"FBC" (space) message & send to 7575

انسدادِ اکٹرفوں لوشن

بچہ جیسے ہی مٹی پر پاؤں رکھتا ہے تو ماں کے چہرے پر تفکر کے آثار اُبھر آتے ہیں اور وہ فوراً بچے کو مٹی سے باہر آنے کے لیے کہتی ہے ۔وہ گمان کرتی ہے کہ کہیں مٹی میں چھپے ہوئے جراثیم اُس کے پیارے بیٹے کو کسی بیماری میں مبتلا نہ کردیں‘ لیکن فوراً ہی خاتون کے ہاں مہمان آئی ہوئی‘ اُس کی کزن بڑی رسان سے کہتی ہے '' جب یہ صابن موجود ہے تو فکر کس بات کی اور پھر بچے کو مٹی میں کھیلنے کے بعد اُس صابن سے نہلا دیا جاتا ہے ‘‘۔ بچہ بھی مٹی میں کھیل کر اپنا شوق پورا کرلیتا ہے اور بچے کے جراثیم سے محفوظ رہنے پر اُس کی والدہ محترمہ بھی خوش ہوجاتی ہے ۔ٹی وی پر چلنے والا یہ اشتہار کافی اچھا اور attractive تھا‘ جسے دیکھ کر ایسے ہی یہ سوچ ذہن میں آگئی کہ کاش کوئی ، انسداد ِاکڑفوں لوشن یا صابن بھی مارکیٹ میں آجائے اور ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح چاٹتی اِس معاشرتی بیماری سے نجات دلا دے ۔مطلب جسے بھی یہ بیماری لاحق ہوجائے‘ تو اُسے فورا ،انسداد اکڑفوں لوشن‘ مل دیا جائے کہ اُس کی اکڑی گردن جھک جائے،ہٹوبچوں کی آوازوں سے حاصل ہونے والی تسکین ، تکلیف میں تبدیل ہوجائے ، کیڑے مکوڑوں کی طرح دکھائی دینے والے لوگ ‘ انسان نظر آنے لگیں‘ بشمول اُن اراکین اسمبلی کے جو عروج اقتدار کے دنوں میں ہمیشہ ہی پستہ قد نظرآتے ہیں ۔یہ الگ بات کہ جب زوال اقتدار شروع ہوتا ہے تو پھر اِنہیں نہ صرف وقت ملنا شروع ہوجاتا ہے بلکہ ملاقاتوں کی بڑی بڑی تصاویر چھپوانے کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے ‘بالکل ایسے ہی جیسے آج کل ہو بھی رہا ہے ۔اگر یہی انسداد اکڑفوں لوشن‘ ایجاد ہوچکا ہو تو شاید عروج اقتدار کے دنوں میں بھی یہ اراکین اسمبلی ، حکمرانوں کو اپنے پورے تن و وتوش کے مطابق نظرآتے ‘ورنہ کھیل تو وہی پرانا ہے ‘جو میدان سیاست میں ہمیشہ کھیلا جاتا رہا ہے اور اب بھی زوروشور سے کھیلا جارہا ہے ۔ایک کے بعد ایک لیگی اراکین اسمبلی اُچھلتے کودتے ، اٹھکیلیاں کرتے جوق درجوق، بزعم خویش‘ منزل اقتدار کی طرف گامزن سیاسی جماعت کا حصہ بنتے جارہے ہیں اور آمدہ انتخابات تک تو معلوم نہیں دہائیوں تک اقتدار کے مزے لوٹنے والی جماعت کو موزوں اُمیدوار بھی میسر آسکیں گے یا نہیں‘لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ آج جو جماعت ، دوسری جماعتوں سے آنے والے اراکین اسمبلی کا کھلی بانہوں اور ڈھول تاشوں سے استقبال کررہی ہے ، اُسے یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ وقت کا پہیہ گھومے گا ‘تو یہی سب کچھ اُن کے ساتھ بھی ہورہا ہوگا‘ نہیں یقین آتا تو کچھ حقائق بیان کیے دیتے ہیں۔
؎ شاید کہ اُترجائے ترے دل میں مری بات
1958 میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو اِس کے ساتھ ہی مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ ا قتداری مفادات کی کوکھ سے جنم لینے والی ری پبلکن پارٹی پر بھی پابندی لگا دی گئی حالانکہ یہ وہی جماعت تھی جوجادوئی اشاروں کے بعد 1954 میں ڈاکٹرخان صاحب کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی اور پھر چھڑی گھمائے جانے کے ساتھ ہی مخدوم زادہ سید حسن محمود، میر اعظم خان ، غلام قادر اور دوسرے ان گنت مسلم لیگی سیاستدان اِس کا حصہ بن گئے تھے ۔ 1958 کے بعد چار سالوں تک تو مارشل لا کی چھڑی سے کام چلایا جاتا رہا‘ لیکن پھر سیاسی کندھوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی تو 1962 میں کنونشنل مسلم لیگ کے نام سے نئی سیاسی جماعت وجود میں آگئی اور چھڑی گھومنے کے ساتھ ہی رند، بلوچ،خان، ملک سب کے سب اِس کا حصہ بن گئے ۔ ایوب خان قصہ ٔپارینہ بنے تو جماعت بھی تتربتر ہوگئی‘ لیکن تب تک ذوالفقار علی بھٹو پیپلزپارٹی بنا چکے تھے اور جب 1970 میں پیپلزپارٹی نے انتخابات کے نتیجے میں مغربی پاکستان میں واضح کامیابی حاصل کرلی‘ تو پھر کیا وجہ باقی رہ جاتی تھی کہ ہمیشہ اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومنے کے عادی اِس کا حصہ نہ بنتے اورجب یہ کچھ زیادہ ہی اُڑنے لگی‘ تو اس کے پر کاٹنے کے لیے تحریک استقلال کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوری اتحاد کا بھی سہارا لینا پڑا اور وہی بھٹو جو خود کو پاکستان کی سلامتی کا ضامن سمجھتے تھے ‘جو اپنی بین الاقوامی حیثیت پر ہمیشہ فخر کیا کرتے تھے ، سیدھے کال کوٹھڑی میں پہنچ گئے جس کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد رہا نہ تحریک استقلال کہ منصوبے کے مطابق جنرل ضیاالحق کے طویل مارشل لا کی رات شروع ہو چکی تھی ۔کہانی ایک مرتبہ پھر دہرائی گئی تھی، پہلے وہی حالات پیدا کیے گئے تھے ‘جو ایوب خان نے 1958 کا مارشل لا لگانے سے پہلے پیدا کیے تھے اور بعد میں بندوق، کنونشنل مسلم لیگ کے کندھوں پر رکھ کر چلانا شروع کردی تھی۔یہی سب جنرل ضیاالحق نے بھی کیا کہ پہلے مارشل لا کے حالات پیدا کیے اور پھر اِسی کی چھڑی سے کاروبار مملکت چلایا جاتا رہا جس کے بعد غیرجماعتی انتخابات کا سہارا لیا گیا اور محمد خان جونیجو وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوئے ۔ ملک میں جرنیل کی حکومت ہو اور جرنیلوں کی جماعت وجود میں آچکی ہوتو کیسے تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہرائے گی سو حسب دستور اور حسب روایت ایک مرتبہ پھربڑی روایتی سیاسی شخصیات اِس کا حصہ بن گئیں اور جو نہ بن سکیں وہ کف افسوس ملتی رہیں جن کی بابت پھر کسی وقت تذکرہ کریں گے ۔جماعتیں قائم ہونے اور سیاسی شخصیات کے ان کا حصہ بننے کا کھیل 1988 اور پھر 1990 میں بھی کھیلا جاتا رہا ‘جس کے بعد 2002 میں ق لیگ راتوں و رات ملک کی مضبوط ترین جماعت بن کراُبھری جس نے ملک پر بلا شرکت غیرے حکومت کی اور کیونکر یہ مضبوط ترین جماعت بنی ، یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیںتاآنکہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوگئی اور جب 2013 میں میاں نواز شریف برسراقتدار آئے تو تب کون یہ کہہ سکتا تھا کہ 2018 کے وسط تک اس جماعت کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا پر مشکل ہوجائے گا کہ اعلیٰ پائے کی بیشتر سیاسی شخصیات ہمیشہ کی طرح اس کا حصہ تھیں ‘لیکن ایسا ہوا ہے اور ابھی اس میں مزید شدت آئے گی کیونکہ مسلم لیگ ن کی کشتی سے چھلانگ لگانے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔
کہنے کا مقصد یہی ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے نہ آخری مرتبہ اور وہی روئیے جو 2013 کے بعد ن لیگی قائدین کے رہے‘ اب انصافی قائدین میں دکھائی دیں گے۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ اب کسی بھی طور یہ انسداد اکڑفوں لوشن‘ ایجاد ہوہی جانا چاہیے اور نہ صرف سیاستدانوں بلکہ ادارہ جاتی اجارہ داریوں کے حوالے سے بھی یہ لوشن اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ جس کے ہاتھ تھوڑی سی طاقت لگی نہیں کہ اُس کے مظاہرے شروع ہوجاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی سیاستدان ہی اپنے کیے یا نہ کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ چاہے وہ نواز شریف ہوں ‘ پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف ہوں یا پھر کوئی اور۔ لیکن دوسری طرف کسی اور کا احتساب ہوتا دکھائی دیا ہے اور شاید نہ دکھائی دے گا یا یہ بھی تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ کم از کم سیاستدانوں کے لیے تو انسدادِ اکٹرفوں لوشن‘ ایجاد ہوچکا ہے اور ہم سب کو اب ذہنی طور پر اس بات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے کہ وہ وقت بھی دور نہیں جب 2018 کے انتخابات کے بعد جلد ہی ایک اور تحریک کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ابھی تک تو جو سیاسی بساط بچھائی گئی ہے ‘اُس پر تحریک انصاف کے مہرے ہی مخالفین کو شہہ مات دیتے نظرآرہے ہیں ‘لیکن یہ زیادہ دیر تک ہاتھوں میں نہیں رہیں گے تو تب کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا بالکل ویسے ہی جیسے ایک حکومت کا علاج اسلام آباد دھرنوں سے شروع کیا گیا تھا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں