آتی ہے۔ بزرگ نے علاقے کے ممبراسمبلی سے کہا تمھیں شرم نہیں آتی ہروقت اقتدارپر نظررکھتے ہو۔ممبربولا شرم کس بات کی میرامؤقف اصولی ہے ۔میری نظرتخت پربیٹھے ہوئے شخص کے جوتوں پرہوتی ہے۔تخت پر کوئی بھی بیٹھ جائے جوتے وہی رہتے ہیں۔جوتے سے یادآیاآج کل "جوتے مارونامی ویڈیو"سوشل میڈیا پر بہت رش لے رہی ہے ۔عوام کے نام یہ ویڈیواصل میں خواص کو پیغام دیتی ہے۔ ویسا ہی پیغام جیسا امریکی ادارے ،عوام اورسول سوسائٹی ڈے جے ٹرمپ کوہرروز دے رہے ہیں ۔