"FBC" (space) message & send to 7575

تاریخ کا سبق

بتایا گیا ہے کہ فرعونوں کی سرزمین مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے کوئی تیس کلومیٹر کے فاصلے پر فرعونوں کا ایک نیا اہرام برآمد ہوا ہے جس کی صفائی ستھرائی کی جارہی ہے لیکن ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کسی فرعون کا اہرام ہے لیکن آج کے جدید دور میں اِس بات کا پتہ لگانا کیا مشکل کہ خود کو لوگوں کی قسمت کا مالک کہلانے والے یہ کس فرعون کا اہرام ہے، معلوم تو ہو ہی جائے گا لیکن یہ تو طے ہے کہ یہ بھی فرعونوں کے اُسی سلسلے کی کڑی ہے جس کی بابت محققین کا قیا س ہے کہ فرعون کے لقب سے سریرآرائے تخت ہونے والے شاہان مصر میں سے پہلا رعمسیس تھا جس کا زمانہ ممکنہ طور پر1292 قبل مسیح سے 1225 قبل مسیح تک رہا۔ رعمسیس کی حنوط شدہ لاش اُنیسویں صدی میں باب الملوک کی وادی میں کھدائی کے دوران برآمد ہوئی یہ لاش ایک چوبی تابوت میں رکھی ملی تھی جس کے اوپر سے کپڑے کو ہٹایا گیا تو اِس پر لکھی ایک تحریر نے واضح کردیا کہ یہ رعمسیس کی ہی لاش ہے جو اب قاہرہ کے ایک عجائب گھر میں پڑی کہانی سنا رہی ہے کہ میں وہی ہوں جس نے قسمتوں اور رعایا کے رزق کا مالک ہونے کا دعویٰ کیا تھا،میں ہی تو ہوں جس نے اقتدار کی خاطر بے شمار انسانوں کو تہہ تیغ کردیا تھا ، میں ہی تو ہوں جس نے اپنے سامنے اُٹھنے والے ہرسر کو دھڑ سے الگ کردیا تھا لیکن جب وقت آگیا تو میں بھی نہ رہاآئو آئو دیکھو دیکھو مجھے لیکن میں جانتا ہوں کہ تم مجھے صرف دیکھنے کے لیے آئو گے، کوئی سبق نہیں سیکھو گے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اِس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا، سو فرعونوں سے پہلے بھی یہی ہوتا رہا تھا، بعد میں بھی یہی ہوتا رہا اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا کہ جو بھی مسند اقتدار تک پہنچنے ، اُن کی اکثریت نے صرف زبان سے یہ دعویٰ نہ کیا کہ وہی لوگوں کی جانوں کے ، اُن کے رزق، اُن کی عزتوں کے ، اُن کے مال کے مالک ہیں ۔طاقت اور اقتدار کے تناظر میں فرعونوں کی مثال اِس لیے سامنے آجاتی ہے کہ وہ طاقت کے نشے میں اُس نہج پر پہنچ گئے تھے تھے جہاں اُنہوں نے خود کو خداکہلوانا شروع کردیا تھا۔
یہ ہے طاقت جو اِنسان کو اقتدار کے باعث حاصل ہوتی ہے اور ایک مرتبہ اقتدار مل جائے تو پھر یہ اُس کی یہ شدید ترین کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ اقتدار ہمیشہ اُس کے گھر کی باندی بن کررہے ،اقتدار کا ہما ہمیشہ اُس کے سر پر بیٹھا رہے ، اِسی لیے ، اِسی لیے اِس راستے میں جو بھی آتا ہے ، تہہ تیغ کردیا جاتا ہے ، اپنی ہی مائوں ، بہنوں کی عزتیں تار تار کردی جاتی ہیں ، اپنے ہی بچوں کو موت کا رزق بنا دیا جاتا ہے ، اپنے اسلحہ خانے میں موجود ہر مہلک ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور بات پھر بھی نہ بنے تو پھر دوستوں کی مدد لی جاتی ہے کہ ہمیں مزید مہلک ہتھیار دو سب کو مار دو بس ہمارا اقتدار باقی رہنا چاہیے ۔ ایسی ہی ایک خوفناک کہانی برادر اسلامی ملک شام میں لکھی جارہی ہے ، بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر واقع ملک شام کی بربادی کی داستان عرب سپرنگ کے بعد مارچ 2011،میں اُس وقت شروع ہوئی جب اِس کے شہر درعا میں چند طالبعلموں نے مقامی اسکول کی دیواریں انقلابی نعروں سے مزین کر دیں جس کی پاداش میں صدر بشارالاسد کی حکومت نے نوجوانوں کو گرفتار کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا، مقامی باشندوں نے حکومت کے خلاف بھرپور مظاہرہ کیا، احتجاج کو سختی سے کچلا گیا جس میں کئی مظاہرین مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے ، یہ صورت حال صدر بشار الاسد کے استعفیٰ کے مطالبے کا سبب 
بنی اور یہی شام میں خانہ جنگی کا نقطہ آغا ز تھا ،سرکاری افواج کے ظلم و ستم کے جواب میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے کئی اہم شہروں اور علاقوں پر قبضہ جما لیا، جلد ہی بشار الاسد کی گرفت کمزور پڑنے لگے اور ممکن تھا کہ جلد ہی اُس کی حکومت گر جاتی مگر عین ان حالات میں اصل وِلن، داعش کا ظہور ہوا جس کے بعد شام جنگجوؤں اور مختلف طاقتوں کے لئے کشتی کا ایک ایسا من پسند اکھاڑا بن چکا ہے جہاں ہر کھلاڑی دوسرے کو ناک آؤٹ کرنے کی تاک میں رہتا ہے ۔
دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں، آج یہ صورت حال ہوچکی ہے کہ اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق دولاکھ ساٹھ ہزار اور دیگر ذرائع کے مطابق پچاس ہزار بچوں سمیت چار لاکھ سے زائد مردوخواتین جاں بحق ہوچکے ہیں، پچاس فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہوچکی ہے اور 13.5 ملین شامیوں کو انسانی بنیادوں پر فوری امداد کی ضرورت ہے اور ستم تو یہ ہے کہ قتل وغارت گری کا یہ کھیل مسلسل جاری ہے جس میں اب صورت حال اِس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب جنگ میں ایسے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں جن کا استعمال دشمن پر بھی ممنوع ہے لیکن اِنہیں اپنے ہی عوام پر استعمال کیا جارہا ہے ، حال ہی میں شامی صوبے ادلب میں ہونے والے ایک کیمیائی حملے میں ایک سو زائد مردوخواتین اور بچے چشم زدن میں اِس طرح جاں بحق ہوگئے کہ اگر کس نے منہ میں رکھنے کے لیے ہاتھ میں نوالا پکڑا تھا تو وہ ، اُسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوگیا، کوئی بچی اپنی گڑیا کے ساتھ کھیل رہی تھی تو وہ گڑیا ہاتھ میں لیے ہی لقمہ اجل بن گئی، مرنے والوں کی موت اتنی تیزی سے ہوئی کہ اُن کے چہروں پر حیرت کے تاثرات بھی نہ اُبھر سکے کہ اُنہیں کس جرم کی سزا ملی ہے ۔
ہائے ہائے ،ستمبر 2015 میں ترکی کے ساحل سے شامی بچے ایلان کردی کی لاش تو کم از کم مل گئی تھی،جسے اس کے والدنے اپنے ہاتھوں سے قبر میں تو اتاردیالیکن اس جیسے معصوم لاکھوں ایلان کردی ایسے ہیں جو اپنے والدین سمیت حیاتیاتی کیمیائی ہتھیاروں سے سسک سسک کراور بیرل بموں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر عمارتوں کے ملبے میں دفن ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں ۔ تباہی و بربادی کی اِس داستان میں امریکہ نے پوری طرح حصہ ڈال رہا ہے جس کے حمص شہر میں الشعیرات ائیرپورٹ پر تازہ کروزحملے میں 10 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے اوراِس حملے نے شام کے معاملے پر دنیا کو مزید تقسیم کردیا ہے کہ سعودی عرب ، عراق اور ترکی،یورپی یونین، جرمنی، نیٹو، کینیڈا، اسرائیل اور جاپان نے اِس حملے کی حمایت کی ہے لیکن ایران اور چین اِس کی مخالفت میں سامنے آئے ہیں جہاں تک پاکستان کا سوال ہے تو وہ گومگو کی کیفیت کا شکار ہی رہا کہ حملے کی مذمت کرے یا حمایت؟
سال ہے 3242ء...منادی ہورہی ہے... بے شمار ممالک سے اہرام برامد ہوئے ہیں جن میں سے بہت سی لاشیں ملیں ہیں جن کے تابوتوں پر مختلف تحریریں کنندہ ہیں ، میں ہوں وہ جس نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے لاکھوں جیتے جاگتے انسانوں کو تہہ تیغ کردیا ، میں ہوں وہ جس نے اپنے مسلمان بھائی بہنوں کی ہلاکتوں پر خاموشی اختیار کیے رکھی ،لیکن ایک تحریر مشترکہ ہے ،، آئو آئو دیکھو ہمیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ تم ہمیں صرف دیکھنے کے لیے آئو گے ، کوئی سبق نہیں سیکھو گے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اِس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں