"FBC" (space) message & send to 7575

سندھ طاس معاہدہ برقرار رہنے کے امکانات

گزشتہ کچھ عرصے کے دوران، پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے 1960ء میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے باقی رہنے پر خاصے شکوک و شبہات سامنے آتے رہے ہیں۔ بھارت میں اعلیٰ سطح پر اِس معاہدے کو ختم کرنے کے اعلانات نے اِن خدشات کو مزید تقویت پہنچائی کہ شاید اب اِس معاہدہ ختم ہونے کے دن آ گئے ہیں لیکن پھر یکایک اِس پر خاموشی چھا گئی۔ اب بھارت اور پاکستان کے انڈس واٹر کمشنرز کی سربراہی میں دونوں ممالک کے درمیان 113ویں مذاکرات ہو رہے ہیں‘ جن کے بعد معاہدہ ٹوٹنے کے خدشات میں بھی کمی آنے لگی ہے۔ دراصل معاہدہ توڑنے کے بھارتی اعلانات کے بعد پاکستان کی طرف سے اِس پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا کہ اِس معاہدے کا برقرار رہنا پاکستان کے لیے گویا زندگی، موت کا سوال ہے۔ اِس حوالے سے پاکستان عالمی طاقتوں اور اداروں کو باور کرانے میں کامیاب رہا کہ اگر معاہدہ ٹوٹا تو پھر پاکستان اپنا راستہ خود بنائے گا اور بھارت کی کسی بھی طرح کی آبی جارحیت کو اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ اِس حوالے سے پاکستان کی طرف سے سفارتی سرگرمیاں بھی دیکھنے میں آئیں اور نتیجتاً بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے پر ہر سال ہونے والی ملاقات کے لیے اِس سال اپنے انڈس واٹر کمشنر کو پاکستان آنے کی اجازت دے دی گئی‘ جس کے بعد توقع رکھی جا سکتی ہے کہ یہ معاہدہ باقی رہے گا کہ اِس کا برقرار رہنا پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس معاہدے کی بابت مزید جاننے کے لیے ہمیں 1960ء میں جانا ہو گا۔
یہ 23 ستمبر، اْنیس سو ساٹھ کا دن تھا۔ کراچی میں اعلیٰ سطح پر انتظامی اور سفارتی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں کہ آج بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اپنے دوسرے دورے کے لیے پاکستان کے دارالحکومت کراچی پہنچ رہے تھے۔ وہ کراچی پہنچے، مقصد اْن کے دورے کا دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کرنا تھا‘ جس کی جزئیات عالمی اداروں کے تعاون سے طے کی گئی تھیں۔ اْنیس سو ساٹھ میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اِس کا کافی طویل پس منظر ہے جس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے تاکہ حالات کا ٹھیک ٹھیک ادراک کیا جا سکے تو تھوڑا مزید پیچھے چلتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کی ریاستیں وجود میں آ چکی تھیں‘ جس کے بعد سے بھارت مسلسل اِس کوشش میں تھا کہ کسی طرح اِس نوزائیدہ مملکت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے، اِس مقصد کے لیے کبھی بھارت کی طرف پاکستان کے واجب الادا واجبات روک لیے جاتے‘ تو کبھی اِسے بزور طاقت ختم کرنے کی دھمکیاں دی جاتیں۔ اِنہی حالات میں 1948ء میں کشمیر کی جنگ چھڑی تو اپریل 1948ء میں پہلی بار بھارت نے محدود پیمانے پر پاکستان کا پانی روک کر یہ عندیہ دے دیا کہ وہ پاکستان کو برباد کرنے کی خاطر کس حد تک جا سکتا ہے۔ جنگ ختم ہوگئی۔ گفت و شنید کے نتیجے میں بھارت نے پاکستان کا بند کیا ہوا پانی بھی کھول دیا لیکن یہ ایسی صورت حال رہی کہ جس نے پاکستان کے رہنماوں کو اچھی طرح باور کرا دیا کہ آگے چل کر بھارت دوبارہ پانی روکنے کی حرکت کر سکتا ہے۔ عالمی اداروں کی طرف سے بھی اِس بات کا ادراک کیا گیا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان پانی پر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو دونوں کے درمیان نوبت جنگ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
اِس ساری صورت حال کے تناظر میں عالمی طاقتوں اور اداروں کے تعاون سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے معاملات طے پانے کے لیے مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا‘ جو طویل عرصے تک جاری رہے اور بالآخر دونوں ممالک ایک معاہدے پر رضامند ہو گئے۔ عالمی بینک اِس معاہدے کا ضامن تھا۔ اِس معاہدے کی رو سے پاکستان اپنے تین مشرقی دریائوں، دریائے راوی، ستلج اور بیاس کے پانیوں سے دستبردار ہو گیا جبکہ تین مغربی دریائوں، جہلم، چناب اور سندھ سے زیادہ پانی کے حصول کا حق دار قرار پایا۔ معاہدے کی کل گیارہ دفعات تھیں جن کے تحت طے پایا گیا کہ چھ میں سے تین مغربی دریا جہلم، چناب پاکستان کو دیے جائیں گے البتہ اِن میں سے بھارت پانی کی مخصوص مقدار حاصل کر سکتا ہے۔ دریائے سندھ پر پاکستان کی لامحدود رسائی ہو گی جبکہ تین مشرقی دریا راوی، ستلج اور بیاس پر بھارت اپنی لامحدود رسائی جاری رکھے گا۔ اِس معاہدے کی رو سے ہی پاکستان اپنے بڑے آبی ذخائر تربیلا اور منگلا تعمیر کر پایا۔ اِس معاہدے کے باعث ہی کم از کم پانی کے مسئلے پر کبھی پاکستان اور بھارت کے درمیان زیادہ کشیدگی پیدا نہیں ہوئی‘ اور اگر کہیں ایسا ہوا بھی تو معاملہ جلد ہی حل کر لیا گیا‘ جسے پاکستان کو بھارت کے بہت سے آبی منصوبوں پر اعتراض ہے۔ اْن پر بھارت کا موقف یہ ہے کہ یہ منصوبے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ یہ صرف بجلی کی پیداوار جیسے مقاصد کو پورا کرتے ہیں‘ تو یہ ایسے معاملات ہیں جنہیں باہم مذاکرات کے ذریعے حل کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اب بھارتی انڈس واٹر کمشنر کے دورہء پاکستان کے دوران اِس منصوبوں کے حوالے سے گفتگو ہوئی بھی ہے۔ اِس دورہ سے بڑی حد تک یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ بھارت اِس معاہدے کو ختم کرنے کا ارادہ ترک کر چکا یا پھر یہ ادراک کر چکا ہے کہ وہ ایسا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اِس حوالے سے شاید چین کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ معاملہ بگڑنے کی صورت میں چین اپنے ہاں سے بھارت میں داخل ہونے والے دریائوں کا پانی روکنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
اِس امر کو خوش آئند ہی قرار دیا جائے گا کہ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلی ہے اور کم از کم پانیوں پر ہی سہی، مذاکرات کا سلسلہ بحال تو ہوا، اِس پر پاکستانی حکومت کی کاوشوں کی تعریف نہ کرنا زیادتی کی بات ہو گی‘ لیکن اِس سے آگے ایک مسئلہ جو پھن پھیلائے ہمارے سامنے کھڑا ہے، وہ ہے ملک کے اندر پانی کی شدت اختیار کرتی ہوئی قلت کا۔ اے ڈی پی کے مطابق پاکستان جیسی آب و ہوا والے ممالک کیلئے 1,000 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھنا ضروری ہے یا اس کی صلاحیت ہونی چاہئے جبکہ پاکستان ہنگامی حالت کیلئے صرف 30 دن کا پانی سٹور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اِس صلاحیت میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی ہوتی جا رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی آبی شہ رگ‘ دریائے سندھ کا پانی بھی کم ہوتا جا رہا ہے اور حالت یہ ہو چکی ہے کہ اکنامک سروے آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 1947ء میں 5650 کیوبک میٹر سالانہ تھی جو کم ہو کر اب صرف 964 کیوبک میٹر سالانہ رہ گئی ہے۔ متعدد رپورٹس کے مطابق ہماراملک اب ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہونے سے زیادہ دور نہیں رہا گیا جنہیں شدید آبی قلت کا شکار ممالک قرار دیا جاتا ہے۔ اب سندھ طاس معاہدے کی بحالی کو اگر ہم اپنے موقف کی فتح قرار دے سکتے ہیں تو پھر اِس کے ساتھ ہی ہمیں ہنگامی بنیادوں پر آبی ذخائر تعمیر کرنے کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی۔
اِس امر کو خوش آئند ہی قرار دیا جائے گا کہ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلی ہے اور کم از کم پانیوں پر ہی سہی، مذاکرات کا سلسلہ بحال تو ہوا، اِس پر پاکستانی حکومت کی کاوشوں کی تعریف نہ کرنا زیادتی کی بات ہو گی‘ لیکن اِس سے آگے ایک مسئلہ جو پھن پھیلائے ہمارے سامنے کھڑا ہے، وہ ہے ملک کے اندر پانی کی شدت اختیار کرتی ہوئی قلت کا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں