"FBC" (space) message & send to 7575

کہیں تدبیریں اُلٹی نہ پڑجائیں

دانشمندانِ عرب و عجم کی چارہ گریوں کا جو سلسلہ جاری ہے ‘ اُن کا انداز کچھ ایسی صورت ڈھل چکا ہے کہ خوامخواہ ‘آمدہ انتخابات کے حوالے سے صورت ِ حال شکوک وشبہات کا شکار ہورہی ہے ۔اب اس حوالے سے تو کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ اگر کسی چیز کے بارے میں کوئی تاثر پختہ ہوجائے ‘تو اُسے زائل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ گویا عین اُس وقت جب 25جولائی کو ہونے والے انتخابات کی تیاریاں مکمل کی جاچکیں‘ سیاسی جماعتیں کیل کانٹے سے لیس ہوکر میدان میں اُتر چکیں ‘تو ان حالات میں ایک سوچ یہ اُبھر رہی ہے‘ گویا مسلم لیگ (ن) کو انتخابات میں ہرقیمت پر نیچادکھانے کا تہیہ کرلیا گیا ہے ۔ چاہے اس تاثر میں کوئی صداقت ہے یا نہیں‘یہ الگ بحث ہے ۔ سوچ بچار کی دعوت یہ بات دیتی ہے کہ یہ تاثر پیدا ہی کیوں ہو رہا ہے ؟ لیگی قائدین کے خلاف ایک کے بعد ایک شروع کیے جانے والے مقدمات اور پھر انہیں یکے بعد دیگرے نااہل کیے جانے سے یہ سوچ تقویت پکڑتی چلی جارہی ہے کہ پس پردہ کچھ نہ کچھ ضرور چل رہا ہے۔ چاہے نواز شریف کی نااہلی کے بعد وہ قمرالاسلام کیس ہو‘ دانیال عزیز کا ایشو ہو‘خاقان عباسی کی نااہلی کا معاملہ ہو ‘ ن لیگ سے جوق در جوق الیکٹ ایبلز کی روانگی ہو یا پھر اس سب کے ساتھ ساتھ احتساب کا رواں دواں عمل ہو ۔ چہار اطراف سے سب کچھ ایک جیسا ہی نظرآنے لگے ‘تو سوالات کا اُٹھنا‘ عقلی تقاضوں کے عین مطابق ہوتا ہے اور اس صورتِ حال سے وہی جماعت بہت کچھ حاصل کررہی ہے‘ جس کی بابت یک طرفہ کارروائیوں کا تاثر مضبوط ہورہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ( ن) نے اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں سکتا کہ جن لوگوں نے بھی ملکی دولت لوٹی ہے‘ اُن کا احتساب ہونا چاہیے ‘خصوصا ًوہ جو عوامی خدمت کے دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آتے ہیں‘ تو اُن کے کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگتے ہیں‘اُن کے اثاثوں میں بھی ہوشربا حد تک اضافہ ہوجاتا ہے۔ چاہے اُن کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہو‘ ق لیگ سے ‘ مسلم لیگ (ن) سے یا پھر اُن سے جو ووٹوں کی طاقت کے بغیر ہی دہائیوں تک ملک و قوم کی قسمت اور قومی خزانے کے مالک و مختار رہے ہوں‘ لیکن اگر ان سب میں سے ایک ہی جماعت کو ٹارگٹ کرلیا جائے ‘تو اس سے صرف نظر کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔سوچ تو پیدا ہوتی ہی ہے کہ یہ کیسا وقت آگیا کہ تحریک ِانصاف کے دھوبی گھاٹ میں دھل کر گجرات کے چوہدری بھی صاف ستھرے ہوجائیں اور پیپلزپارٹی یا ن لیگ سے پی ٹی آئی میں آنے والے بھی ۔ شاید بہت سی یادداشتوں میں محفوظ ہوگا کہ انسداد بدعنوانی مہم کے آغاز پر چوہدری برادران ‘ عمران خان کا بڑا ہدف رہے تھے‘ جن کے خلاف کارروائی عمران خان کا بڑا مطالبہ رہا‘ لیکن آج صورت ِحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے اور چوہدری برادران کے ساتھ گاڑھی چھن رہی ہے ۔شفاف انتخابات کے لیے تقرروتبادلوں کے جھکڑ میں پسندیدہ افسران تو اپنی سیٹوں پر براجمان رہیں اور ایک مخصوص جماعت کے ہمدرد سمجھے جانے والے تبادلوں کے ریلے میں بہا دئیے جائیں۔ چاہے‘ وہ قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ ہوں یا پھر انتظامی افسران‘ تو پھر کیونکر شفافیت پر انگلیاں اٹھنا شروع نہ ہوں گی ؟ شفاف انتخابات کے لیے یہ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ یہ نہ صرف کرسٹل کلیئر ہوں‘ بلکہ کرسٹل کلیئر نظر بھی آنے چاہئیں ‘ جس کے لیے ضروری ہے کہ فی الحال احتساب اور باسٹھ ‘ تریسٹھ کے ڈنڈے کے وار روک دئیے جائیں ۔
اب رہی یہ بات کہ اگر مسلم لیگ ن کو واقعتاً سیاسی میدان سے باہر دھکیلنا مقصود ہے‘ تو کیا یہ مقصد حاصل کرلیا جائے گا‘ تو یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ایکشن ‘ ری ایکشن کا فارمولا تو بہرحال اپنا وجود رکھتا ہی ہے ‘ جس کے تحت ہی اب ن لیگ اپنے خلاف کارروائیوں کو اپنی مضبوطی کے طور پر اپنا چکی ہے ۔لیگی قائدین بار باراس بات کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں کہ اُن کی جماعت کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ انتقامی کارروائیوں کے الزامات کے ساتھ جب ان باتوں کا اظہار بھی کیا جاتا ہے کہ سابق حکومت نے ملک میں لوڈ شیڈنگ کو ختم کیا‘ ملکی معیشت کو بہتر بنایا‘ امن و امان کی صورتحال میں بہتری پیدا کی ‘تو سننے والے دس کروڑ سے زائد ووٹرز پر ان کے اثرات تو بہرحال مرتب ہوتے ہیں اور وہ بھی اس صورت میں کہ جب عملاً بھی اگر لوڈشیڈنگ سے کلی طور پر نہ سہی‘ بڑی حد تک ضرور نجات مل چکی ہو۔کراچی اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی امن کی فاختہ قدرے آزادنہ طور پر پرواز کرنا شروع کرچکی ہو‘ تو پھر کیوں کر سننے والے ان باتوں کا اثر قبول نہیں کرتے ہوں گے ؟سوائے میاں شہباز شریف کے۔
واضح رہے کہ اسی آڑ میں نواز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کے بیشتر قائدین کی طرف سے اداروں کو بھی مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو‘ اس حکمت عملی پر گامزن ہیں کہ ان اداروں کی ساکھ پر سوالات پیدا کردئیے جائیں‘ تاکہ اگر انتخابات میں شکست ہو‘ تو پھر یہ کہہ کر قوم کی ہمدردیاں سمیٹی جائیں کہ ان اداروں کی مداخلت کے باعث انتخابات شفاف نہیں ہوئے اور انہیں کی مداخلت کے وجہ سے اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ یہ جنگ تو گویا اب اس نہج پر پہنچ چکی کہ جیسے نواز شریف شاید یہ فیصلہ کرچکے ہوں کہ اب جو ہونا ہے‘ ہو ہی جائے۔ اُنہیں یہ بھی نظرآرہا ہے کہ اب اُن کا گرفتاری سے بچنا‘ ناممکن نہیں ‘تو مشکل ضرور ہے ‘تو پھر کیا وجہ باقی رہ جاتی ہے کہ وہ صورت ِحال کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کریں اور یہی وہ کررہے ہیں‘ جس کے حوصلہ افزا نتائج اُنہیں مہمیز لگا رہے ہیں۔ان کی طرف سے شدومد کے ساتھ انتخابات کے بروقت انعقاد پر زور دیا جانا بھی ظاہر کرتا ہے کہ انہیں فروٹ فل نتائج حاصل ہورہے ہیں۔
خدا لگتی بات تو یہی ہے کہ اللہ اللہ کرکے ‘اگر ملک میں جمہوریت کسی حد تک اپنے قدموں پر کھڑی ہورہی ہے ‘تو اس کی مضبوطی کے عمل میں خواہ مخواہ روڑے اٹکانے سے کچھ فائدہ نہیں ہونے والا‘ بلکہ اُلٹا اس سے حالات میں ابتری آئے گی۔ اب دیکھئے تو آمدہ انتخابات ملکی تاریخ کے سب سے مہنگے انتخابات ہیں ‘جن پر 20 ارب روپے سے زائد کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ان میں دس کروڑ سے زائد ووٹرز ‘قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی آٹھ سو انچاس نشستوں پر اپنے نمائندے چنیں گے اور اگر یہ سب کچھ کرکے بھی انتخابات کو مشکوک بنانے کے ساتھ ساتھ ووٹرز کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچانی ہے ‘تو پھر اس پریکٹس کا کیا فائدہ ہے ؟کیا فائدہ اگر انتخابات کے بعد یہی باتیں سننی ہیں کہ نتائج کا فیصلہ پولنگ بوتھوں میں نہیں ‘بلکہ کہیں اور ہوتا ہے ۔ اتنی بڑی سرگرمی کو کیوں کر 02جنوری1965ء کے انتخابات کی صورت ڈھالنا؟ جب ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناحؒ کی ناکامی کو کوئی بھی ناکامی سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ اُن انتخابات کے بعد بقول‘ الطاف حسن قریشی کے جب وہ محترمہ فاطمہ جناحؒ سے ملنے کے لیے گئے ‘تو وہ شدید غصے میں تھیںاور انہوں نے یہ کہہ کر الطاف حسن قریشی سے بات کرنے سے انکار کردیا تھا کہ کون سی جمہوریت؟ کس جمہوریت کی بات کرتے ہو ؟ کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہو؟ جس کے بعد الطاف حسن قریشی نے وہاں سے واپس آنے میں ہی عافیت جانی۔ تب کے اور اب کے حالات میں زمین آسمان کا جو فرق پیدا ہوچکا ‘ اس فرق کو سمجھنا ہی ہوگا۔ یہ بات ذہنوں سے نکالنی ہوگی کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں پڑتا چاہے کوئی کچھ بھی کرتا رہے ۔اگر عوام( ن) لیگ کی سابقہ حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ‘ تو پھر اسے بھی پیپلزپارٹی کی طرح عوامی غیظ و غضب سے کوئی بھی نہیں بچا سکے گا‘ جو 2013 ء کے انتخابات میں ایسی شکست سے دوچار ہوئی کہ آج تک اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مشکل محسوس کرتی ہے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں