"FBC" (space) message & send to 7575

شکر الحمد للہ

وقت گزرنے کے ساتھ سانحہ ساہیوال کے زخم مندمل ہونے لگے ہیں۔ سیاستدانوں نے بھی اِس پر دل کی خوب بھڑا س نکال لی ہے ۔ مجھ جیسے ٹٹ پونجیے قلمکاروں نے بھی اس پر دھانسو سے کالم لکھ لیے ہیں۔حکومت ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے ابھی تک کافی پرعزم دکھائی دے رہی ہے۔اس عزم کے کچھ قرائن جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ سامنے آنے کے بعد اُٹھائے جانے والے کچھ اقدامات سے بھی ظاہر ہورہے ہیں۔حتمی رپورٹ آنے کے بعد مزید سخت اقدامات کی توقع رکھی جانی چاہیے۔ مرنے والوں کے اہل خانہ کو بھی اس انہونی کے ہوجانے پر اب پوری طرح سے یقین آچکا ہے۔انہوں نے یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لی ہوگی کہ یہ سب کون سا پہلی مرتبہ ہواہے‘ طاقت اور اختیارات کے استعمال کی ایسی مثالیں تو پہلے بھی سامنے آتی ہی رہی ہیں۔ ہم بھی تو ساری دنیا کے ساتھ ہی ہیں۔ وہ تو انکاؤنٹر کرنے والے شاید کچھ زیادہ ہی طاقت کے نشے میں دھت تھے‘ جو دن دیہاڑے مقابلہ کرڈالا۔تھوڑی سی اچھی تربیت ہوئی ہوتی تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی کہ لاہور کے ایک گھرانے پر کیا قیامت گزر گئی ہے ۔ بس اتنا ہوتا کہ دہشت گردوںکے مرنے کی بڑی بڑی خبریں چلتیں۔ انہیں مارنے والوں کی بلے بلے ہوتی اور پھر سب کچھ وقت کی گرد میں چھپ جاتا۔ مرنے والوں کے اہل خانہ جانے والوں کو سوگ منانے کی بجائے یہی ثابت کرنے میں لگے رہتے کہ ''خدارا ہماری بات کا یقین کرو‘ہمارا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔وہ تو انکاؤنٹر کرنے والوں نے دن دیہاڑے ایک بھری پری سڑک پر مقابلہ کرڈالا اور بات سامنے آگئی اور ایک مرتبہ پھر وہی صورت حال پیدا ہوگئی کہ؎
پھر سے لہو لہو در و دیوار دیکھ لے
جو بھی دکھائے وقت وہ ناچار دیکھ لے
آگے یہ ہوگا کہ اب حکومت کے خلاف آگ اُگلنے والے سیاستدانوں کو بیک فٹ پر لے جانے کا وقت آگیا ہے۔ مسلم لیگ ن کو یاد دلایا جائے گا‘ بلکہ یاد دلایا جارہا ہے کہ بھئی‘ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14افراد کی جان گئی تھی۔آپ اتنے ہی انصاف پسند ہیں۔آپ اتنے ہی درد دل رکھنے والے ہیں۔ آپ کے سینے میں اتنا ہی حساس دل دھڑکتا ہے تو کیوں ابھی تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کا تعین نہیں ہوسکا؟چار ‘ پانچ سال گزر چکے اور ابھی تک یہ تعین نہیں کیا جاسکا کہ اس سانحہ کے پس پردہ کون سے کردار تھے؟پیپلزپارٹی کے لتے لیے جائیں گے کہ جناب وہ آپ کو کراچی کا مرد مجاہد راؤانوار یاد ہے کہ نہیں ؟ وہی راؤ انوارجو 1981ء میں ایک کلرک کے طور پر بھرتی ہوا تھا۔ وہی راؤ انوار جس کے پیپلزپارٹی کے ساتھ اُس وقت اچھے تعلقات استوار ہوئے تھے ‘جب پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کچھ طلبہ کی رہائی کا معاملہ درپیش تھا۔بھتہ خوری‘ جعلی پولیس مقابلوں اور دیگر الزامات کے باعث اسے دومرتبہ ہائی کورٹ اور دومرتبہ سپریم کورٹ کے حکم پر معطل کیا گیا‘ لیکن پہنچی خاک ملیر میں ہے ‘جہاں کا وہ خمیر تھا۔کراچی کا سب سے زیادہ نفع بخش ضلع۔ ہاں یاد آیا؛ وہ نقیب اللہ محسود کے معاملے کا آپ لوگوں نے کیا کیا ہے ؟ وعدے تو آپ نے بہت کیے تھے‘ لیکن حد ہوگئی کہ ان دعوؤں کی کوئی عملی تعبیر تک سامنے نہیں آرہی ؟جواب آں غزل کے طور پر ان الزامات کے جوابات سامنے آئیں گے اور یوں سلسلہ بخوبی آگے بڑھتا رہے گا ‘گویا معاملہ یہی رخ دھارے گاکہ‘
اپنے گلے پہ چلتی چھری کا بھی دھیان رکھ
وہ تیز ہے یا کند ذرا دھار دیکھ لے
بھائی لوگو‘ 1947ء سے لے کر آج تک کے حالات پر ایک طائرانہ سی نظر ہی ڈال لو ۔ ایک سے ایک بڑھ کر ایسے واقعات اور سانحات سامنے آئیں گے کہ دل دہلنے لگے۔ یقین کرنا مشکل ہوجائے کہ یہ سب ہمارے ملک میں ہوا ؟وہ ملک جس کے حوالے سے ضمانت فراہم کی گئی تھی کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہوگی ۔ یہاں سب کو انصاف ملے گا‘جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا معاملہ نہیں ہوگا۔ ایسے نہیں ہوگا کہ پل بھر میں عوامی نمائندوں کے اقتدار کی بساط لپیٹ کر انہیں صرف رخصت ہی نہیں کیا جائے گا‘ بلکہ ضرورت پڑنے پر پھانسی بھی چڑھا دیا جائے گا۔ایک نظریے پر حاصل کیے جانے والے ملک کے دوحصے کردئیے جائیں گے ۔ دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع دیا جائے گا کہ انہوں نے الگ نظریہ کو بحیرہ عرب میں ڈبو دیا ہے۔ اِس سانحے کے بنیادی ذمہ دار کو سرکاری اعزاز کے ساتھ قبر میں اُتارا جائے گا۔ایسے نہیں ہوگا کہ دوسروں کی جنگ کے لیے اپنے ہی لوگوں کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ایسے نہیں ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنے ہی بندوں کو پانچ پانچ ہزار ڈالر میں بیچ دیا جائے گا۔ ایسے نہیں ہوگا کہ اظہار طاقت کے لیے کراچی کو خاک و خون میں نہلا دیا جائے اور ایسا کرنے والا بیرون ملک جا کر مزے اُڑائے گا‘ لیکن افسوس یہ سب ہوا اور ہورہا ہے اور اب تو ایسے محسوس ہورہا ہے کہ جیسے ہوتا رہے گا۔
یوں روز روز کرتے اداکاریاں تری
صورت بدل گئی ہے مرے یار دیکھ لے
میرا دوست‘ میرا یار میرا پاکستان۔جس کے دم سے ہی میرا وجود ہے۔جس کے ہونے سے ہی میں ہوں۔ جو دنیا بھر میں میری پہچان کا باعث ہے ؛اگر یہ نہ ہوتو کہاں کی کرسیاں اور کہاں کے اختیارات ویسا ہی ہوتا جو صدیوں سے اس خطے میں ہوتا آیا ہے۔ یہی ہوتا کہ ہم اکثریت کی چاکری کرتے بالکل ویسے ہی جیسے آج سرحد کے اُس پار رہ جانے والے کررہے ہیں‘لیکن‘ لیکن‘ کیا کرؤں؟ دل خون کے آنسو روتا ہے۔کبھی سانحہ اے پی ایس‘کبھی بم دھماکے ‘ کبھی دوسروں کی دھمکیاں۔کہاں یہ عالم کہ ایک عالم ہم سے دوستی کا خواہشمند اور کہاں یہ عالم کہ ایک عالم ہم سے کنارہ کشی کا خواہاں‘لیکن‘ ہم ہیں کہ بس ایسی ہی باتوں سے دل بہلاتے رہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے اہم ترین خطے میں واقع ہے۔ہمارے ملک کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے اور وغیرہ وغیرہ۔ اپنے مطالبات کے حوالے سے بھی ہم بہت حساس ہیں۔ ہمیشہ دنیا سے یہی مطالبہ کرتے نظرآتے ہیں کہ دنیا دہشت گردی کے خلاف ہماری قربانیوں کا اعتراف کرے۔بیرونی سرمایہ کاروں کو مدعو کرتے رہتے ہیں کہ آؤ اور ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کرؤ‘ اپنے سرمایہ کار چاہے ‘دوسرے ممالک کے لیے رخت سفر باندھتے رہیں۔دنیا بھر کی مختلف ٹیموں کے ترلے کرتے رہتے ہیں کہ بھائیواللہ کا واسطہ ہے آکر ہمارے ملک میں کھیلو۔یقین کرؤ ہمارے گراؤنڈز بالکل محفوظ ہیں لیکن وہ ایسے عقل اور آنکھوں کے اندھے ہیں کہ ہماری بات پر دھیان ہی نہیں دیتے۔اُن کا اِس بات پر یقین نہیں آتا کہ ہمارا ملک امن کا گہوارہ بن چکا ہے یا شاید ہم یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔میرا پاکستان میری جند جان جس سے ہم سب شرمندہ ہیں کہ اس کا اتنے خوب صورت چہرے پر ہم نے بھدے نقش و نگار بنا دئیے ہیں۔ ہم سب اس کے مجر م نہیں‘ تو کم از کم ملزم ضرور ہیں ‘ ویسے ہی ملزم جنہوں نے ساہیوال کی سڑک پر ہنستے بستے گھرانے کو اُجاڑ دیا۔
اِس کی کسک تو تادیر محسوس کی جاتی رہے گی لیکن اِس کا اگلا مرحلہ بہرحال شروع ہوچکا ہے۔جے آئی ٹی کی تشکیل میں ہی اتنی قلابازیاں لگ گئیں کہ کافی لوگ تھک گئے۔پھر یہ بھی واضح کردیا گیا کہ جناب آپ نے ایسے ہی 22جنوری شام پانچ بجے تک رپورٹ عوام کے سامنے لانے کا وعدہ کرلیا۔اِس کے لیے کم از کم دس سے پندرہ دن درکار ہیں ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حتمی نتائج مرتب کرنے کے لیے بہرحال مطلوبہ وقت تو صرف ہوگا ہی لیکن تب تک اہل خانہ مکمل طور پر تھک ہار چکے ہوں گے ۔ واپس زندگی کی طرف لوٹنا شروع ہوجائیں گے کہ آخر کب تک وہ روزی روٹی کمانے کی فکر سے آزاد رہیں گے۔حکومت کی طرف سے امداد کا اعلان تو پہلے ہی کیا جاچکا ہے‘ جسے لواحقین نے ابھی تک تولینے سے انکار کیا ہے‘ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ شاید وہ حقیقت کو اچھی طرح سمجھ جائیں گے اور حکومت کا کام آسان ہوجائے گا۔آخری مرحلے میں لواحقین سے اعلیٰ سطحی رابطے کیے جائیں گے۔اُنہیں زمانے کی اونچ نیچ سمجھائی جائے گی ۔ ایسا ہونے میں کوئی انہونی بھی نہیں ہوگی ‘ ہمیشہ سے یہی تو ہوتا آیا ہے۔رہی بات ماں باپ سے محروم ہوجانے والے بچوں کی‘ تو وہ بابا بھلے شاہ جی کا اکھان تو شاید آپ نے سنا ہی ہوگا۔؎
اوندی رحمت دے نال بندے‘پانی اُتے چلدے ویکھے
جناں دا نہ جگ تے کوئی‘ اووی پتر پلدے ویکھے 
بے شک وہی سب کا پالنہار ہے۔ بے شک وہی ان بچوں کو ہمت عطا کرے گا۔ زندگی کی گاڑی پھر سے رواں دواں ہوجائے گی اور فورسز کا مورال بھی ڈاؤن ہونے سے بچالیا جائے گا۔ شکر الحمد للہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں