"FBC" (space) message & send to 7575

صفائی نصف ایمان…!

مشہور زمانہ سیاح اور مورخ‘ ابن بطوطہ 1304ء کو مراکش کے شہر طنجہ میں پیدا ہوا۔ادب ‘ تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اکیس سال کی عمر میں حج کیا۔حج کے بعد جہاں گردی کا شوق چرایا تو دنیا کی سیاحت پر نکل کھڑا ہوا۔اس نے جس وقت اپنے سفر کا آغاز کیا‘ تب ریل تھی نہ ہوائی جہاز۔ سفر کرنا صحیح معنوں میں جان جوکھم کا کام تھا‘ لیکن اس نے کسی مشکل کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہ بننے دیا۔پہلے افریقہ کے مختلف ممالک کو اپنے قدموں سے ماپا تو پھر ترکی بھی اس کی دسترس سے دور نہ رہا۔جزائر شرق الہند اور چین کی سیاحت بھی کرڈالی‘ جس کے بعد عرب ‘ ایران ‘ فلسطین اور افغانستان بھی کھنگال ڈالے۔چار مرتبہ حج کی سعادت سے بہرہ مند ہونے والے ابن بطوطہ نے قریباً 28سال کی مدت میں 75ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ چلتے چلتے ہندوستان آن پہنچا ‘جہاں اس کی شہرت پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔یہی وجہ رہی کہ اس وقت کے دہلی کے حکمران محمدبن تغلق نے شہر سے باہر نکل کر اس کا استقبال کیا۔موصوف کی بہت آؤبھگت ہوئی اور اسے قاضی کے عہدے سے سرفراز کیا گیا۔یہیں سے وہ فارس پہنچا‘ جہاں ابوحنان مسنداقتدار پر براجمان تھا۔فارس میں کچھ عرصہ گزرا تووہاں کے بادشاہ کے اصرار پر اس نے ‘الاسفارنی غرائب الدیار‘ کے عنوان سے اپنے مشاہدات اور تجربات پر مبنی کتاب لکھی۔ایران سے ایک مرتبہ پھر ہندوستان کی راہ لی اور تاریخ کے مطابق ‘یہاں اس نے ہندوستان کے مختلف شہروں کی تفصیلی سیاحت کی۔ کرناٹک‘ کالی کٹ ‘مالابار اور کھمبائیت کی سیر کی‘ ان شہروں کے رہن سہن کو دیکھا اور یہ سب کچھ اس نے اپنی کتاب میں لکھ ڈالا۔ابن بطوطہ کی کتاب کے متعدد تراجم ہوئے ہیں۔اس کا ایک بہت خوب صورت ترجمہ سفرنامہ ابن بطوطہ کے نام سے کچھ سال پہلے مولوی محمد حسین نے بھی کیا‘ جو باقی تراجم سے قدرے بہتر نظر آتا ہے۔ان تراجم کا مطالعہ ایک الگ ہی دنیا کی سیر کراتا ہے تو ساتھ ہی انسانی زندگی کے بہت سے رموز بھی عیاں کرتا ہے کہ کیسے انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے کوئی بھی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔اس کتاب کا مطالعہ اس دور میں جھانکنے اور اس دور کے رہن سہن کے بارے میں براہ راست جاننے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ اپنی کتاب میں ہندوستان کے بار ے میں یہ مشہور سیاح لکھتا ہے کہ یہاں آنا اس کے لیے بہت ہی شاندار تجربہ رہا‘ لیکن یہاں کی فضا میں ایک عجیب سی سڑاند محسوس ہوتی تھی‘ جیسے ہر جگہ بدبو نے اپنا ڈیرہ ڈالا ہو۔اس نے دیکھا کہ اگر ایک جگہ ریشم کا کاروبار ہورہا ہے‘ تو اس کی بغل میں مختلف تیل بیچنے والا اپنی دکان سجائے بیٹھا ہے۔ایک جگہ جواہرات فروخت ہورہے ہیں‘ تو اس کے ساتھ ہی برتن بک رہے ہیں۔جگہ جگہ لگے گندگی کے ڈھیروں نے بھی اسے پریشان کیا۔ وہ کہتا ہے کہ لوگ ایسے ہی چلتے چلتے دوسروں کی پروا کیے بغیر راستے میں ہی تھوک دیتے۔گندگی پھیلانے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے دیکھے‘ جن کا تذکرہ اس کے سفرنامے میں جابجا ملتا ہے۔
2018ء شروع ہوچکا ۔ہندوستان تقسیم ہوکرتین ممالک کے درمیان بٹ چکا ہے‘ لیکن ہمارے ہاں گندگی کی یہ صورت حال آج بھی ویسی کی ویسی ہی ہے۔ہندوستان اور بنگلہ دیش کو ایک طرف رکھتے ہوئے ‘اگر ہم اپنے ملک کی صورت حال کا جائزہ لیں‘ تو دل دکھتا ہے۔ ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے ‘لیکن عملاً یہ صورت حال کہ کوئی بھی جگہ ‘ کوئی بھی شاہراہ ‘ کوئی بھی مقام گندگی سے محفوظ نظر نہیں آتا۔ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی مثال لے لیں۔اس وقت کچرے کے ڈھیر ‘ کراچی کے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے‘ جسے حل کرنے کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی نظرآتی ہیں۔ملک کے سب سے بڑے شہر میں غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہر روز 16ہزار اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 12ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔چلیں ‘اگر 12ہزار ٹن کچرا پیدا ہونے کے اعدادوشمار کو ہی درست مان لیا جائے‘ تو بھی اس میں سے بمشکل نصف ہی اٹھایا جاتا ہے اور باقی نصف سڑکوں اور آبادیوں کا حصہ بن کر ماحول کو آلودہ کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔کے پی کے دارالحکومت پشاور کی صورت حال کا جائزہ لیں‘ تو یہاں بھی ہرشخص ہی گندگی سے پریشان نظرآتا ہے۔ کوئٹہ میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے؛ البتہ لاہور میں اس حوالے سے صورت حال قدرے بہتر نظرآتی ہے۔اس کی وجہ سابق حکومت کے دور میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی قائم کیے جانے کو قرار دیا جاسکتا ہے۔اس کمپنی کے قیام کے باعث لاہور میں صفائی ستھرائی پر خرچ کی جانے والی رقم 3ارب سے 21ارب روپے سالانہ تک تو پہنچی ‘لیکن اس کے فوائد بہرحال حاصل ہوئے‘ ورنہ شاید لاہور میں بھی کراچی کی طرح ہی شاہراہیں کوڑے کرکٹ سے اٹی نظرآتیں۔
اب آتے ہیں ‘اس طرف کہ آخر کئی صدیوں بعد بھی ہمارے ہاں صفائی کی صورت حال میں بہترکیوں نظرنہیں آتی ؟تو...اس کی وجہ بہت سیدھی اور صاف ہے کہ شاید اب ہمیں گندگی میں رہنا اچھا محسوس ہوتا ہے۔راہ چلتے ہوئی اچھی خاصی صاف شاہراہ پر تھوک پھینک دینے کو ہم کوئی خامی ہی نہیں سمجھتے ‘ بالکل ویسے ہی جیسے ابن بطوطہ کے دور میں کیا جاتا تھا۔ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ پھل کھا کر گاڑی میں سے اس کے چھلکے سڑک پر پھینکنا‘ مہذب دنیا میں کتنی معیوب حرکت سمجھی جاتی ہے۔مجھے پولینڈ میں پیش آنے والا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ہمارا میزبان ہمیں ایک ریستوران میں کھانے پر لے کر گیا۔وہاں مجھے سے صرف اتنی سی گستاخی سرزد ہوئی کہ میں نے سافٹ ڈرنک پی کر خالی ڈبہ ریستوران کے واش روم میں بیسن کے ساتھ رکھ دیا۔ ابھی میں واپس آکر اپنی سیٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ ایک پولش نوجوان وہ ڈبہ اٹھائے میرے پاس آیا اور غصے سے بولا کہ یہ پکڑواپنا گند اور اسے ڈسٹ بن میں پھینکو۔مارے شرمندگی کے میری حالت غیر ہوگئی۔ سوچ میں پڑ گیا کہ اگر اپنے وطن میں مجھے کسی نے ایسا کہا ہوتا تو میں اس کا منہ توڑ دیتا کہ تمہیں یہ حرکت کرنے کی جرأت کیسے ہوئی۔ رات کو جب دکانیں بند ہوتی ہیں‘ تو دکاندار ان کی صفائی کرنے کے بعد تمام کچرا دکانوں کے سامنے ڈھیر کردیتے ہیں۔گھروں کا گند سمیٹ کر سڑک پر ڈھیر لگا دیا جاتا ہے اور پھر نہ جانے کس بوتے پر محفلوں میں بیٹھ کر بہت دھڑلے سے یہ کہا جاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے‘ لیکن لوگ دھیان ہی نہیں رکھتے۔ لوگ کون ہیں؟ظاہر ہیں ہم سب ہیں۔
ہمارے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ کم از کم کچرے کو ڈسٹ بن کے اندر ہی پھینک دیں۔ہم اسے باہر پھینکے گے اور پھر شکایت کریں گے کہ سرکاری ادارے اپنے فرائض ٹھیک طریقے سے انجام نہیں دیتے۔مانا کہ سرکاری ادارے بھی اپنے فرائض میں غفلت برتتے ہیں‘ لیکن کیا ہم اپنا فرض پورا کرتے ہیں؟کیا ہم دوسروں کی طرف انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں؟کیا ہم اپنے بچوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ اس بات کا بھی درس دیتے ہیں کہ بچو‘ صفائی نصف ایمان ہے؟ اگر ہم نے اُن کو صفائی نصف ایمان کا درس دیا ہوتا یا خود اس بات پر عمل کیا ہوتا‘ تو آج ہماری شاہراہیں‘ ہمارے محلے گندگی سے اٹے نظر نہ آتے۔گویا ہمیں اپنے نصف ایمان کو بچانا ہے‘ تو صفائی کی صورت حال میں بہتری لانا ہوگی‘ ورنہ ہمارا نصف ایمان تو بہرحال خطرے میں ہے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں