"FBC" (space) message & send to 7575

توقعات کی کھائی یا عمل کا پہاڑ

2013ء میں ملک کو درپیش دیگر مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا تھا۔لوڈشیڈنگ کے خلاف آئے روز ہونے والے مظاہروں نے امور حکومت تک چلانا محال کررکھا تھا۔تب ملک بھر میں بجلی کی اوسطا طلب 12ہزار 150میگاواٹ کے مقابلے میں سپلائی بمشکل 8ہزار 950میگاواٹ تک ہی محدود تھی۔ان سرکاری اعدادوشمار سے اختلاف بھی سامنے آتا رہتا تھا‘کیونکہ عملاً ڈیمانڈ اور سپلائی میں اتنا فرق تھا کہ اگر شہروں میں لوڈ شیڈنگ کا اوسط دورانیہ 12سے 18گھنٹوں تک پہنچ گیا تھا ‘تو دیہاتوں میں کئی کئی روز تک بجلی کا غائب رہنا معمول بن گیا تھا۔اس صورت حال کی وجہ یہ رہی کہ پہلے مشرف اور پھرپیپلزپارٹی کے ادوار حکومت میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی۔جب پرویز مشرف برسراقتدار آئے‘ تو خود سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بجلی بنانے کی صلاحیت ‘ اس کی زیادہ سے زیادہ ڈیمانڈ کے مقابلے میں بھی زیادہ تھی۔ گویا لوڈشیڈنگ صفر تھی ‘لیکن ان کے دوراقتدار کے خاتمے تک پیداواری صلاحیت میں صرف 1782میگاواٹس کا اضافہ ہوا۔اس میںسے 900میگاواٹس ‘ 1990میں شروع ہونے والے منصوبے ‘ غازی بروتھا کی تکمیل سے حاصل ہوئے تھے۔
مشرف کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی بجلی کی پیداوار بڑھانے کی طرف خاص توجہ نہ دی‘ جس کے نتیجے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ملک کو درپیش دیگر تمام مسائل پر غالب آگیا۔شایدہی کوئی دن جاتا ہوگا جب مظاہرے نہیں ہوتے تھے۔کاروبار ٹھپ اور صنعتیں دم توڑنا شروع ہوگئی تھیں۔اس دوڑ دھوپ میں 2013ء کے انتخابات کا مرحلہ آگیا۔مسلم لیگ نون نے اس مسئلے کو بنیاد بنا کر انتخابی مہم چلائی اور برسراقتدار آکر اس مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کیا۔قوم نے ان کے وعدے پر اعتبار کیا ‘جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نون کو کامیابی حاصل ہوئی اور نواز شریف وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوگئے۔اس وقت ملک میں بجلی کی پیداوار 12سے 13ہزار میگاواٹ کے درمیان تھی‘ جس کے مقابلے میں اس کی طلب قریباً19ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی تھی۔ڈیمانڈ اور سپلائی کے اتنے بڑے فرق نے ہرفرد کی زندگی اجیرن بنا کررکھ دی تھی۔ میاں نواز شریف بخوبی جانتے تھے کہ اگر وہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل نہ کرسکے ‘تو ان کے لیے سیاسی طور پر سروائیو کرنا ناممکن ہوگا۔اسی لیے نواز حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کیا اور جب نون لیگ کی حکومت ختم ہوئی ‘تو سسٹم میں قریباً 11ہزار میگاواٹ بجلی شامل ہوچکی تھی‘ جس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔اب یہ الگ بات ہے کہ جنہوں نے بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے کچھ نہ کیا‘ وہ تو سکون میں ہیں اور نون لیگ کو توانائی منصوبوں میں بھی کرپشن کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔اس سے کسی کو اختلاف نہیں کہ اگر کرپشن ہوئی ہے ‘تو ایسا کرنے والوں کو سزا ملنی ہی چاہیے‘ لیکن جنہوں نے اس مسئلے کو ناقابل حل سطح تک پہنچادیا تھا‘ اْن کی بھی جواب طلبی ہونی چاہیے۔
بہرحال اس وقت لوڈشیڈنگ کا مسئلہ قریباً حل ہوچکا۔صرف اس ایک مسئلے پر ہی‘ اگر ہم بحیثیت قوم اپنے عمومی رویے کا جائزہ لیں‘ تویہ ہمیں انسانی اور خصوصاً پاکستانی نفسیات کے عین مطابق دکھائی دے گا۔اب اگر کہیں کوئی معمولی لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی ہے تووہ بھی ہم برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ہم وہ وقت بھول چکے جب لوڈ شیڈنگ 18گھنٹوں تک پہنچ چکی تھی ‘ گویابڑے مسئلے کے حل پر خوش ہونے کی بجائے ہم چھوٹا مسئلہ پیدا ہونے پر برہم ہونا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ایک چھوٹی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہماری سرشت میں شامل ہوچکا ہے۔۔ہروقت منفی سوچوں کے زیراثر رہنا نہ صرف ہم پسند کرتے ہیں‘ بلکہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ان رویوںکی بہت صاف سی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تنقید‘ تشدداور خوف کی زیادہ بالادست ہوچکے ہیں۔تعریف اور انعام کا رجحان نہ ہونے کے برابر اور تنقید کا رجحان اپنے عروج پر ہے۔کوئی بھی حکومت کچھ بھی کرلے‘ خوشی ہمارے نزدیک بھی نہیں پھٹکتی۔ہمیں پیسوں کی ضرورت ہو تو خواہش کرتے ہیں کہ رشتے دار اپنا پیٹ کاٹ کر بھی ہماری ضروری پوری کریں۔آپ دیکھ لیجئے کہ بچہ اگر امتحان میں 80 فیصد نمبر بھی حاصل کرلے تو عام طور پر اس سے یہی کہا جاتا ہے کہ اگر تم اچھی طرح محنت کرتے تو اور زیادہ نمبر حاصل کرسکتے تھے۔ یہ رویے ہماری خوبیوں پر پوری طرح سے غالب آچکے ہیں‘جس کی ایک خطرناک صورت اس طرح بھی سامنے آئی ہے کہ ہم دوسروں سے بہت جلدی اور بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں‘ جیسے اب ہماری بہت سی توقعات نئی آنے والی حکومت سے وابستہ ہوگئی ہیں۔
غالب گمان ہے کہ نئی حکومت آتے ہی جادو کی چھڑی گھمائے گی اور ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آنے والے ان توقعات کو مہمیز لگا رہے ہیں۔ان کی طرف سے اپنی پہلی تقریر میں قوم کو اتنے سارے یقین دلا دئیے گئے ہیں کہ امیدوں کا ایک نیاجہان آباد ہوگیا ہے۔یقین دلایا گیا ہے کہ لوٹا ہوا پیسہ واپس ملک میں لایا جائے گا‘وزیراعظم ہاؤس کو ریسرچ یونیورسٹی بنایا جائے گا‘ کرپشن ختم کردی جائے گی‘ پولیس کا نظام ٹھیک کیا جائے گا‘نیب کو غیرجانبدار بنایا جائے گااور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی مقدمے کی سماعت ایک سال سے زیادہ دیر تک جاری نہیں رہے گی۔ان سب کے ساتھ دوسرے بہت سے مسائل حل کرنے کی یقین دہانیاں بھی ریکارڈ پر آگئی ہیں۔ بہت اچھی بات ہے ‘اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ملک گویا حقیقی معنوں میں جنت نظیر بن جائے گا‘ لیکن ایک لمحے کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ جن بیرونی ممالک میں پیسہ رکھا گیا ہے‘اگر انہوں نے اپنے قوانین کے باعث یہ پیسہ واپس کرنے میں رکاؤٹیں کھڑی کردیں ‘تو پھر کون سی جادوکی چھڑی گھمائی جائے گی؟ اللہ نہ کرے کہ پولیس کا نظام ٹھیک نہ ہوسکے ‘لیکن فرض کرلیتے ہیں کہ پہلے روایتی سیاست سے بغاوت کرنے کا نعرہ لگا کرپھر روایتی سیاست کا سہارا لے کر ہی اقتدار میں آنا پڑا ہے‘ تو اسے پولیس کے روایتی سہارے کے بغیر کس طرح دوام بخشا جائے گا؟یہ بھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے‘ جب فوجداری اور دیوانی مقدمات کو مخصوص مدت کے دوران نمٹانے کی تجاویز سامنے آئی تھیں‘ لیکن جن کے پیٹ پر لات پڑتی تھی‘ ان کی مزاحمت پر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
ایک طرف تو ہمارا بہت جلدی توقعات وابستہ کرلینے کا عمومی رویہ اور دوسری طرف سے اسی پچ پر کھیلنے کی روش ‘ڈر صرف اِس بات سے لگ رہا ہے کہ اگر عملًا اس کا 25فیصد بھی ممکن نہ ہوسکا تو پھر کیا ہوگا؟پہلے ہی پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے مایوس ووٹرز تحریک انصاف سے بھی مایوس ہوگئے تو کہاں سر ٹکرائیں گے؟ڈر لگتا ہے کہ کہیں سیاستدانوں کے برے ہونے کا تاثر مزید مضبوط نہ ہوجائے۔دل گھبراتا ہے کہ کہیں قوم ایک مرتبہ پھر یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ سیاستدان کچھ بھی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔کیا ہی اچھا ہو کہ مسائل حل کرنے کے بلند بانگ دعوے کرنے کی بجائے عملی طور پر کام شروع کیا جائے‘ کسی ایک بڑے مسئلے کو حل کرنے کے بعد اسے بطور کارکردگی قوم کے سامنے پیش کیا جائے۔ قوم کی توقعات کو ایک خاص حد سے آگے مت جانے دیجئے کہ مبادا وہ مایوسی کا شکار ہونے لگے۔ ویسے بھی نئے وزیراعظم باتوں سے زیادہ عمل پر یقین رکھتے ہیں‘تو پھر انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی باتوں کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں