محاورے وعدے نہیں ہوتے جن کی ہمیشہ پاسداری کی جائے۔ بلکہ محاورے انتخابی وعدے ہوتے ہیں جن کا مطلب موسم کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ جس زمانے میں پنجاب گندم اور سبزیوں میں خود کفیل تھا اُس زمانے کا محاورہ تھا ''سوال گندم جواب چنا‘‘ آج کل مرغی پاکستان سے باہر اُڑ گئی ہے ۔ ٹماٹر اتنے مہنگے ہیں کہ جمہوری حکمرانوں کو کوئی آدھا کِلوخرید کر مار بھی نہیں سکتا۔ کسی زمانے میں پنجاب کی نیلی بار کی بھینسیں ناشتے میں آلو کھاتی تھیں، لیکن آج کل آلو سیاسی لوگوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا ہتھیار بن کر رہ گیا ہے۔
دو دن پہلے مرحوم خاتون وکیل ناہیدہ محبوب الٰہی کی شاگرد شاہدہ سکھیرا ایڈووکیٹ لیڈی لائیرز کے ایک گروپ کے ساتھ ملنے کے لیے تشریف لائیں۔ ہر کسی کے پاس پوچھنے کے لیے دوسوال تھے۔ پہلا پاناما اور دوسرا بھی پاناما کا محفوظ فیصلہ۔ اگلے روز سپریم کورٹ میں مالاکنڈ کے شریعت بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں پیش ہوا۔ بحث کے بعد کورٹ روم کے دروازے پر مقدمے کے مخالف فریق اکٹھے ہو گئے۔ ان دونوں متحارب فریقوں کے پاس بھی دوہی سوال تھے۔پہلا سوال پاناما اور دوسرا پا ناما کیس کا محفوظ فیصلہ۔ شہر اقتدار کے سب سے بڑے ہوٹل میں تقریب کے شُر کاء پاناما اور پاناما کے محفوظ فیصلے سے باہر نہ نکل سکے۔ سفارتی حلقوں کی اس تقریب میں کئی سوال اور اُٹھائے گئے۔ مثال کے طور پر یہ سوال ۔ مِسٹر بابر، آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے۔ اتنا اہم ملکی مقدمہ اور فیصلہ ایک مہینے سے زیادہ محفوظ پڑا ہے۔
آخر کیوں؟ ایک اورسوال یہ تھا کہ ملک کے سب سے بڑے مقدمے میں اس قدر تاخیر کا مطلب کیا ہے۔ ایک سوال اور بھی تھا۔ عدالتِ عظمی نے تفصیلی بحث کی سماعت کے بعد شارٹ آرڈر کیوں نہ جاری کیا۔ سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہی تھا کیا اب بھی شریف فیملی کے خلاف فیصلہ نہیں ہو گا۔ سوالوں کے نام پر اچھی خاصی جرح کرنے والوں نے ــــــــــــ``اب ایک بار پھر`` پر بہت زور لگایا۔ میرے ساتھ والا ٹیبل خاصا رش لے رہا تھا۔ وہاں سے اُٹھ کر ہمارے ٹیبل پر آنے والے رضاکار مخبر نے انکشافات کا مینا بازار لگا دیا۔یہی کہ کون کس کے پاس پہنچا،کس نے'' ہولا‘‘ ہاتھ رکھنے کی بات کی۔ نواز شریف کے ماورائے ریا ست دوستوں کے ہوائی جہاز مسلسل کہاں کہاں کی اُڑانیں بھر رہے ہیں۔ امریکا کو کیا سوٹ کرتا ہے۔ چین کی کمزور کمپنیوں کی قرضے کے نام پہ سرمایہ کاری خطرے میں ہے۔ چین کیا چاہے گا۔
بنگلہ دیش کے سفارت خانے کی ایک تقریب کے نام پر پاکستان میں افغانی سفیر اور بھارت کے سفیر سے کس نے ملاقات کی۔ ملک کے 3بڑے کس طرف کھڑے ہیں۔ جب سے پی ایس ایل کے پیٹ سے ای سی ایل کے جِنّ نے جنم لیا، بُکی بے روز گار ہونے لگے تھے۔اب ہر طرف اندازے ہیں ۔ لنگر گپ ہے اور افواہ سازی کی فیکٹریاںبھی۔اس پا نا ما ہنگا مہ کے دو منہ ہیں۔ایک سے شعلے ابلتے ہیںاور دوسرے سے قہقہے نکلتے ہیں۔سَٹہ بازوںکواس کے علاوہ کو اور کیا چاہیے۔یہ تو چھوٹے موٹے سَٹہ بازوں کا تذکرہ تھا۔جن میں سے کچھ ملین والے ہیںاور باقی زیادہ سے زیادہ کروڑ والے ۔لیکن اب توبڑے َسٹہ باز بھی میدان میں کود پڑے ہیں۔ کچھ خدمت کا لیبل لگا کراور کچھ دوسرے جمہوریت کے غم میںہلکان ہو کر۔لیکن دونوں کی طرف سے ٹارگٹ وَن ڈائون رکھا گیاہے۔آپ اصلی اپوزیشن کے وڈے لیڈروں کو ہی دیکھ لیں۔سب کے نشانے پر ایک ہی وفاقی وزیر رہتا ہے۔ دوسری جانب سے حیدر آبادی میمن برادری توپوں کی زد میںہے۔ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں چنے کا پکوڑہ بن سکتا ہے۔ اس کی ہلکی پھلکیاں پتلے دہی میںتیر سکتی ہیں۔ لیکن، نان، پراٹھا، تافتان،سموسہ اور جمہوریت جیسی سیدھی جلیبی گندم کے دانے سے نکلتی ہے۔اس لئے سندھ پر حملہ آور محمد بن قاسم ثانی اور پنجاب کی سیاسی چائے کی پیالی میں اُٹھا ہوا اُبال دونوں مل کر بھی قوم کی توجہ پا نا ما سے نہیں ہٹا سکے۔ پاناما کے دونوں سوال مطمئن کر دینے والے جواب تک سوشل میڈیا سے کارپوریٹ میڈیا تک اور دیہات سے میگا شہروں تک ٹھنڈ ے نہیں ہو سکتے۔ جمہوری محنت کشوںنے بڑی محنت کے بعد میموگیٹ کے مفرور کردار کو پھر متحرک کرلیا۔اگر وزیراعظم ایچ ایچ کے خلاف ذرہ بھر بھی سنجیدہ ہوتے تو کالا کوٹ پھر پہن لیتے ۔ ہمارے ساتھ سپریم کورٹ کی سیڑھیاں دوبارہ چڑھتے۔ میموگیٹ مقدمہ میں تازہ درخواست ڈالتے اورایچ ایچ کو منطقی انجام تک پہنچا دیتے۔ ایک اوراہم مقدمہ کی فائل بھی وزیراعظم کی توجہ کی طالب پڑی ہے۔وہ ہے ڈان لیکس کیس۔ ان دونوں مقدمات میں اعلیٰ ترین ملزموں پر ''سکیورٹی بریچ‘‘ کا الزام آیا۔ دونوں مقدموں میں کمیشن تشکیل پائے۔ دونوں مقدموں کا نتیجہ ابھی تک محفوظ ہے۔
محفوظ سے یاد آیا انگریزی میں محفوظ کو''safe‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی لیے اسلام آباد اور لاہور کو سیف سٹی کا درجہ دیا گیا یعنی محفوظ نام والے غیر جڑواں شہر ۔ پاناما لیکس کا محفوظ شدہ فیصلہ غیر اہم ہوتا تو نواز شریف الیکشن سے ایک سال پہلے انتخابی مہم شروع نہ کرتے۔ میڈیا میں اپنے دفاع کے لیے قومی خزانہ جھونکنے کی ضرورت نہ پڑتی۔گالی اور تالی بریگیڈ کی پُھرتیاں بتاتی ہیں کہ وہ پانا ما کا نام سن کر بھی گھبرا جاتے ہیں۔اسی لیے حکومتِ پاکستان سرکار بنام عوام الناس تشہیری مہم چلا رہی ہے جس میں بتایا جارہا ہے پاناما پر مت بولو۔ سوشل میڈیا کے خلاف دھمکی پہ دھمکی آ رہی ہے۔ ہر دھمکی کا بنیادی تھیم چیخ چیخ کر کہتا ہے شریفوں کو چھیڑنا منع ہے۔ ہاں البتہ کسی اور کو دھر رگڑا دینا ہو تو قانون خاموش رہے گا ۔ سرکار نے پاناما سے جان چھڑانے کے لیے جتنے بتیوں والے ٹرک دوڑائے تھے سب کی بتی گُل ہو گئی۔ یہ تو اٹل حقیقت ہے کہ قیامت کی طرح طے شدہ وقت پر پاناما کا فیصلہ ضرور آکر رہے گا۔ سیاست میں سوال گندم جواب چنا ہو سکتا ہے لیکن عدالت میں سوال پاناما جواب چنا نہیں ہو سکتا۔ جس طرح سیاست میں منی لانڈرنگ کرنے والا وزیرِخزانہ ہو سکتا ہے۔ اجتماعی قتل کی ایف آئی آر کا نام زد ملزم وزیرِ قانون بن سکتا ہے ۔زندگی بچانے والی دوائیوں میں ملاوٹ ہو سکتی ہے۔ رنگ گورا کرنے والی کریم کا دعویٰ سچا ہو سکتا ہے۔ ایک کام جو نہیں ہو سکتا وہ یہ ہے کہ 20 کروڑ لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ محاورہ بدلنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ نازی اِزم جمہوری ہو یا جرمنی والا۔ نازی اِزم ہی رہتا ہے۔ پوری قوم کو نہ دبایا جا سکتا ہے نہ خریدا جا سکتا ہے۔ برائے فروخت مخلوق دوسری ہے شہرِ اقتدار کی دیوار پر لکھا یہ شعر پڑھ لیجیے۔
جاہل نہ بِک سَکا، نہ کبھی مُفلسی بِکی
عالم بِکّا، شعور بِکّا، آگہی بِکی