وزیر اعظم نے کمال کی بات کہی ہے۔ ویسے توکمال کے بارے میں کمال کا فقرہ یہی ہے کہ ''جو لو گ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں‘‘ لیکن آپ پہلے کمال کی وہ بات سن لیں جو کے پی کے میں ہارے ہوئے سیاسی جواریوں کی بارات کے جلو میں وزیر اعظم نے کہی۔ کرم تنگی ڈیم کا افتتاح کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا: اگر ادارے اور حکومت مل کر کام کریں تو پاکستان کمال ترقی کرے گا۔ مجھ جیسے عام لوگ ایسی باکمال جمہوریت کی موجودگی میں کنفیوز ہیں کیونکہ جب باکمال جمہوریت کے لازوال لیڈر پاکستان کی ''ترقی‘‘ کی بات کرتے ہیں تو ان کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اس کنفیوژن کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ باکمال جمہوریت خود ہے، جس نے قومی زندگی کے گزشتہ 70 سالوں میں تعلیمی بجٹ کبھی جی ڈی پی کا 1.50 سے 2 فیصد سے اوپر نہیں جانے دیا۔ نیا قومی بجٹ آنے میں تقر یباً 100 دن باقی رہ گئے ہیں۔ پاکستان کی ترقی کے خواہش مند جمہوریت پسند بجٹ کے ساتھ کیا کرتے ہیں، اس کی ایک جھلک کے لیے پی ایس ایل کا ایک میچ دیکھ لیں۔ قذافی سٹیڈیم کے اس میچ میں 22کھلاڑی، 4 ایمپائر، 20 کیمر ہ مین، 10 کمنٹری ایکپسرٹ، 300 میڈیا کے نمائندے، 200 میٹل ڈی ٹیکٹر، واک تھرو گیٹ، 16ایکسرے مشینیں، 800 بم ڈسپوزل سکواڈ کے ممبر، 1000 سراغ رساں کتے مع نگران، 1200عساکر، 15000پنجاب پولیس، پورے صوبے کی انتظامیہ، تمام تر حکومتی ذرائع، ہاکی گرائونڈ میں بنایا گیا عارضی ہسپتال، چار نادرا کی گاڑیاں انگوٹھے سے بائیومیٹرک چیک کرنے کے لیے۔ باقی پولیس، رینجرز، خفیہ والے، صفائی والے اور نگرانی والے حکمرانوں کی حفاظتی ڈیوٹی پر چوکس۔
ٓٓآپ سب سیانے ہیں، خود اندازہ لگا لیں؛ واپڈا کی بجلی، لاہور میں ایک دن سارے کاروبار کی بندش اور باقی جو بچا وہ لاہور کے باکمال یو سی چئیرمین، ایم پی اے اور میئر لے گئے تاکہ پی ایس ایل کے دوران کوئی گو نواز گو کا نعرہ لگانے والا ترقی کا دشمن گرائونڈ میں نہ گھس سکے۔
بات شروع ہوئی تھی وزیر اعظم کے باکمال بیان سے اور وہ یہ کہ ادارے اور حکومت مل جائیں تو مسائل کے حل کا امرت دھارا بَن جائے گا۔ اس سوال کا جواب کون د ے گا کہ اداروں نے ایران سے بلوچستان میں داخل ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھو شن یادیوکی گرفتاری کا اعلان کیا۔ کلبھو شن یادیو نے سندھ، بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں بھارتی دہشت گردی منظم کرنے کی تفصیلات بتائیں اور اعتراف بھی کر لیا۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کلبھو شن پر مقدمہ چلانے کا عندیہ دیا۔ ایوانِ بالا میں مشیرِ خارجہ بزرگوار سرتاج عزیز سے سوال ہوا، وزیراعظم نے ابھی تک کلبھو شن یادیو کا نام کیوں نہیں لیا؟ لاجواب جمہوریت کے باکمال مشیرِ خارجہ نے انکشاف کیا نوازشریف کلبھو شن یادیوکا نام ''مناسب وقت‘‘ پر لیں گے۔ پاکستان کے دو آرمی چیف بھارتی جاسوس کا نام لے چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف اپنے دوست نریندر مودی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھو شن یادیو کا نام لے کر اداروںکو اکٹھا کیوں نہیں کر دیتے؟ پاکستان کے سارے ادارے بلکہ ہندوستان کے بھی سارے ادارے پاکستان میں دہشت گردی منظم کرنے میں ''را‘‘ کو ملوث سمجھتے ہیں۔ لیکن اداروں اور حکومت کو اکٹھا کرنے کی خواہش رکھنے والے حکمرانوں نے چار سالہ اقتدار میں 'را‘ کا نام تک کیوں نہیں لیا؟
ایل او سی پر بھارت مسلسل گولہ باری کرتا ہے۔ پاکستان کے سارے ادارے، میڈیا اور سیاسی لیڈر اس کی مذمت کرتے ہیں ماسوائے وزیر اعظم کے، جن کے ڈھیلے ڈھالے بیان میں نہ 'را‘ کا نام آتا ہے نہ ہی نریندر مودی کا۔ بھارتی وزیر اعظم اور 'را‘ پاکستان کے سابق آرمی چیف پر من گھڑت الزامات کی گولہ باری کرتے ہیں، جس کی تازہ مثال انڈین ریلوے کی ایک ٹرین کا ڈی ریل ہونا ہے۔ ریلوے کے اس حادثے کی ذمہ داری براہ راست مودی نے پاکستانی اداروں پر ڈالی۔ طے شدہ عالمی اصول یہ ہے کہ اگر کوئی وزیر اعظم کسی ملک پر الزام لگائے تو متعلقہ ملک کا وزیراعظم ہی اس الزام کا جواب دیتا ہے۔ ریلوے حادثہ الزام کے جواب میں ہمارے وزیر اعظم نے ترکی سے بیان جاری کیا۔ فرمایا: میں بھارت سے تجارت اور دوستی کا خواہش مند ہوں، حالانکہ وزیر اعظم کو مودی کے الزام کا جواب دینا چاہیے تھا۔ ایسا نہ ہونے پر اگر ہمارا کوئی اور ملکی ادارہ بھارتی وزیر اعظم کو جواب دے تو لگے گا کہ حکومت اور ادارے الگ الگ زبان بول رہے ہیں۔ آپ خود سوچ لیں، اداروں اور حکومت کے ایک جیسے موقف نہ ہونے کا ذمہ دارکون ہے؟ ملک میں چوٹی کے معاشی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہماری معیشت تیزی سے نیچے گر رہی ہے۔کرم تنگی میں نواز شریف نے کہا معشیت بہت مضبوط ہے، ڈالروں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ عنقریب پاکستان ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ معاشی ادارے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں اور لاجواب جمہوریت کی باکمال حکومت نیرو والی بانسری بجانے میں مشغول ہے۔
ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پر چار چار زچہ اور بچہ پڑے ہیں۔ دل کے مریضوں کا علاج اُنھیں ٹھنڈے فرش پر لٹا کر کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ریلوے اسٹیشن ویران ہیں اور ہسپتالوں میں جلسے جیسا رش رہتا ہے۔ اگلے دن ملتان سے خبر آئی، شہباز شریف نے شہباز شریف ہسپتال کا دورہ کیا۔ دل خوش کر دینے والی یہ خبر عوام کو سر گنگا رام کے دور میں واپس لے گئی۔ ایک زمانہ تھا
حکمران اشرافیہ اور مالدار لوگ اپنے خرچے پر ہسپتال، پارک، سکول، ڈسپنسری، سرائے اور سڑک بنواتے تھے۔ پھر اس پراجیکٹ کو اس شخص کے نام سے منسوب کیا جاتا، جس نے اپنے لوگوں کے لیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، ذاتی کمائی سے خرچ کیا اور دوسروںکو خیرکے کام کی طرف متوجہ کرنے کے لیے پراجیکٹ اس کے نام ہو گیا۔ آج اگر عوامی سروے کرنے والا کوئی ادارہ چاہے تو ایک بہت دلچسپ اور معنی خیز سروے ہو سکتا ہے، جس میں ایک طرف لبرل مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر عرف مغلِ اعظم اور صوم و صلاۃ کے پابند شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی بادشاہی کے زمانے کو سامنے رکھا جائے، ان دونوں لبرل اور مذہبی بادشاہوں نے برما سے لے کر کوہ قاف تک اپنے نام پر اتنے پراجیکٹ نہیں بنائے جتنے پراجیکٹ ہمارے آج کے دو عدد بادشاہوں نواز شریف اور شہباز شریف سے موسوم ہیں۔ یہاں ان پراجیکٹس کی بات ہو رہی ہے جن میں پیسہ سرکاری خزانے کا لیکن نام شریف برادران کا لگتا ہے۔ حبیب جالب نے ایسے ہی کسی موضوع پر کہا تھا ؎
نام چلے ہر نام داس کا
کام چلے امریکہ کا
وہ پرائمری سکول، ہائی سکول، کالج، پل، سڑکیں، ہسپتال، پارک، ڈسپینسریاں، جانوروں کے ہسپتال، ڈینگی سپرے سینٹرز، درجنوں میں نہیں سیکڑوں سے زیادہ ہیں جو ٹیکس گزاروں کی آمدنی سے بنائے گئے، لیکن ان کا نام نواز شریف پارک اور شہباز شریف ہسپتال رکھا گیا۔
قوم کماتی ہے۔ حکمران خرچ کرتے ہیں۔ کچھ اپنے نام پر کچھ پاناما کے!
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں۔ باکمال جمہوریت کے کمالات جاری ہیں۔ مہنگائی میں اضافہ، تنخواہ میں کمی، ٹیکس میں اضافہ، ریلیف میں کمی۔