اقبال کا ’’شاہین باغ ‘‘… تیرا شکریہ

کل بھارت کے مرکزی دارالحکومت میں لگی سیاسی آگ کا فیصلہ ہو گیا۔ دہلی کے ووٹروں نے پاکستان مخالف تقریروں کو مسترد کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی مسترد کر دیا۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق دہلی اسمبلی کی 70 میں سے 50 نشستوں پر عام آدمی پارٹی آسانی سے جیت جائے گی۔ تمام تجزیوں کے مطابق یہاں ایک بار پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کا دھڑن تختہ ہونے والا ہے۔ اگرچہ 70 نشستوں پر کامیاب ہونے والے امیدواروں کے ناموں کا حتمی اعلان 11 فروری کو کیا جائے گا، لیکن اطلاعات کے مطابق بھارت کے مرکزی دارالحکومت میں عوام نے ایک بار پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتہا پسندانہ سیاست اور اقتصادی سوچ کو مسترد کر دیا ہے۔ مودی دہلی میں بھی ''پاکستان دشمنی‘‘ پر مبنی کارڈ استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان انتخابات کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے عوام نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست دینے کے لئے انتخابات کو سہ جماعتی کی بجائے دو جماعتی انتخابات میں بدل دیا تھا اور کانگریس پارٹی اپنے تمام اہم لیڈروں کی موجودگی کے باوجود اپنا وجود منوانے میں ناکام ہو گئی۔ کانگریس پارٹی کی ٹاپ لیڈرشپ نے انتخابی مہم چلائی لیکن عوام نے بی جے پی کو آئوٹ کرنے کے لئے عام آدمی پارٹی کو ہی ووٹ ڈالے ہیں۔ 
بھارتیہ جنتا پارٹی نے دہلی کے انتخابات کو ''پاک بھارت سیاسی جنگ‘‘ میں بدلنے کی کوشش کی۔ ہر انتخابی مہم میں انہوں نے یہ الزام لگایا کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال اور کانگریسی رہنمائوں کی سوچ ایک جیسی ہے۔ ایک دو رہنمائوں نے تو وزیر اعلیٰ اروند کجریوال پر ہندوئوں کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا بھی الزام لگایا، جس پر انہوں نے تقریروں میں ہندو مت کی باتیں پڑھ کر سنائیں، یوں دہلی میں شاہین باغ کی تحریک نے اثر دکھایا اور نریندر مودی کی سوچ کو شکست فاش ہو گئی۔
دہلی کے ووٹروں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کی پاکستان مخالف تقریروں کا کوئی اثر نہیں لیا۔ امیت شاہ نے شمالی دہلی میں مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے بابرپور میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ''اتنی زور کا جھٹکا دو کہ درد کی ٹیسیں شاہین باغ میں محسوس ہوں‘‘ کیونکہ شاہین باغ نے اتنی زور کا انگوٹھا ان کے گلے پر رکھا ہے کہ چیخ بھی گلے کے اندرگھٹ کر رہ گئی ہے۔ مغربی دہلی میں ایک اور جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما نفرت کی آگ جلانے میں کچھ زیادہ ہی آگے چلے گئے۔ کہنے لگے، ''شاہین باغ کے مظاہرین رات کی تاریکی میں تمہارے گھروں میں گھس  جائیں  گے اور بچے اٹھا کر بھاگ جائیں گے‘‘۔ اس پر مسلمانوں نے جواب دیا ''شاہین باغ کے لوگ بابری مسجد کو بچانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، یہ دہلی سے بھی ریڈیکل ہندوئوں کو بھگا دیں گے۔ وقت یہ بات بھی سچ ثابت کر دے گا۔
ماڈل ٹائون سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کپل مشرا بول اٹھے تھے ''یہ انتخابات پاکستان اور بھارت کے مابین ہو رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے دہلی کے وزیر اعلیٰ کو بھی پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا۔ واہ، کیا بات ہے، بھارت کے مرکز میں پاکستان، پاکستان ہو رہی ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں اپنی تقریروں میں تواتر کے ساتھ پاکستان کا ذکر کر رہی تھیں۔ یہ ہے شاہین باغ کا کرشمہ اور اسی ''پاکستان‘‘ (یعنی دہلی) میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو عبرت ناک شکست کا اعلان ہونا باقی ہے۔ 
ان سب کے پیچھے علامہ اقبال کا شاہین (باغ) ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کھو دینے والا ووٹ بینک واپس لینے میں ناکام رہی ہے۔ یہاں 50 فیصد ووٹرز نے کھل کر کہہ دیا تھا کہ وہ بی جے پی کے خلاف ووٹ دیں گے‘ یعنی وہ دہلی میں شاہین باغ کے ساتھ ہیں۔ اس کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا تھا کہ اس نے 2019 میں ہونے والے عام انتخابات میں ملک بھر میں 56 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے، یہ ووٹ انہیں دہلی میں بھی مل جائیں گے لیکن سروے رپورٹوں میں اس دلیل کو مسترد کر دیا گیا ہے، ان کے مطابق 19 فیصد کے قریب لوگ مرکزی حکومت کے امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں، اکثریت مرکز سے الگ رہ کر ہی ووٹ ڈالتی ہے۔ ایک اور سروے کے مطابق بی جے پی زیادہ سے زیادہ 33 فیصد تک ووٹ لے سکتی ہے، یہ بھی جیت کے لئے کافی نہیں۔ یوں شاہین باغ نے بھارتیہ جنتا پارٹی پر دہلی میں حکومت سازی کے دروازے پانچ سال کے لئے بند کر دیئے ہیں۔ 
مجھے یہاں پھر شکر گزار ہونا ہے شاہین باغ کا، چند بیگھوں پر مشتمل اس باغ نے دہلی کی سیاست کو ہی نہیں بدلا بلکہ نریندر مودی کی عالمی ساکھ کو بھی ایسا داغ لگا دیا ہے جسے برسوں تک دھویا نہیں جا سکے گا۔ ساکھ کی بحالی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی کے خاتمے تک ممکن نہیں۔ مجھے یہ کہہ لینے دیجئے کہ وہ شاہین باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی ہی ہیں جنہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کو گرہن لگا دیا۔ امریکی صدر نے بھارت میں امن و امان کی خراب صورتحال کے پیش نظر اپنا دورہ مختصر کر دیا ہے۔ وہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق رواں مہینے کے آخر میں بھارت جانے والے ہیں، لیکن انہوں نے نریندر مودی کی اس خواہش کا احترام نہیں کیا کہ وہ گجرات بھی ضرور جائیں۔ امریکی صدر نے نریندر مودی کی اپنی ریاست گجرات جانے سے انکار کر دیا ہے۔ نریندر مودی امریکی صدر ٹرمپ کا منہ دیکھ رہے ہیں، انہیں اپنے دوست سے اس رویے کی توقع نہ تھی۔ لیکن امریکی صدر کو بھی اپنے ہاں جواب دینا پڑتا ہے۔ کل جواب دینا پڑ سکتا ہے کہ انہوں نے اس ریاست میں کیوں قدم رنجا فرمائے جہاں مسلمانوں کی خونریزی ہو رہی ہے؟ یہ وہی ریاست ہے جہاں قتل عام کے بعد امریکہ نے نریندر مودی کو اپنی سرزمین میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ یہ پابندی مودی کے وزیر اعظم بننے کے باعث اٹھا لی گئی تھی جو عہدے سے ہٹتے ہی دوبارہ نافذ ہو سکتی ہے کیونکہ انہیں استثنیٰ ملا ہے، کیس ختم نہیں ہوا۔ 
شاہین باغ کا یہ احتجاج 24 گھنٹے جاری ہے۔ مظاہرین میں وہ مرد و خواتین بھی شامل ہیں جنہیں بابری مسجد کی شہادت کے بعد قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں، جان بچانا مشکل ہو گیا تھا۔ شاہین باغ کے مظاہرین پر قتل کے تین حملے ہو چکے ہیں۔ امیت شاہ کے جلسے بھی 'گولی مارو غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘ کے نعروں سے گونجتے رہتے ہیں۔ اب ووٹروں نے غداروں کو ''اخلاقی گولی‘‘ مار دی۔ آئوٹ کر دیا انہیں دہلی کی سیاست سے۔ اسدالدین اویسی نے اسی لئے بھرے جلسے میں چیلنج دیا تھا کہ ''آئو گولی مارو، آئو گولی مارو، کہاں آنا ہے، مجھے بتائو ہم آ جاتے ہیں، 8 فروری کے بعد یہ دوسرا جلیانوالہ باغ بن جائے گا‘‘۔ اور بن گیا بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے جلیانوالہ باغ، جو ان کے ہارے ہوئے امیدواروں سے اٹا پڑا ہے!
بھارتی سیاست بدلنے والے آخر یہ کون لوگ ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بابری مسجد کی شہادت کے وقت ہندوئوں نے قتل کی دھمکیاں دی تھیں۔ کچھ ان کی جائیدادوں پر قابض ہو گئے تھے۔ اکثر کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ بھارت میں ان پر زمین تنگ کر دی گئی تھی۔ ایسے کڑے وقت میں شاہین باغ نے ہی انہیں اپنے سینے پر جگہ دی تھی۔ جی ہاں! علامہ اقبال کے شاہین باغ نے۔ یہ باغ علامہ اقبال کے نام پر ہی ایک مسلمان نے خرید کر بسایا تھا، انہوں نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد ستم زدہ مسلمانوں کو پناہ دی۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد یہاں کے ہندو بھی اپنی زمینیں مہنگے داموں بیچ کر کہیں اور چلے گئے تھے۔ یوں یہ خطہ آباد ہونے لگا۔ یہاں اس وقت کیا تھا؟ اتنی گندگی اور مچھر تھے کہ چادر تان کر سونے والوں کی ساری رات چادر کے اندر مچھروں کو مارتے مارتے گزر جاتی۔ صبح انہیں پوری چادر مچھروں کے خون سے سرخ دکھائی دیتی۔ یہاں بجلی تھی نہ پانی۔ اسے ان باہمت مسلمانوں نے ہی آباد کیا۔ اب یہ وہاں اپنے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں کسی ہندو نے ان سے کہا تھا... سنا ہے کہ آپ 500 روپے کی خاطر یہاں بیٹھے ہیں؟
مسلمانوں نے جواباً کہا تھا ''ہم یہاں 500 روپوں کی خاطر نہیں آئے، بلکہ ہم 500 سالہ تاریخ بچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘!
مجھے شکریہ کرنا ہے علامہ اقبال کے شاہین باغ کا کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں 500 سالہ تاریخ بچانے کا انعام نریندر مودی کے امیدواروں کی دہلی میں شکست کی صورت میں ملنے والا ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں