"FBC" (space) message & send to 7575

نئے چیلنجز

ستمبر 2018ء کو ایک روسی آئی ایل 20 طیارہ شام میں میزائل کا نشانہ بن گیا۔بعد میں سامنے آنے والی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ یہ طیارہ شام کے فضائی دفاع کے لیے نصب کیے گئے ایس 400 میزائلوں کی زد میں آگیا تھا۔ذہن میں یہ سوال تو اُبھرتا ہی ہے کہ روس تو باغیوں کے خلاف شامی حکومت کی مدد کررہا ہے ‘تو پھر شامی میزائلوں نے اپنے ساتھی کے طیارے کو کیوں مار گرایا؟دراصل روسی طیارہ کے قریب ہی کچھ اسرائیلی طیارے بھی پرواز کررہے تھے‘ جن کی طرف سے ایسی فارمیشن بنائی گئی‘ جس نے روسی طیارے کو اُس علاقے کی طرف دھکیل دیا‘ جہاں شامی میزائل سسٹم نصب تھا۔ طیارے کے سسٹم کی زد میں آنے کی دیر تھی کہ خود کار طریقے سے میزائل فائر ہوئے اور روسی طیارہ تباہ ہوگیا۔یہ واقعہ روس کے ایس 400میزائل سسٹم کی accuracyکو بھی ظاہر کرتا ہے‘ جس کے باعث یہ میزائل سسٹم فضائی دفاع کے لیے بہترین گردانا جاتا ہے۔ اسے بلاوجہ ہی بہترین میزائل سسٹم نہیں گردانا جاتا‘ بلکہ اس کے ٹیسٹوں اور کارکردگی نے اسے بہترین نظام بنایا ہے۔ روسی کمپنی المازاینٹے کے تیار کردہ اس میزائل کی ہولناکی دیکھئے کہ یہ 380کلومیٹر کے دائرے میں آنے والے کسی بھی جہاز‘ ڈرون یا میزائل کو 30کلومیٹر کی اونچائی تک انتہائی درستگی سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا طاقتور ریڈار سسٹم فضا میں موجود 100اہداف کی نشاندہی کرسکتا ہے‘ نشاندہی کے بعد جو ہدف اس کی رینج میں آجاتا ہے‘ اُس کا بچنا ؛اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوتا ہے۔ اس کی اسی افادیت کے باعث دنیا کے متعدد ممالک اس کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔یہی وہ میزائل سسٹم ہے ‘جس کی خریداری کا سودا اب بھارت نے بھی روس سے کیا ہے۔معاہدے پر دستخط روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے دورہ بھارت کے دوران ہوئے بجز ‘اس کے کہ امریکہ کی طرف سے بھارت کو اِس معاہدے سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی؛ حتیٰ کہ یہاں تک دھمکی دی گئی کہ اگر بھارت اپنے ارادے سے باز نہ رہا ‘تو اس پر وہ اپنے ایک قانون کاٹسا ‘ کاؤنٹرنگ امریکہ ایڈورسریزتھروسینکشن ایکٹ کے تحت پابندیاں بھی عائد کرسکتا ہے۔یہ قانون ایسے ممالک پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے لیے بنایا گیا تھا ‘جو روس‘ شمالی کوریا یا ایران سے اسلحہ خریدیں گے۔امریکی دھمکیوں کے باوجو د 40ہزار کروڑروپے کے اس سودے کا طے پا جانا‘ خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی اور فوجی صورت حال کے ساتھ امریکہ ‘ بھارت تعلقات میں تبدیلی کا عکاس بھی نظرآرہے ۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے سے پیار محبت کی جو پینگیں بڑھ رہی تھیں‘ خدشہ ہے کہ معاہدے کے باعث ان کے رنگ قدرے پھیکے پڑسکتے ہیں۔معاہدہ کے بعد صرف دوسال کے اندر اندر بھارت کو ان میزائلوں کی سپلائی شروع کردی جائے گی‘ جس کے پانچ سکواڈرن بھارت کو مہیا کیے جائیں گے۔صرف اتنا ہی نہیں‘ بلکہ روس بھارت کے خلائی پروگرام کی ترقی میں معاونت کرے گا‘تو متعدد دیگر منصوبوں پر بھی دستخط ہوئے ہیں‘جن میں ایک ارب ڈالر مالیت کے 200 کاموف ہیلی کاپٹر خریدنے کے معاہدے کو بھی حتمی شکل دی گئی ہے۔گویا ‘روس اور بھارت کے درمیان کچھ عرصے سے جو سرد مہری محسوس کی جارہی تھی ‘ وہ ایک مرتبہ پھر گرمجوشی میں تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روسی صدر کے دورہ بھارت کے دوران‘ تو متعدد دوسرے معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے ہیں‘ تو پھر تمام توجہ صرف میزائل سسٹم کے سودے پر ہی کیوں مرکوز ہے؟بھارت یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ 2017ء میں امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی انتخابات میں مداخلت کے الزام میں روس کی 39کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردی تھیں‘ جن میں یہ میزائل سسٹم بنانے والی کمپنی بھی شامل ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو ملک بھی ان کمپنیوں سے معاہدہ کرتا ہے‘ تو وہ بھی امریکی پابندیوں کی زد میں آئے گا۔تو‘پھر کیوں وہ روسی سے اسلحہ خریداری کے معاہدے کررہا ہے ؟اس کا بہت ہی سیدھا سا جواب ہے کہ ایک تو مؤثر میزائل سسٹم حاصل کرنے کے بعد بھارت کا فضائی دفاع انتہائی مضبوط ہوجائے گا۔ وہ بھی ایسے میں کہ جب ایک مرتبہ پھر اُس کی اپنے ہمسایہ ممالک چین اور پاکستان سے کشیدگی بڑھی ہوئی ہے‘لیکن اس سے بھی اہم بات یہ قرار دی جاسکتی ہے کہ بھارت خود کو بالکل ہی امریکہ کی جھولی میں گرنے نہیں دینا چاہتا اور یقینا اس سودے سے امریکہ کو یہ بہت ہی مضبوط پیغام جائے گا کہ اسٹریٹیجک معاملات کے حوالے سے وہ کسی کے دباؤمیں آنے والا نہیں ہے۔وہ امریکہ سے اچھے تعلقات تو استوار رکھنا چاہتا ہے‘ لیکن روس کو بھی ہاتھ سے کھونے نہیں دینا چاہتا ۔بھارتی پالیسی ساز یہ بھی جانتے ہیں کہ خطے میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کو بھارت کی اشد ضرورت ہے۔اس لیے آج اگر وہ روس سے اسلحہ خریداری معاہدوں پر بھارت سے نالاں ہے‘ تو اُس کی یہ ناراضی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہے گی۔بھارت کی طرف سے یہ عذر بھی سامنے آیا ہے کہ اس سودے کی تفصیلات امریکی پابندیاں عائد ہونے سے ایک سال پہلے طے پا چکی تھیں ۔اس لیے اسے پابندی سے باہر رکھا جائے ۔ میزائل سسٹم معاہدے پر امریکی ردعمل فی الوقت تو بھارت کے لیے کافی مایوس کن ہے ۔ اس سے پہلے جب امریکہ نے ایران سے یکطرفہ طور پر جوہری معاہدہ منسوخ کرکے اُس پر نئی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا ‘ تب بھارت نے واضح طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ وہ کسی ملک کی انفرادی پابندیوں کو نہیں‘ بلکہ اُن پابندیوں کو تسلیم کرے گا‘ جو اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کی جائیں گی‘اسی اعلان کے تناظر میں بھارت نے ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھی تھی‘ لیکن اب یقینی طور پر امریکی روئیے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے بھارت ‘ ایران کے معاملے پر پیچھے ہٹے گا۔گویا بھارت بیک وقت دونوں بڑی طاقتوں کو خوش رکھنے کا خواہاں ہے‘ جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی نظر آرہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایک بڑا ملک ہونے کی وجہ سے بھارت کی دنیا میں اپنی اہمیت ہے ‘لیکن دنیا کے بیشتر ممالک سے اُس کے اچھے تعلقات کو اُس کی اچھی خارجہ پالیسی ملک کے اندر سیاسی استحکام کا نتیجہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔اس کا ایک اندازہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اُس کی ہٹ دھرمی سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اُسے بارہا مذاکرات کی دعوت دی جاچکی ہے‘ جس کے لیے اُس کی طرف سے کوئی مثبت اشارہ نہیں مل رہا ۔ پاکستان سے مذاکرات کے لیے کچھ اہم ممالک بھی اُس پر دباؤڈال رہے ہیں‘ لیکن وہ اپنا پاکستان سے مذاکرات نہ کرنے کے اپنے موقف کو تسلیم کرانے میں کامیاب نظرآتا ہے۔
خطے کی سیاسی اور فوجی طور پر تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال کا اثر یقینا ہمارے ملک پر بھی پڑے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پالیسی ساز تمام صورت حال کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہیں ‘لیکن یہ بظاہر اتنا آسان نظر نہیں آرہا ۔ملکی معیشت اور سیاست کے حالات سب کے سامنے ہیں‘ تو ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات میںبھی گہری دراڑیں نظرآتی ہیں۔بھارت کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر دوسرے ہمسائیوں کے تعلقات پر نظر دوڑائی جائے‘ تو صورت حال کافی مایوس کن نظرآتی ہے۔ سی پیک منصوبے پر چین کے ساتھ جو معاملات پھر سے اُٹھائے گئے ہیں‘ اُن کا اثر بہر صورت دونوں ممالک کے تعلقات پر بھی پڑے گا۔ایسی باتیں بھی سامنے آئیں کہ چینی وزیرخارجہ کے دورہ پاکستان کے دوران اُن سے سردمہری کا رویہ روا رکھا گیا۔اس سے پہلے ڈان لیکس کا غلغلہ بہت سے سر لے چکا ہے۔افغانستان کے ساتھ ہماری 2600کلومیٹر طویل سرحد ملتی ہے ‘لیکن یہاں بھی تعلقات کے حوالے سے معاملات دگر گوں ہی نظرآتے ہیں۔رہ گیا ‘ایران تو ایک عرصے سے اُس کا جھکاؤہماری بجائے بھارت کی طرف زیادہ ہے‘ جس کے پس پردہ متعدد وجوہات کارفرما ہیں ۔اپنے اس ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات میں ہمارے لیے ایک اور معاملے میں جائے رفتن نہ پائے ماندن کی صورت پیدا ہوچکی ہے۔کسی حد تک معیشت کا سانس بحال کرنے کے لیے ہم سعودی عرب کی طرف دیکھ رہے ہیں ‘جس کی طرف سے ایران کی ہمسائیگی میں واقع بندرگاہ میں سرمایہ کاری کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اب اگر سعودی عرب یہ سرمایہ کاری کرتا ہے‘ تو ایران اسے ناپسندیدگی کی نظر سے ہی دیکھے گا ۔گزشتہ کچھ عرصے سے روس کے ساتھ بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کا بھی بہت ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا ۔ ہرطرف روس ‘ پاکستان تعلقات کے نعرے گونج رہے تھے‘ لیکن اب اس حوالے سے بھی صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ان تمام حالات میں ہمارے ملک کے پالیسی سازوں کے لیے بہت سے چیلنجز چھپے ہوئے ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں