"FBC" (space) message & send to 7575

کسی کو کیا الزام دینا

وہ وقت تو گزرے صدیا ں بیت چکیں ‘جب29جنوری 1258ء میں ہلاکو خان کی صورت سب کچھ ملیا میٹ کردینے والی آندھی نے بغداد کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا‘پھر وہ کچھ ہوا ‘جس کا تذکرہ آج بھی دل دہلا دیتا ہے۔وہ شہر جو الف لیلہ کی شہرزاد کا شہر تھا‘ وہ شہر جہاں مصنفوںکو تول کر سونے کی صورت میں معاوضہ دیا جاتا تھا‘عالیشان محلات اور شاندار کتب خانوں کو شہر۔ محاصرہ تیرہ روز تک جاری رہا‘ جس کے بعد اہل بغداد کی ہمت نے جواب دے دیا اور 10فروری 1258ء کو شہر کے دروازے کھل گئے۔ دروازے کھلتے ہی ہلاکو خان نے اپنے آباواجداد کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے سوائے خلیفہ کے بیشتر اشرافیہ کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔اہل شہر کے ساتھ جو کچھ بیتی‘ اس کا اندازہ معروف مورخ عبداللہ وصاف شیرازی کے ان الفاظ سے لگا لیجئے: ''وہ شہر میں بھوکے گدھوں کی طرح پھر گئے‘اس طرح جیسے غضبناک بھیڑئیے‘ بھیڑوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘حرم کی خواتین کو بازاروں میں گھسیٹا گیا اور اُن میں سے ہرایک تاتاریوں کا کھلونا بن کررہی گئی‘‘۔
پورے بغداد میں ہرجگہ لاشیں ہی لاشیں بکھر گئیں اور تاریخ دانوں کے مطابق قتل عام میں تین لاکھ سے دس لاکھ تک افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔حملے سے پہلے ہلاکوخان کی طرف سے 37ویں خلیفہ متعصم باللہ کو خط لکھا گیاکہ جلتے ہوئے سورج کو بجھی ہوئی موم بتی سمجھنے کی غلطی کبھی مت کرنا‘اپنے شہر کی دیواروں کو گرا دو‘ خندقوں کو پاٹ دو‘ کیونکہ اگر ہم وہاں تک پہنچ گئے تو پھر تمہیں پاتال میں بھی پناہ نہیں ملے گی۔خلیفہ نے جواباً لکھا کہ چند روزہ خوش قسمتی سے تم خود کو کائنات کا مالک سمجھنے کی غلطی مت کرنا‘مشرق سے مغرب تک اہل اسلام میری رعایا ہیں‘تمہاری سلامتی اسی میں ہے کہ تم بغداد تک آنے کی غلطی کبھی مت کرنا۔لکھنے والے لکھتے ہیں کہ یہ جواب بھیج کر خلیفہ مطمئن ہوگیا اور یہ گمان تک نہ کیا کہ ہلاکو خان سچ میں اپنے کہے پر عمل کرگزرے گا ‘لیکن ہونی ہوکر رہی۔پورا شہر اُجڑ گیا‘ تو بادشاہ کی باری آئی۔مسلمانوں کا خلیفہ اپنے ہی شہر میں مجرموں کی طرح وحشی ہلاکو خان کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا‘ پھر یہ بھی ہوا کہ اچانک ہلاکو خان نے خلیفہ کے لوٹے ہوئے خزانے سے چند ہیرے جواہرت منگوائے اور خلیفہ کو حکم دیا کہ انہیں کھاؤ۔ خلیفہ نے مجبوراً چند ایک ہیرے منہ میں ڈالے اور پھر اُنہیں اُگل دیا۔ہلاکو خان کے الفاظ آج بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں کہ اگر تم نے یہ ہیرے جواہرات جمع کرنے کی بجائے انہیں اپنی فوج اور رعایا کی بھلائی پر خرچ کیا ہوتا‘ تو آج تمہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔اس کے بعد خلیفہ کو ایک ٹاٹ میں لپیٹ کر اُس پر گھوڑے دوڑا دئیے گئے۔خلیفہ ٹاٹ کے اندر ہی دم گھٹ کر مر گیا‘ جس کے خون کا ایک بھی قطرہ زمین پر نہ گرنے دیا گیا‘ کیونکہ اس دور میں یہ روایت عام تھی کہ جو بھی خلیفہ کا خون بہائے گا‘ اُس پر عذاب نازل ہوگا۔ہلاکو خان نے خلیفہ کے خون کا ایک بھی قطرہ بہائے بغیراُسے موت کی نیند سلا دیا ۔خلیفہ مر چکا تھا‘ پورا شہر اُجڑ چکا تھا‘خواتین کو باندی بنایا جاچکا تھا‘ خزانے لوٹے جاچکے تھے اور عروس البلاد بغداد حسرت ویاس کی تصویر بنا باقی رہ گیا ۔
یہ اُس شہر کا حال ہوگیا تھا‘ جس کی بنیاد 762میں ابوجعفرالمنصور نے رکھی تھی ‘ جس کی تمام تو توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ اسے علم کا مرکز بنایا جائے۔علم دوست حکمران اور بستی کا شہرہ پھیلنے لگا تو مورخ‘ تاریخ دان‘ مصنف‘ سبھی یہاں جوق در جوق پہنچنے لگے۔اہل بغداد نے چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا ‘تو گویا شہر کی علمی سرگرمیوں کو چار چاند لگ گئے۔وقت آگے بڑھا تو شہر میں دارالترجمہ نام سے ایک الگ شعبہ قائم کیا گیا‘ جہاں کے اہلکاروں کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ دنیا کی دوسری زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں کا ترجمہ کریں۔کیا یونانی‘ کیا لاطینی‘کیا سنسکرت اور کیا دوسری زبانوں میںلکھی گئی کتابیں ‘ سب کا یہاں ترجمہ ہوتا تھا۔نویں صدی تک یہ صورتحال پیداہوچکی تھی کہ اس شہر کا ہرشخص خواندہ ہوچکا تھا۔932ء تک یہ دنیا کا پہلا ایسا شہر بن چکا تھا ‘جس کی آبادی 10لاکھ سے زائد تھی۔گویا آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا میں کوئی ایسا دوسرا شہر نہیں تھا‘جو بغداد کی ہمسری کا دعوی کرسکے‘ لیکن بغداد پر جو قیامت ہلاکو خان کی صورت میں ٹوٹی تھی‘اُس نے میسو پوٹیمیا کی تہذیب کے ایسے قدم اُکھاڑے جو پھر کبھی نہ سنبھل سکے۔
سب کچھ لوٹنے کے بعد ہلاکو کی طرف سے اپنی افواج کو خصوصی طور پر حکم دیا گیا کہ شہر میں کوئی ایک بھی کتب خانہ سلامت نہیں رہنا چاہیے۔تمام کتابوں کو جلاکرراکھ کردیا جائے کہ بچھے کھچے اہل بغداد اور کتابوں کے درمیان رشتہ پوری طرح سے منقطع کردیاجائے۔ کہا جاتا ہے کہ سقوط بغداد کے بعد پہلے چند روز تک دریائے دجلہ کا پانی سرخی مائل رہا‘ جس کے بعد وہ سیاہی مائل ہوگیا۔وجہ یہ رہی کہ انسانوں کو قتل کیا گیا تو اُن کے خون نے دریا کے پانی کو سرخی مائل کردیا اور جب کتابوں کا قتل عام ہوا تو اُن کی سیاہی نے دریا کے پانی کو سیاہی مائل کردیا‘ جو کئی روز تک اسی حالت میں بہتا رہا۔اتنی بڑی تعداد میں کتابوں کو ضائع کیا گیا کہ پھر ایک طویل عرصے تک کتاب یہاں دیکھنے تک کو نہ ملی۔خزانہ لوٹنے کے بعدہلاکو کی سب سے زیادہ کوشش یہ رہی کہ وہ اہل بغداد کا رشتہ کتابوں اور پڑھنے لکھنے سے توڑ دے‘ جس میں وہ پوری طرح سے کامیاب رہا۔اُس کے بعد یہ شہر کبھی اپنے ماضی کے قریب بھی نہ پھٹک سکا۔گویا؎
کہانیاں بھی گئیں قصہ خوانیاں بھی گئیں
وفا کے باب کی سب بے زبانیاں بھی گئیں
آجا کے رونا دھونا ہی باقی رہ گیا‘ جو آج بھی جاری ہے۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئے کہ اس کے بعد کچھ تو غیروں نے کتاب سے ہمارا رشتہ استوار نہ ہونے دیا اور رہی سہی کسر ہم نے خود پوری کردی۔اب کے دل کے یہ پھپھولے پھولنے کی وجہ عراق ہی کے ایک شہر موصل پر علم دشمنوں کی یلغار بنی ۔اس شہر پر دوسال کے بعد تبدیلی کے علمبرداروں کا قبضہ مکمل طور پر ختم ہوا ہے تو وہاں کی صورت حال بھی صدیوں پہلے کے بغداد کی مانند ہی سامنے آئی ہے۔ اس شہر کی تصاویر منظرعام پر آئی ہیں‘ تو جیسے انہوں نے ہلاکو کے دئیے زخموںکو پھر سے ہرا کردیا۔ اس شہر پر شدت پسند تنظیم داعش نے قبضہ کیا تو یہ شہر دوسال کیلئے مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا۔اس کے سب سے خوفناک اثرات تعلیمی اداروں اور کتب خانوں پر دکھائی دئیے ہیں۔دوسال کے بعد صبح طلوع ہوئی تو پوری یونیورسٹی اور شہر کے کتب خانے کوئلہ کا ڈھیر بن چکے تھے۔یونیورسٹی کی لائبریری کا شمار مشرق وسطی کی چند ایک سب سے بڑی لائبریریوں میں ہوتا تھا ‘جہاں کتاب کا کوئی ورق تک باقی نہیں رہا تھا۔یہ سب اُس تنظیم کی طرف سے کیا گیا ‘جس نے اپنے ہاتھ میں لوگوں کی بھلائی کا پرچم تھاما تھا‘جو خطے کو اسلامی قوانین کے مطابق ڈھالنا چاہتی تھی ‘لیکن اس کی آڑ میں اُس نے جو کچھ بھی کیا‘موصل یونیورسٹی اور اُس کے کتب خانے تو صرف ایک چھوٹی سی مثال ہیں‘ ورنہ تو جہاں بھی اس کا قبضہ رہا ‘ وہاں اس نے کتب خانوں کو ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ۔ بہت سے اسلامی ممالک میں تو یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ رعایا زیادہ پڑھ لکھ گئی تو اپنے حقوق پہچان جائے گی۔یہی سوچ نیچے تک پائی جاتی ہے۔ آپ دیکھ لیجئے؛ بلوچستان ہو‘ پنجاب ‘ کے پی کے یا سندھ۔ایسے بے شمار علاقوں کی مثال دی جاسکتی ہے‘ جہاں سے کوئی نہ کوئی شخصیت ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں میں موجود رہی ہے‘ لیکن وہاں سکول قائم نہیں ہونے دئیے گئے۔وہ جانتے ہیں کہ تعلیم کا سلسلہ پھیلا تو اُن کی چوہدراہٹ ختم ہوسکتی ہے۔علم کی روشنی پھیل گئی تو اُن کے کھیتوں پر کام کون کرے گا۔بیانات کی حد تک ضرور وایلا کیا جاتا ہے کہ ہمارے علاقوں میں حکومت فروغ تعلیم کی طرف توجہ نہیں دے رہی‘ لیکن عملاً خود ہی اس راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ایسے رویوں کے بعد ہمارے جو حالات ہوسکتے ہیں ‘ وہی ہیں‘ اس کیلئے کسی کو کیاالزام دینا...!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں