"FBC" (space) message & send to 7575

سیاست کا پٹارہ

ہماری سیاست بھی کیا دلچسپ چیز ہے جسے ایسا پٹارہ قرار دیا جاسکتا ہے جس میں ہرکسی کی دلچسپی کا سامان موجود ہے، پٹارے میں ہاتھ ڈالو اور اپنی دلچسپی کا سامان نکال لو، ملکی سیاست میں صبح شام بولے جانے والے جھوٹ ، سچ اِسی پٹارے سے ہی تو برآمد ہوتے ہیں کہ صبح کے سچ کو شام کے وقت جھوٹ اور شام کے جھوٹ کو صبح کے وقت سچ ثابت کرنے کی کوششیں ہورہی ہوتی ہیں اور وہ بھی اتنی سنجیدگی کے ساتھ کہ ایسا کرنے والے کے خلوص پر بے اختیار پیار آنے لگتا ہے،چاہے یہ اِس صورت میں ہو کہ انتخابات نزدیک آتے ہی جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی کو اپنے علاقے کی محرومیاں یاد آجائیں او ر جماعت چھوڑنے کے حوالے سے اپنے موقف کی صداقت ثابت کرنے کے لیے زمین آسمان ایک کردیا جائے چاہے سننے والے اِس پر یقین کریں یا نہ کریں، چاہے یہ سب کرنے والوں کے پاس اِس بات کا بھی جواب نہ ہو کہ یہ محرومیاں ہمیشہ انتخابات قریب آتے ہی کیوں یاد آتی ہیں۔ یا پھر پیپلزپارٹی کے نذرگوندل اور ندیم افضل چن کی طرح اپنے تمام تر نظریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرلی جائے اور ایسا کرنے کو ملکی مفاد میں قرار دیا جائے، ملکی مفادکے پیش نظر ہی کے پی کے سے پی ٹی آئی کے سراج محمد خان اور میاں عمرگل ن لیگ کو پیارے ہوچکے ہیں تو لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ماضی قریب تک جنرل ضیا ، اُس کے بعد بے نظیر بھٹوپھر نواز شریف اور اب پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھنے کو ملکی مفاد میں مقدم گردان رہا ہے، بلوچستان بھی سیاسی پرندوں کے آشیانے تبدیل کرنے کے حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں ہے جہاںسیاسی پٹارے سے راتوں رات نکلنے والی بلوچستان عوامی پارٹی کے پروں تلے کئی سیاسی پرندوں نے پناہ لے چکے ہیں ، غرض یہ کہ ملکی مفاد کی خاطر متعدد سیاسی پرندے اپنے آشیانوں سے پرواز کرچکے ہیں اور متعدد پرواز کی تیار ی میں ہیں ،انتظار صرف اِس بات کا ہے کہ ملکی سیاست کی صورت حال تھوڑی سی مزید واضح ہوجائے اور یہ اندازہ لگانا آسان ہوجائے کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھے گا،اِس تمام صورت حال میں ابھی تک مسلم لیگ نون سب سے زیادہ متاثر نظرآرہی ہے جسے سندھ سے اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار کی جدائی کا صدمہ بھی مل چکا ہے تو اِس وقت وہ دوسرے بے شمار مصائب کا سامنا بھی کررہی ہے،پہلے وزارت عظمی اور پھر نون لیگ کی قیادت سے نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ نون اندرونی طور پر جس توڑ پھوڑ کا شکار ہوچکی ہے ، اُس نے ن لیگ کے لیے آئندہ عام انتخابات میں کامیابی سہل نہیں رہنے دی اور اپنی بقا کے لیے نون لیگ جس طرح سے ہاتھ پاؤں ماررہی ہے، اُس کے بھی خاطر خواہ نتائج برامد نہیں ہورہے جس کے لیے کسی حد تک مسلم لیگ نون کی اعلیٰ ترین قیادت کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے جس نے معروضی حالات سے صرف نظر کرتے ہوئے ایسی راہ اپنائی جس نے اِس کی مشکلات میں اضافہ کیا (یہ الگ بحث ہے کہ اُس نے غلط راستہ چنا یا صحیح) اور یہ روش ابھی تک ترک کیے جانے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے بلکہ تلخیوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی تازہ ترین جھلک سابق وزیراعظم نواز شریف کی اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نظرآئی جہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر قرار دیا کہ ملک میں بدترین ڈکٹیٹرشپ قائم ہے،اگلی تگڑی پارلیمنٹ آئے گی تو سب ٹھیک کردیں گے تو مریم نواز شریف پہلے ہی واضح طور پر یہ کہہ چکی ہیں کہ تمام سزائیں موجودہ منصفوں کے اپنے عہدوں پر موجود رہنے تک ہی ہیں،گویا نون لیگ موجودہ لڑائی کو اپنی انتہاتک لے جانے کا عزم صمیم کرچکی ہے چاہے اِس کا کچھ بھی نتیجہ برآمد ہو،چوہدری نثار کو منانے کی تمام کوششیں بھی ناکامی کا شکار ہوچکی ہیں لیکن شہبازشریف کے پارٹی صدر بننے کے بعد یہ خوش گمانی بھی جڑ پکڑ رہی ہے کہ شاید آنے والے دنوں مسلم لیگ نون کی مشکلات میں کمی آسکے گی اگرچہ تاحال تو اِس کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔اِس تمام تر صورت حال کو نظر میں رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف یہ سمجھ رہی ہے کہ اِس وقت حالات پوری طرح سے اُس کے مواقف ہیں اور اگر وہ آنے والے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو پھر شاید اُسے اپنی منزل کبھی نہیںمل سکے گی،،اِس تناظر میں اپنی پوزیشن کو مزید بہتر بنانے کے لیے اُس کی طرف سے سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت پر اپنے متعدد سینیٹرز کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے ، گمان تھا کہ ایسا کرنے سے اُس کی پوزیشن اخلاقی طور پر بہتر ہوگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مقصد پوری طرح سے حاصل نہیں ہوسکا کیوں کہ چند خواتین سینیٹرز نے قرآن پاک ہاتھ میں لے کر اپنی بے گناہی کا جو رونا رویاہے ، اُس نے متعدد سوالات کھڑے کردئیے ہیں کہ کیا اِن کے خلاف ہونیو الی کارروائی حقائق کی روشنی میں کی گئی ہے یا اِس میں جلد بازی سے کام لیا گیا ہے تو دوسری طرف کے پی کی میں پی ٹی آئی کا جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد بھی اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور یہ اتحاد جس برے انداز میں ٹوٹ رہا ہے،، وہ ایک مرتبہ پھر ہماری سیاسی جماعتوں میں پائی جانے والی عدم برداشت کا آئینہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔
یہ ہے اُن حالات کا مختصر سا احوال جس میں رہتے ہوئے تمام سیاسی جماعتیں آئندہ عام انتخابات میں اپنی اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے سرگرداں ہیں لیکن عمومی طور پر یہ تاثر مضبوط ہوتا جارہا ہے کہ سیاسی حالات کو جان بوجھ کر ایک خاص نہج پر لے جایا جارہا ہے تاکہ آنے والے انتخابات سے مخصوص نتائج حاصل کیے جاسکیں اور یہی چیز حقیقی جمہوریت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے اور حقیقی جمہوریت کے حوالے سے سوالات پیدا کرتی ہے،بہتر تو یہی ہے کہ جمہوریت کو خود سے اپنے قدم مضبوط بنانے کا موقع دیا جانا چاہیے ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں بہت سی خرابیاں موجود ہیں ،، اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیںہے کہ جمہوری ادوار میں حکومتوں کی گڈ گورننس کے حوالے سے بھی سوالات اُـٹھتے رہے ہیں لیکن سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ بالآخر مضبوط جمہوریت ہی اگر تمام نہیں توبیشتر مسائل کا حل ہے اور اِس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری بھی سیاسی جماعتوں پر ہی عائد ہوتی ہے جن کے باہمی اختلافات بعض اوقات تو اِس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ وہ خود ہی جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے پرہی تل جاتی ہیں ورنہ تو ڈکٹیٹروں کے لیے کئی کئی دہائیوں پر محیط اقتدار کے مزے لوٹنا کہاں ممکن تھا ، ظاہر ہے کہ سیاسی رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کے کندھوں کا سہارا لے کر ہی یہ سب ممکن بنایا گیا تھا ،،اِسی تناظر میں چوہدری شجاعت حسین کی کتاب سچ تو یہ ہے کا مختصر سا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ جنہوں نے اپنی کتاب میں بے شمار رازوں سے پردہ اُٹھایا ہے، متعدد سچ قوم کے سامنے آشکار کیے ہیں لیکن اِس حوالے سے کتاب مکمل طور پر خاموش ہے کہ دوہزار دو میں ق لیگ کس طرح سے وجود میں آئی اور کیوں کر جنرل پرویز مشرف کے لیے سیاسی کندھا مہیا کرنا ممکن ہوسکا،اگر اِس پر بھی مختصر سی روشنی ڈال دی جاتی تو قیام پاکستان کے بعد سے جاری ملکی سیاست میں کھیلے جانے والے کھیلوں کو سمجھنا مزید آسان ہوجاتا۔وہ کھیل جو کسی قدر تبدیلی کے ساتھ ہردور میں ہی کھیلے جاتے رہے ہیں بس کردار تبدیل ہوجاتے ہیں ورنہ تو کہانی ایک ہی ہے اور پٹارہ بھی ایک ہی جس میں سے جب چاہو، جو چاہو ہاتھ ڈال کر نکال لو۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں