"FBC" (space) message & send to 7575

تلخیاں

کھٹاس ہے کہ بڑھتی چلی جارہی ہے۔اُمیدوں کی روشنی مدہم پڑتی جارہی ہے‘ تلخیوں کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ چاہے‘ اندرونی معاملات ہوں یا بیرونی‘اندرونی طور پر دیکھا جائے ‘تونئی حکومت نے ہرطرف جو محاذ کھول لیے ہیں‘ اب اُن سب پر بیک وقت لڑائی لڑنا ‘اس کے لیے کافی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ایک کے بعد ایک پنڈورا باکس کھلتا چلا جارہا ہے ۔ صرف چند ہی ماہ میں حکومت کے لیے ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے‘ جس سے حزب اختلاف کو نیا حوصلہ ملنا شروع ہوگیا ہے۔اس حوصلے کا نیا مظاہرہ پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ ان کی طرف سے قرار دیا گیا ہے کہ نئی حکومت ملک چلا نے کی اہلیت نہیں رکھتی‘ جس کے خلاف تمام اپوزیشن جماعتوں کو مل کر قرارداد لانی چاہیے۔ قرار تو اُن کی طرف سے یہ بھی دیا گیا ہے؛ اگرچہ آج انہیں‘ جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ اُس کے ذمہ دار نواز شریف ہیں ‘لیکن ‘ پھر بھی اُن سے بات ہوسکتی ہے‘ مطلب اُن کی طرف دست تعاون بڑھایا جاسکتا ہے۔دیکھا جائے تو آصف علی زرداری کا یہ کہا جاناہی‘ پہلے سے مشکلات کا شکار میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے لیے ہواکا خوشگوار جھونکا قرار دیا جارہا ہے۔ اب اگر یہ بیل منڈھے چڑھ جاتی ہے‘ تو نئی نویلی حکومت کے لیے مشکلات میں کہیں زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔ملک کی دونوں ہی بڑی جماعتیں احتساب کے عمل پر مسلسل تنقید کررہی ہیں۔حکومت کی طرف سے قرار دیا جارہا ہے کہ جتنی بھی تنقید کرلی جائے‘ بدعنوان ‘احتساب سے بچ نہیں سکیں گے۔یہیں پر مؤثر ووٹ بینک رکھنے والے مولانا فضل الرحمن تو دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی چار ہاتھ آگے نظرآتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے درمیان بیان بازی کا سلسلہ جس حد تک دراز ہوچکا‘ اُس کے پیش نظر تواب دونوں کے درمیان صورت حال پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچتی نظرآرہی ہے۔کچھ محبان نے دونوں کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کی ٹھانی تو ہے‘ اللہ کرے بات بن بھی جائے۔گویا میدان سیاست میں تلخیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ ہرکوئی دوسرے سے شاکی نظرآرہا ہے۔ وہ توقعات ‘جو نئی حکومت کے ساتھ وابستہ کی گئی تھیں‘ اب ایک ایک کرکے دم توڑتی چلی جارہی ہیں۔معاشی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے کہ ڈالروں کے لیے ہردروازہ توڑا جارہا ہے۔کچھ باتیں کہتے ہوئے پر جلتے ہیں‘ ڈر لگتا ہے‘ ورنہ کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے۔اب ظاہر ہے کہ کوئی بھی جمال خاشقی تو بننا نہیں چاہے گا۔ اس صحافی کے قتل عام کا اعتراف کیے جانے کے بعد ترکی اور امریکا شور تو بہت مچارہے ہیں‘ لیکن ممالک کے درمیان افراد کی بھلا کیا حیثیت ہوتی ہے۔ابھی تک تو اس کے قتل کو لے کر کافی شور مچایا جارہا ہے‘ لیکن جس دن سعودی عرب اس بات پر راضی ہوگیا کہ ایران پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے نتیجے میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی جو کمی ہوگی ‘ سعودی عرب اُ س کمی کو موجودہ نرخوں پر ہی پورا کرے گا‘ اُس دن بدلتے پینترے سامنے آنے لگیں گے۔ویسے بھی جہاں سوال اربوں ڈالر کا اسلحہ بیچنے کا ہو‘ وہاں جمال خاشقی کا معاملہ کتنی دیر تک اُچھالا جاسکتا ہے۔گویا معاملات کسی ملک کی اندرونی سیاست کے ہوں یا پھر بین الاقوامی سیاست کے‘وہ بالکل پیاز کی مانند ہی ہوتے ہیں‘ پیاز کی ایک تہہ اُترتی ہے‘ تو دوسری سامنے آجاتی ہے۔شاید اسے ہی باتوں سے بات نکلنا کہتے ہیں‘ ورنہ بات تو ملکی سیاست میں درآنے والی شدید تلخیوں کی بابت ہورہی تھی۔اپوزیشن حکومت کے لتے لے رہی ہے‘ تو حکومت موجودہ صورت حال کے لیے بڑی حد تک سابقہ حکومت نواز بیوروکریسی کو ٹہرا رہی ہے۔ ورثے میں ملنے والے مسائل کو جلد حل کرنے کی نوید تو سننے میں آرہی ہے‘ لیکن ابھی حل نظرنہیں آرہا۔یہ بات ضرورہے کہ ابھی چونکہ حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے جمعہ جمعہ چار دن بھی نہیں ہوئے‘ تو ایسے میںاِس سے بلند بانگ توقعات وابستہ کرلینا ‘عقلی تقاضوں کے بہرحال خلاف ہے۔ہاں !یہ ضرور ہے کہ بہت سے معاملات میں حکومت سے مس مینجمنٹ ہوئی ہے‘اسی مس مینجمنٹ کے باعث ‘اُس کے لیے بہت سی مشکلات بلاوجہ ہی پیدا ہوگئی ہیں۔
اندرونی محاذ سے ہٹ کر بیرونی محاذوں پر بھی حکومت جیسے گرداب میں پھنسی نظرآرہی ہے۔ہمسایہ ممالک کی طرف سے بھی کوئی خیر کی خبر نہیں آرہی۔افغان رہنمائوں کے لہجے پھر تلخ ہورہے ہیں۔وہاں تو دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ہوجائے‘اُسے پاکستان کے کھاتے میں ہی ڈال دیا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ پاکستان میں جلاوطنی کے کئی سال گزارنے والے حامد کرزئی اور اشرف غنی اپنے وطن واپسی پر جب وہاں کے صدور بنے‘ تو پاکستان کے لیے اُن کے لہجے میں ہمیشہ تلخی ہی پائی گئی۔افغانستان میں مختلف حکومتوں میں اہم عہدوں پر فائز رہنے والے عبداللہ عبداللہ کی پاکستان دشمنی سب کے سامنے ہے اور یہ روش آج بھی جاری و ساری ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہاں خود حکومتی کوتاہیوں کے باعث طالبان کا اثر کم ہونے میں نہیں آرہا‘اب تو خود افغان رہنما یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں داعش کے پس پردہ پاکستان نہیں‘ بلکہ کچھ دوسری قوتیںہیں ‘لیکن وہاں جب بھی کوئی دہشت گردی ہوتی ہے‘ اُس کا الزام پاکستان پر دھر دیا جاتا ہے۔چاہے ‘یہ کابل پر طالبان کا حملہ ہو ‘پکتیا کی سپیشل فورس کے سربراہ کرنل عزیزاللہ کا قتل ہو‘ ارزگان کے پولیس سربراہ کرنل مطیع اللہ خان ہوں یاپھر گزشتہ دنوں قندھار میں مارے جانے والے وہاں کے پولیس سربراہ عبدالرزاق اچکزئی ہوں۔ اس سب کے لیے ہمیشہ پاکستان کو ہی موردالزام ٹہرایا گیا۔ایسا کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ عبدالزاق اس سے پہلے بھی قریباً ایک درجن قاتلانہ حملوں سے بچ چکے ہیں ۔یہ موصوف ایک عرصے سے افغان طالبان کا خصوصی ہدف تھے ‘کیونکہ یہ پکڑے جانے والے طالبان کو شدید تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔
اس افغان روئیے میں بھارتی شہ کا عنصر بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کی یہ شدید ترین خواہش ہے کہ اُسے پاکستان کے راستے افغانستان تک زمینی رسائی مل جائے‘ جہاں سے وہ وسطی ایشیا تک اپنے پاؤں آسانی سے پھیلا سکتا ہے۔یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ مذاکرات سے مسلسل انکار اور افغانستان کا پتا استعمال کرکے بھارت‘ پاکستان کو مسلسل دباؤمیں رکھنا چاہتا ہے‘جس دن بھارت کو افغانستان تک زمینی راستہ مل گیا‘ اُس دن خطے کی صورت حال یکسر تبدیل ہوجائے گی۔ اس حوالے سے پاکستان کا موقف بالکل بجا ہے کہ رہداری دئیے جانے سے پہلے ٹرانزٹ ٹریڈ اور سٹریٹیجک مسائل پہلے حل ہونے چاہئیں۔بھارت اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان اس وقت اندرونی مسائل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے ‘اسی تناظر میں ایک مرتبہ پھر نا صرف بھارتی رہنماؤں کے لہجے پھر سے تلخ ہوچکے ہیں‘ بلکہ اُس نے مقبوضہ کشمیر میںایک مرتبہ پھر مظالم کی انتہا کردی ہے۔ایک ایک دن میں سرعام فائرنگ کرکے گیارہ گیارہ کشمیریوں کو شہید کیا جارہا ہے۔پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کی اخلاقی حمایت تو جاری ہے‘ لیکن افسوس کہ عالمی سطح پر اس صورت حال کا خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا جارہا ہے۔یہ صورت حال ہمیں خود اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے کی بھی دعوت دیتی ہے کہ تمام تر قربانیوں کے باوجود آخر کیوں دنیا ہماری بات پر کان نہیں دھرتی۔ہم لاکھ ڈھنڈورا پیٹتے رہیں کہ دہشت گردی کے خلاف ہم نے اتنی قربانیاں دی ہیں‘ پھر دنیا میں اس موقف کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ۔ایران کے سرحدی محافظوں کے اغوا کے معاملے پر ایک مرتبہ‘ پھر ایران کی طرف سے گرم ہوائیں آرہی ہیں۔کیسی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمیں سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ہمارا ہمسا ئے‘ برادر اسلامی ملک کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات مسلسل سرد مہری کا شکارہورہے ہیں۔اس حوالے سے مشکل یہ بھی ہے کہ ہم ایران کے ساتھ تعلقات بگاڑ سکتے ہیں‘ نہ سعودی عرب کو ناراض کرسکتے ہیں۔ان دونوں کی تاریخی چپقلش میں ہمیشہ ہمیں مشکلات کاشکار ہونا پڑا ہے ۔
ان تمام تر اندرونی اور بیرونی حالات میں بہتری کی توقع اسی صورت میں رکھی جاسکتی ہے کہ کم ازکم قومی معاملات پر تو تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہوں۔اُن تلخیوں کو کم کرنے کی کوشش کی جائے‘ جو مسلسل بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔بلاشبہ ان تلخیوں میں اُن کی وجہ سے بھی اضافہ ہوا ہے‘ جو بولنے کے لیے منہ کھولتے ہیں ‘تو بے یقینی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے‘جو شام کو ایک بات کرتے ہیں‘ تو صبح کو دوسرا موقف بیان کررہے ہوتے ہیں۔حکومت پر تنقیدکرنا ایک بات اور خود حکومت میں آکر ڈیلیور کرنا دوسری بات ہوتی ہے ؛اگر زبان کے گھوڑے کو ہی لگا م دے دی جائے‘ تو پیدا ہونے والی تلخیوں میں کمی آسکتی ہے‘ جن کے باعث بیرونی قوتوں کو بھی ہمت ملتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں