3 مارچ کا سب سے اہم واقعہ ''اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق‘‘ کی جانب سے بھارت میں شہریت بل کے خلاف دائر کردہ سابق بھارتی افسر دیب مکھرجی (Deb Mukharji)کی درخواست میں فریق بننا ہے۔ عالمی کمیشن مسلمانوں کو انصاف دلوانے کیلئے خود سب سے بڑی بھارتی عدالت میں چلا گیا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ بھارت میں عام لوگوں کی درخواستوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے؛ چنانچہ عالمی کمیشن برائے انسانی کو خود سامنے آنا پڑ گیا۔ کسی عالمی ادارے کی جانب سے بھارتی سپریم کورٹ میں یہ دوسری اہم درخواست ہے۔ پہلی درخواست 2017ء میں روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔ نئی درخواست اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہے کہ اب ''اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق‘‘ قانونی معاونت کیلئے سامنے نہیں آیا بلکہ اس کا مقصد سپریم کورٹ کی مدد سے اپنے عالمی معیارات اور قراردادوں پر ہر صورت میں عملدرآمد کروانا ہے۔
گزشتہ روز کمیشن کی سربراہ مشل بیچ لٹ (Michille Bachelet) نے جنیوا میں بھارتی نمائندے کو طلب کرکے بتایا ''اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق بھارتی سپریم کورٹ میں فریق بننے کیلئے درخواست دے چکا ہے‘ سٹیزنز بل پر انسانی حقوق کے عالمی معیارات کے مطابق دلائل دے گا۔ انسانی حقوق کا کمیشن چارٹر کے آرٹیکل 56 میں دیئے گئے مینڈیٹ کے مطابق دنیا بھر میں بلاامتیاز انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے کا پابند ہے۔ چارٹر کی موجودگی میں کسی رکن ملک کو مذہبی بنیادوں پر امتیاز برتنے کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔ سربراہ کا لہجہ دوٹوک تھا بلکہ ''دو ٹوکہ‘‘ تھا، دو دھاری تلوار کی طرح۔ عالمی ادارے کو گہری تشویش ہے کہ ایوان وزیر اعظم سے 4 میل کے فاصلے پر دہلی میں 47 افراد کے قتل اور 100 کروڑ روپے کی املاک کو نذر آتش کرنے کے سانحے پر بھی قانون حرکت میں نہیں آیا۔ 23 تحاریک التوائے کار ''التوا‘‘ میں پڑی ہیں، سپیکر لوک سبھا اوم برلا ہیں کہ بحث کا وقت ہی نہیں دے رہے۔ کہتے ہیں‘ ''دہلی میں خون کی ہولی پر ''ہولی‘‘ کے بعد بات کر لیں گے‘‘۔ اس رویے نے عالمی اداروں کو چوکنا کر دیا ہے۔ انہیں شک ہے کہ بھارت اقلیتوں کو برباد کرنا چاہتا ہے۔ عالمی ادارے جان گئے ہیں کہ اگر انہوں نے فوری مداخلت نہ کی تو بھارت اکثریت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو ان کے حق سے محروم کر دے گا۔ انہیں تشویش ہے کہ بھارتی جمہوریت کا راستہ ریڈیکل جماعت آر ایس ایس کے دفتر سے ہوکر پارلیمنٹ ہائوس کی جانب جاتا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ سب سے بڑی جمہوریت میں 37 نشستوں میں 36 بل منظور گئے۔ ایسا دنیا میں کہیں بھی کبھی نہیں ہوا۔ اکثر بلوں پر کسی کمیٹی میں بات ہوئی نہ کوئی اور فورم استعمال ہوا۔ یہ بل اچانک پارلیمنٹ میں پیش ہونے کے بعد عجلت میں منظور کر لئے گئے۔ کیا ایسی ہوتی ہے جمہوریت؟ ہرگز نہیں!
عالمی سطح پر یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ بھارت نے مسلمانوں کو خطرہ قرار دینے کی عادت ہی اپنا لی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی ملک بدری کیلئے یہی دلیل دی گئی۔ یہی کہہ کر جموں و کشمیر کو بھی ہڑپ لیا گیا۔ امیت شاہ نے یہی مؤقف بنگلہ دیشی مسلمانوں کے بارے میں بھی اختیار کیا اور انہیں قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے شہریت سے محروم کر دیا۔ اسی لئے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا نے نریندر مودی کا دورہ بنگلہ دیش منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہائی کمیشن کی اپیل کے بعد دو دن سے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی سانس اکھڑی ہوئی ہے۔ دفتر خارجہ نے ہلکا سا بیان دیا ہے کہ شہریت بل ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ اقوام متحدہ کے کسی نمائندے کو بلا کر اس کی مذمت نہیں کی، یہ بھی نہیں کہا کہ سب سے بڑی (مگر گندی) جمہوریت کے اندرونی معاملات میں کیوں ٹانگ پھنسا رہے ہو۔ بھارتی دفتر خارجہ نے اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ جنیوا میں ہمارے مستقل مشن کو اقوام متحدہ کی ''ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق‘‘ نے طلب کیا تھا۔ رویش کمار اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکے کہ ''یہ قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے، پارلیمنٹ قانون بنانے کا اختیار رکھتی ہے۔ کسی بھی فریق کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے‘‘۔ سامنے اقوام متحدہ کا ذیلی دفتر تھا، کچھ کہہ بھی نہ سکا، بولتی بند ہو گئی، باہر نکلتے ہی جے شنکر کو بتایا۔ یہ سننے سے ان کی ''جے‘‘ ختم ہو گئی۔ اب ''شنکر‘‘ باقی بچا ہے۔
بھارت کے خلاف کوئی عالمی ادارہ پہلی مرتبہ فریق نہیں بنا۔ اقوام متحدہ بھارت کو اس کی ذمہ داری باور کرانے کی کوششیں پہلے بھی کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ ''انسانی حقوق کی رپورٹ برائے 2020ء‘‘ میں بھی بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دے چکا ہے۔ ''ورلڈ ہیومین رائٹس رپورٹ‘‘ میں کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ نشتر جیسے جملے شامل ہیں کہ ''بھارت کے بعض قوانین قطعی طور پر امتیازی ہیں۔ اقوام متحدہ کو مودی حکومت کے مسلمان دشمن رویے پر انتہائی تشویش ہے‘‘۔ اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں سے متعلق کیس میں فریق بننے کی درخواست دی تھی۔ سپریم کورٹ سماعت کا وقت نہیں دے رہی۔ بھارت روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کرنا چاہتا تھا لیکن اقوام متحدہ نے ''عالمی قوانین سے آگاہی کیلئے معاونت‘‘ کی اپیل دائر کرکے اس کے ہاتھ باندھ دیئے۔ اقوام متحدہ نے بھارت میں 17911 روہنگیا مہاجرین کی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔ 20 جنوری 2020 کو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر ای تیندیلائی اشیومے (E. Tendeli Achiume) نے روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ میں زیربحث کیس میں فریق بننے کی وجوہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی۔ انہیں ''اقوام متحدہ کے نمائندے برائے انسداد نسل پرستی‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی مسلمانوں کو سپریم کورٹ سے انصاف مل جائے گا۔ اس کیس میں اقوام متحدہ نے نریندر مودی کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ سابقہ کیس میں اقوام متحدہ کو علم نہیں تھا کہ بھارت کس حد تک جا سکتا ہے، وہاں انسانی حقوق کی پامالی ایک حقیقت ہے۔ یہ اپیل عالمی قوانین کے بارے میں معاونت تک محدود تھی۔ نیا کیس روہنگیا مسلمانوں سے کہیں بڑا کیس ہے۔ حالیہ درخواست عالمی انصاف کی عملداری کیلئے دائر کی گئی ہے۔
بھارت کا کیس کمزور کیوں ہے؟ ''یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے‘‘ بھارت یہ گردان ضرور کرے گا‘ لیکن بھارت خود کئی مرتبہ عالمی فورمز پر جا چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر ہو یا ممبئی دھماکے، پلوامہ حملہ ہو یا کلبھوشن کیس، بھارت نے درجنوں مرتبہ عالمی اداروں اور اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کی۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کوبھول گیا ہو گا، دنیا نہیں بھولی۔ کانگریس کے ترجمان ابھیشک سنگھوی نے بھی اقوام متحدہ کی مداخلت کو درست تسلیم کر لیا ہے۔ کہتے ہیں، ''ہم اکیلے نہیں کہہ رہے، مودی سوچیں کہ درجنوں قومیں ہماری طرف کیوں انگلیاں اٹھا رہی ہیں، کیا ہمیں ریت میں منہ دے کر شتر مرغ بن جانا چاہیے؟‘‘۔
بلوں کو آئینی اور قانونی طریق کار کے مطابق منظور کرنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کیلئے اپوزیشن نے بھی راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں آواز اٹھائی ہے۔ 17جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد‘ آر جے ڈی کو 240 کے ایوان میں 103 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ اتحاد کی طرف سے منوج جھا نے ایک خط کے ذریعے بلوں پر بحث کرنے پر زور دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے سوال اٹھایا ہے ''آخر بھارتیہ جنتا پارٹی کو جلدی کیا ہے، آپ مہریں لگانے کیلئے کیوں ہر وقت تیار رہتے ہیں؟ جھٹ پٹ منظور کئے جانے والے کئی بلوں پر سرے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ ایسے بل بھی منظور کر لئے گئے جنہیں قائمہ کمیٹیوں کی سکروٹنی کے بغیر منظور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن سر، آپ (سپیکر) نے یہ کام بھی کر دکھایا۔ آپ نے ایوان کی روایات کو بھی بلڈوز کر دیا۔ رائٹ ٹو انفارمیشن (RTI) بل منٹوں میں منظور کرتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ اس سے لوگوں کی زندگیاں کتنی متاثر ہوں گی‘‘۔ قانون سازی اور قانون پر عمل درآمد کے اس غیر جمہوری طریق کار کے پیش نظر عالمی ادارے کئی برسوں سے بھارت کو ''ہیومن رائٹس کے اشاریے‘‘ بہتر بنانے کی وارننگ دے رہے تھے۔ اثر نہ ہونے پر براہ راست مداخلت کا تازہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اقلیتوں کو انصاف مہیا کرتا ہے یا اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہ کر عالمی تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے!