"FBC" (space) message & send to 7575

قومی کھیل وینٹی لیٹر پر

مریض وینٹی لیٹر پر تو بہت دیر سے پڑا ہے۔ بھارت میں ہونے والے حالیہ ہاکی ورلڈ کپ کیلئے مریض نے مانگے تانگے کی رقم سے وینٹی لیٹر سے اُٹھنے کی کوشش تو کی تھی‘ لیکن علاج کارگر نہ ہوسکا۔افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ مریض کی اس حالت پر اپنے بھی بیگانے ہی محسوس ہورہے ہیں۔آنکھوں میں آنسو تو نہیں ؛البتہ ڈاکٹروں کی طرف سے صفائیاں پیش کرنے کا ایک لامتناہی سلسلہ چل رہا ہے کہ ہم ذمہ دار نہیں۔عالم تو یہ بھی ہے قومی سطح پر تو کجا ‘انفرادی سطح پر بھی کسی نے دوچار منٹ رک کر تعزیت کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی‘وجوہ پر بات کرنا یا جاننا تو بہت دور کی بات ہے۔ درخشاں ماضی رکھنے والا قومی کھیل ہاکی بھی قصہ پارینہ بنا‘جس کی تاریخ پوری زندگی تھی‘ ایک رومانس تھا‘لیکن ملک کا دامن اب اس رومانس سے خالی ہوچکا۔وہ ہاکی ‘جس کا کبھی میچ ہوا کرتا تھا تو پوری قوم میچ کا آنکھوں دیکھا حال سننے کیلئے ریڈیوسے کان لگائے نظر آتی تھی۔ریڈیو سے کمینٹیٹر کی کچھ ایسی ہی آوازیں سنائی دیتی تھیں‘ گیند اس وقت فل بیک منظورسینئر کے پاس ہے ۔وہ آگے بڑھتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں کہ کس کھلاڑی کو پاس دیں‘منظور سینئر کے پاس سے گیند پہنچی سینٹرہاف اختر رسول کے پاس‘ جنہوں نے اسے فلائنگ ہارس سمیع اللہ کی طرف بڑھا دیا‘ جہاں سے گیند سینٹر فارورڈ رشید جونیئر تک پہنچی اوریہ گول!!ناموں کی تبدیلی کے ساتھ یہی سب کچھ سننے کو ملتا تھا۔1960ئمیں ہمارے ملک نے روم میں پہلا ہاکی کپ جیتا ‘ مطلب آزادی کے صرف تین سال بعد۔1971میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سربراہ نورخان نے ہاکی ورلڈ کپ کا آئیڈیا دیا۔اس کے بعد پاکستان چھ مرتبہ ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچا اور چار مرتبہ ٹائٹل اپنے نام کیا۔تیرہ ایشین گیمز میں سے آٹھ مرتبہ گولڈ میڈل پاکستانی ٹیم کے نام رہا۔تین مرتبہ چیمپئنز ٹرافی کا فاتح رہا۔کھلاڑیوں کا ذکر کیا جائے تو ایک سے ایک ایسا ہیرا ملتا ہے‘ جس کی چکاچوند آنکھوںکو خیرہ کردے۔منیر ڈارتنویرڈاررشید جونیئرمنظورسینئر منظورجونیئرسلیم شیروانی سمیع اللہ اختررسول حسن سرداراور دوسرے شاندار کھلاڑیوں کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست نظرآتی ہے۔انہیں کھلاڑیوں کی مہارت تھی کہ کسی بھی میدان میں اُترنے سے پہلے ہی قومی ہاکی ٹیم آدھا میچ جیت چکی ہوتی تھی۔دنیا کی کسی ٹیم میں اتنا دم نہیں تھا‘ جو پاکستانی ٹیم کو شکست دینے کے بارے میں سوچ سکے۔لے دے کے روایتی حریف بھارت ہی باقی بچتا تھا۔اس کے ساتھ ہر میچ کانٹے دار ہوا کرتا تھا‘ لیکن بیشتر میچز میں میدان قومی ہاکی ٹیم کے ہاتھ ہی رہا۔گھاس پر چیتوں کی طرح بھاگنے والوں کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔
آج یہ عالم کہ بھارت میں ہونے والے ہاکی کے ورلڈ کپ میں قومی ہاکی ٹیم ایک بھی میچ جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔گروپ میچوں میں جرمنی اور ہالینڈ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ؛البتہ ملائیشیا سے برابر کھیلنے میں کامیابی حاصل ہوگئی۔کراس اوور مرحلے میں بیلجیم نے قومی ہاکی ٹیم پر ہاتھ سیدھا کیا اور یوں 16ملکوں کی فہرست میں پاکستان 12ویں نمبر پر رہا۔اس سے پہلے بھارت میں ہی 2010ئمیں ہونے والے ہاکی ورلڈ کپ میں ہمارے شیر آخری نمبر پر آئے تھے۔2014ئمیں تو ٹیم سرے سے ہی ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی ہی نہیں کرسکی تھی۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ اپنے دور کے ہاکی کے شہرہ آفاق سینٹر فارورڈ حسن سردار2010ئمیں قومی ٹیم کے چیف سلیکٹر تھے ‘تو موجودہ ٹیم کے منیجر کے طور پر بھارت گئے تھے۔اُس وقت بھی ٹیم 12ویں نمبر پر آئی اور مجال ہے کہ حالیہ ورلڈ کپ میں ٹیم نے ایک درجے کی بھی ترقی کی ہو۔یہ وہی حسن سردار ہیں‘ جو1982ئمیں بھارت میں ہی ہاکی کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔یہ بھی اسی سنہری دور کی کہانی ہے‘ جب کھلاڑیوں کے کھیل نے بھارتیوں کے دل بھی جیت لیے تھے ۔ وطن واپس آنے سے پہلے ٹیم نے خریداری کی خواہش ظاہر کی تو بھارتی دکانداروں نے اُن کیلئے اپنی دکانیں وقت سے پہلے کھول دیں۔ایسا اس لیے نہیں ہوا تھا کہ دکانداروں کو ایسا کرنے کیلئے مجبور کیا گیا تھا‘ بلکہ وہ ہمارے کھلاڑیوں کے کھیل سے متاثر تھے۔اس سے ذرا پہلے کے ایک واقعے کے تو ہم عینی شاہد ہیں۔لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں پاکستان اور جرمنی کی ٹیموں کے درمیان میچ ہورہا تھا۔ پورا سٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ہمارے ایک ساتھی نے فیصلہ کیا کہ میچ کے بعد وہ رشید جونیئر سے ہاتھ ملائے بغیر واپس نہیں جائے گا۔پاکستان نے اس میچ میں صفر کے مقابلے میں دوگول سے فتح حاصل کی ‘جس کے فوری بعد رشید جونیئرسٹیڈیم سے نکل گئے۔ ہمارے ساتھی کو معلوم ہوا تو اُس نے قومی کھلاڑی کی گاڑی کے پیچھے دوڑ لگا دی اور بالآخر اُنہیں قذافی سٹیڈیم سے کچھ فاصلے پر ٹریفک سگنل پر جا لیا اور اپنی خواہش پوری کرکے ہی دم لیا۔کھلاڑی اپنا حق ادا کرتے تھے تو قوم بھی اُنہیں ٹوٹ کر چاہتی تھی۔ہاکی فیڈریشن کے نورخان جیسے سربراہ قصہ پارینہ بنے تو پھر ہاکی بھی اُسی رنگ میں رنگی گئی‘ جس میں آج پوری قوم رنگی دکھائی دیتی ہے۔کسی کے پاس یہ جواز بھی نہیں کہ ہاکی فیڈریشن پر ایسے افراد براجمان رہے‘ جو ہاکی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے‘بلکہ خود کھلاڑی رہنے والے فیڈریشن کے کرتا دھرتا رہے‘ لیکن ہاکی کی حالت بگڑتی ہی چلی گئی۔
یہ سچ ہے‘ گھاس پر چیتوں کی طرح دوڑنے والے ان کھلاڑیوں کو قابو کرنے کیلئے مغرب نے آسٹروٹرف کا جال بچھایا‘ جس میں کھلاڑی بتدریج پھنستے چلے گئے۔ آسٹروٹرف پرمہارت سے زیادہ جسمانی فٹنس ضروری قرار پائی اور اسی میں ہمارے کھلاڑی مار کھا گئے۔بہتر جسمانی صحتمندی کے باعث مغربی کھلاڑیوں نے ہاکی گراؤنڈز پر قبضہ جمانا شروع کردیا ۔اس حوالے سے کسی حد تک ہمارے مالی مسائل بھی آڑے آتے رہے اور ملک میں اس تعداد میں آسٹروٹرف نہ بچھائی جاسکیں کہ نئے کھلاڑیوں کی مناسب تربیت ہوپاتی۔ آسٹروٹرف آنے سے پہلے لڑکے بالے کسی بھی کھلی جگہ ہاکی کھیلتے کھیلتے قومی سطح پر پہنچ جاتے تھے‘ لیکن آسٹروٹرف کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے اِس ایک فیصلے نے مغرب کو مشرق پر سبقت دلا دی تھی‘لیکن کیا ہاکی کی موجودہ حالت کو صرف اس ایک فیصلے کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ہرگز نہیں ۔کوئی نئی چیز آنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اُس سے سیکھنے کی بجائے اپنی کوتاہیوں کا جواز بنا لیا جائے۔ ایک زمانے میں مایہ ناز سینٹر ہاف رہنے والے اختر رسول ہیڈ کوچ کے طور پر تو اپنے صلاحیتیں نہ منوا سکے ‘لیکن حکمرانوں کی قربت کے باعث فیڈریشن کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز کردئیے گئے۔اپنے اپنے زمانوں کے مشہور کھلاڑی قاسم ضیا‘ آصف باجوہ ‘ شہباز احمد اور متعدد دوسروں کو بھی فیڈریشن کے عہدیداروں کے طور پر آزمایا گیا‘ لیکن نتیجہ بہتر نہ آسکا۔ نتیجہ بہتر آبھی نہیں سکتا تھا‘ کیونکہ ہمیشہ نیتوں کو بھاگ ہوتے ہیں۔بات صرف ہاکی فیڈریشن کے عہدوں تک ہی محدود نہیں رہتی‘ بلکہ ہاکی کی ترویج کے نام پر قائم کی جانے والے 18اکیڈمیوں میں بھی بندربانٹ کا سلسلہ جاری رہا۔اپنی ناقص کارکردگی کو جواز دینے کیلئے مالی وسائل کا بہانہ بنایا جاتا ہے‘ لیکن ہاکی کے ایک سابق کھلاڑی نوید عالم کا کہنا ہے کہ گزشتہ صرف چار سال کے دوران ہاکی فیڈریشن کو حکومت کی طرف سے ایک سو ایک کروڑ روپے ملے‘ اتنی بڑی رقم ملنے کے باوجود بہترین تو کیا اوسط درجے کی ٹیم بھی تشکیل نہ دی جاسکی۔
حالیہ ورلڈ کپ میں بدترین کارکردگی کے بعد کچھ استعفوں کا ڈراما رچایا گیا‘ تو رشید جونیئر کی قیادت میں چار رکنی تحقیقاتی کمیشن بنانے کا ڈول بھی ڈال دیا گیا ہے۔ کوئی بتائے گا کہ گزشتہ بدترین شکستوں پر بننے والی کمیٹیوں کی تحقیقات کے کیا نتائج سامنے آئے؟مریض ینٹی لیٹر پر پڑا زندگی کے دن پورے کرتا رہے گا اور اس کے نام پر عہدوں اور گرانٹ کی بندربانٹ کا سلسلہ چلتا رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں