"FBC" (space) message & send to 7575

بھری ہے دل میں جو حسرت کہوں تو کس سے کہوں

جب کوئی کام نہیں کیا جاسکتا تو پھر اُس کی بابت دعوے بھی اتنے تسلسل سے نہیں کرنے چاہئیں کہ بعد میں دوسروں کو مایوسی اور خود کو شرمندگی محسوس ہو۔ چاہے یہ سب انفرادی سطح پر کیا جاتا ہو‘ اجتماعی سطح یا پھر سیاسی جماعتوں کی سطح پر‘ لیکن افسوس کہ یہ' کہہ مکرنیاں‘ تو اب ہماری گھٹی میں پڑگئی ہیں۔ضرورت نہ ہو تو بھی عادتاً جھوٹ بولنے کی عادت اتنی پختہ ہوچکی ہے کہ باتوں میں سے سچ تلاش کرنا‘ جیسے بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کرنے جیسا ہوچکا ہے ۔دوسروں کو کیا لعن طعن کرنا کہ اگر رات سونے سے پہلے ہم اپنے اپنے گریبان میں منہ ڈالیں ‘توبلا توقف بٹن بند کرنا پڑیں گے کہ وہاں سے آنے والی بدبو سہنا مشکل ہوگا۔ اعلیٰ ترین سطح سے لے کر ایک پھل فروش تک...جھوٹ ہی جھوٹ۔معیشت سے لے کر سیاست تک... جھوٹ ہی جھوٹ ۔ایک کابھی وہی عمل ‘ دوسرے کا بھی اور تیسرے کا بھی‘بس کہہ مکرنیاں ہی کہہ مکرنیاں اور پھر ان کی بابت تاویلیں پیش کرنا اور تسلسل سے پیش کرتے چلے جانا ‘ جن کا سلسلہ ان دنوں تو خصوصا ًاپنے عروج پر ہے ۔ انتخابات میں کامیابی جو حاصل کرنی ہے۔ چاہے اس کے لیے پہلے سے ہی نکلا ہوا اخلاقیات کا مزید جنازہ ہی کیوں نہ نکالنا پڑے ۔ 
دیکھئے تو کیا غدر مچا ہوا ہے ؟ کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کون کدھر سے آرہا ہے ‘ کہاں جارہا ہے ‘ ایک ہنگام برپا ہے ۔مسلم لیگ ن کا معاملہ تو یہ ہوچکا ہے کہ بہت کچھ پہلے ہی لٹ چکا ہے اور جو بچا ہے ‘وہ لٹانے کا تو کوئی سوال نہیں ہے ؛البتہ وہ بچانے کی سعی کی جارہی ہے۔ اس جماعت کے 110 سے 120 تک'electables' پی ٹی آئی کے مہمان بن چکے ۔ مہمان اس لیے کہ آئندہ جب وہ کسی دوسری پارٹی کا پلڑا بھاری دیکھیں گے ‘تو بلا توقف پھر اُڑان بھر لیں گے ۔ تاحیات نااہلی کے بعد نواز شریف اپنے خلاف مقدمات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔جماعتی بقا کے ساتھ ساتھ ذاتی بقا کا مسئلہ بھی درپیش ہے اور اب تو چیف جسٹس صاحب نے قوم اور ملزموں کو ذہنی اذیت سے نجات دلانے کے لیے ان کے خلاف مقدمات کا ایک مہینے میں فیصلہ کرنے کا حکم بھی صادر کردیا ہے۔
اپنے رہنماؤں کی سب سے زیادہ قربانیاں دینے والی پیپلزپارٹی کی‘ تو سوائے صوبہ سندھ کے ‘ دوسرے صوبوں میں نمائندگی ہی نظر آجائے ‘تو غنیمت جانیے‘اس کی اس حالت پر اب ترس آتا ہے ۔ وہ جماعت جسے عوام نے متعدد مواقع پر اپنے اعتماد سے بخشا ‘ آج سوائے سندھ کے اُس کا وجود ہی کہیں دکھائی نہیں دیتا ‘جس کی سب سے بڑی وجہ اس کا اپنے گزشتہ دورحکومت میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھام لینا قرار دیا جاتا ہے‘ جس کے باعث وہ اپنے پانچ سال تو پورے کر گئی‘ لیکن قومی سیاسی اکھاڑے سے باہر نکل گئی اور ابھی تک اُس کے واپس آنے کے بظاہر کوئی امکانات نظر نہیں آرہے ۔ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی ٹہنیوں سے اُڑان بھر کر بے شمار'electables' تحریک ِانصاف کے گھونسلے میں پناہ لے چکے اور وہی اس وقت سب سے زیادہ بوکھلائی ہوئی بھی دکھائی دے رہی ہے ۔ابھی تو اقتدار کی صرف خوشبو آئی ہے‘ تو یہ عالم ہے‘ اگر اقتدار مل گیا‘ تو کیا عالم ہوگا؟ 
لیکن اس سے پہلے تحریک انصاف کو‘ جس امتحان سے گزرنا پڑرہا ہے ‘ وہ بہت مشکل ہے ‘کیونکہ یہ کب ممکن تھا کہ جغادری سیاستدانوں نے ٹکٹوں کی ضمانت لیے بغیر اپنی وفاداریاں تبدیل کی ہوں اورنئے آنے والوں کو ایڈجسٹ کرنے کی ایک ہی صورت ہوتی ہے ۔ پرانوں کو نظرانداز کیا جائے اور تحریک ِانصاف نے یہی کیا ہے ‘جس کے باعث نظریات کی سیاست بھی کہیں منہ چھپا کر بیٹھ گئی ہے ۔ہر شخص کو ٹکٹ دینے کے دلاسے پر شامل کیا گیا۔ یہ دیکھے بغیر کہ تحریک ِانصاف کا جو امیدوار پہلے سے محنت کررہا ہے ‘اس کا کیا بنے گا۔ اب ظاہر ہے اس قسم کی صورتِ حال میں کارکن بددل ہو رہے ہیںاور وہ امیدوار بھی‘ جو برسوں سے اپنی جماعت کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے ۔اس لیے جونہی انکار ہوا‘ راستہ بدل لینے کی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں۔ایک نعرہ جو بہت کثرت سے لگایا جاتا تھا‘ وہ ' ینگ لیڈرشپ‘‘کا تھا‘ لیکن تحریک ِانصاف نے جو اُمیدوار میدان میں اُتارے ہیں‘ اُن میں سے کم از کم 20 تو ایسے ضرور ہیں‘ جو 70 سال سے بھی زائد عمر کے ہیں۔نارووال سے نعمت علی جاوید81برس تو گوجرانوالہ سے ایس اے حمید 76 برس ‘جبکہ مظفر گڑھ سے مصطفی کھر اسی سال کی عمر میں تحریک ِانصاف کی طرف سے میدان ِکارزار میں موجود ہیں۔تنگی داماں کے باعث باقی 'نوجوان کھلاڑیوں‘کا ذکر کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔اب تحریک ِانصاف کو یہ مان لینے میں کیا امر مانع ہے کہ محض بڑے بڑے جلسے ‘ دھرنے ‘ سڑکوں پر احتجاج اور بدعنوانیوں کے خلاف ایک مسلسل مہم ہی انتخاب میں کامیابی کے لیے کافی نہیں‘ بلکہ ایسے مضبوط اُمیدواروں کو میدان میں اُتارنا ضروری ہوتا ہے‘ جو اپنا ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ چاہے اُن کا ماضی داغدار ہو یا پھر وہ اُسی جاگیردار طبقے سے تعلق رکھنے والے ہی کیوں نہ ہوں۔
نظریات کی تھوڑی بہت قربانی دے کر اگر جماعت جیتنے کی پوزیشن میں آجائے تو کیا مضائقہ ہے ‘اسی لیے تو اب اس حقیقت کو تسلیم کرلینے میں بھی کوئی عار نہیں کہ2013 ء کی نسبت اب پی ٹی آئی زیادہ نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں دکھائی دیتی ہے ۔گزشتہ انتخابات میں اس جماعت کے اُمیدوار قومی اسمبلی کے قریباً ستر حلقوں میں پندرہ فیصد سے کم ووٹ حاصل کیے تھے‘ جبکہ اتنے ہی حلقوں سے مسلم لیگ ن کے اُمیدوار 49 ہزار سے 80 ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے تھے‘ لیکن اب حالات کافی مختلف دکھائی دیتے ہیں اور ہانکا ہنوز جاری ہے ۔موروثی سیاست کے خلاف دعوے بھی طویل تاریخ رکھتے ہیں‘ لیکن اس حوالے سے بھی حالات دگرگوں ہی نظرآتے ہیں‘تو گویا ہمارے ہاں نظریات کی سیاست کا نعرہ تو لگایا جاسکتا ہے۔اس پر عمل کیا جانا ممکن نہیں ہوتا‘ تو پھر کیا ضرورت ہوتی ہے‘ مسلسل ایسے دعوے کیے جاتے رہیں‘ جن کی بابت خود بھی یہ معلوم ہو کہ ان پر عمل کیا جانا ممکن نہیں ہے ۔ کیوں ہرا ہرا دکھایا جاتا ہے‘ جب اپنا اندر ہی مطمئن نہیں ہوتا ۔
مذکور صورت ِحال صرف پی ٹی آئی کے ووٹر کے لیے ہی دل شکن نہیں‘ بلکہ غیرجانبدار ووٹر کے لیے بھی مایوسی کا باعث ہے ‘جو عام طور پر جماعتی وابستگی سے زیادہ اُمیدوار کی اہلیت دیکھ کر ووٹ کاسٹ کرتا ہے ۔خان صاحب بھی صورت حال سے بے خبر تو یقینا نہیں ہوں گے‘ لیکن حالات سے آگاہی ایک بات اور انہیں صحیح نہج پر لانا دوسری بات ہوتی ہے‘ جس میں زیادہ کامیابی ہاتھ لگتی نظر نہیں آرہی اور یوں انہیں اوبڑ کھابڑ راستوں پر چلتے ہوئے الیکشن کا پل صراط بھی پار کرہی لیا جائے گا ۔ اس میں کسی کے لیے اچنبھے کی بھی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے کہ یہ روش بحیثیت قوم ہمارے مجموعی رویوں کی عکاس بھی ہے ‘جس نے شاید سیدھے راستے پرنہ چلنے کی قسم سی کھا لی ہے ۔
بھری ہے دل میں جو حسرت کہوں تو کس سے کہوں
بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ ستمگر کوئی اور نہیں

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں