"FBC" (space) message & send to 7575

زندگی سے اور کیا چاہیے؟

واسلیوس واسیلویونان کی قومی ائیرلائن میں بطورپائلٹ ملازمت کرتے ہیں۔ گزشتہ سال 20جنوری کی صبح وہ ایک پرواز لے کر افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچے ۔وہاں وہ حسب ِمعمول ایک فائیو سٹار ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔20جنوری کی شام کو طالبان نے ہوٹل پر دھاوا بول دیا۔آگے کیا ہوا... یہ واسلیوس کی زبانی پڑھتے ہیں: ''عام طور پر میں رات کا کھانا ساڑھے آٹھ بجے کھاتا ہوں‘ لیکن اُس رات میں نے اپنے دوست پولیکا کوس کے ساتھ قریباً ساڑھے سات بجے رات کا کھانا ختم کرلیا اور پانچویں منزل پراپنے کمرے میں چلا گیا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد لابی میں ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی۔وہ وقت جب میں عموما رات کا کھانا کھا رہا ہوتا ہوں۔بالکونی سے جھانک کر دیکھا تو کئی ایک افراد کو خون میں لت پت زمین پر پڑے ہوئے دیکھا اور تبھی مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنی جان بچانے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔یہ بھی خوش قسمتی رہی کہ حملے کے وقت میں لابی میں موجود نہیں تھا ‘ورنہ مارا جاتا۔مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ حملہ آور کتنے ہیں اور کہاں کہاں موجود ہیں۔صورت حال کے پیش نظر میں نے کمرے میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔کچھ ہی دیر میں وہ نیچے والی منازل پر لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد میرے فلور پر بھی پہنچ گئے‘ جس دوران ہوٹل کی بجلی بھی بند ہوگئی۔خوفناک اندھیرا اور اس میں گونجتی ہوئی فائرنک کی کان پھاڑ دینے والی آوازیں‘ اس پر یہ خوف کہ معلوم نہیں کب وہ میرے سر پر بھی آن موجود ہوں گے اور پلک جھپکتے میں مجھے مار ڈالیں گے۔میں زمین پر لیٹا اور اپنے پلنگ کے نیچے موجود انتہائی کم جگہ پر سما گیا۔چند ہی لمحوں بعد حملہ آور وں نے فائر کرکے میرے کمرے کا دروازہ پاش پاش کردیا اور اندر داخل ہوگئے۔کمرے میں داخل ہوتے ہی انہوں نے پلنگ پر فائر کیے لیکن خوش قسمتی سے میں محفوظ رہا۔معلوم نہیں کہ انہوں نے پلنگ کے نیچے جھانک کر کیوں نہیں دیکھا۔ بس چند فائر کرکے یقین کرلیا کہ پلنگ کے نیچے کوئی موجود نہیں۔ میری آنکھوں کے سامنے اپنے خاندان کے ساتھ بیتے ہوئے وقت کے مناظر گھومنے لگے ‘کیونکہ اب میں کسی بھی وقت دیکھا جاسکتا تھا ‘جس کے بعد موت یقینی تھی۔وقفے وقفے سے ایسے افراد کی چیخوں کی آوازیں بھی میرے کانوں تک پہنچ رہی تھیں ‘جن میں سے یقینا بہت سے ایسے لوگ بھی تھے ‘جن کے ساتھ میں کام کرچکا تھا۔وہ لوگوں کو مارتے جاتے اور ہنستے جاتے جیسے کسی پکنک پر آئے ہوں۔صبح تین بجے کے قریب اُنہوں نے پانچویں فلور میں آگ لگا دی اور دھویں سے میرا دم گھٹنے لگا۔میں نے محسوس کیا کہ اب کافی دیر سے اُن لوگوں کی کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔میں پلنگ کے نیچے سے باہر نکل آیا ‘جہاں اب کوئی اور موجود نہیں تھا۔میں دوسری مرتبہ موت سے بچ گیا تھا‘‘۔
واسلیوس کی جگہ خود کورکھ کر سوچیں اوردل پر ہاتھ رکھ کر اُس کی باقی کی کہانی سنیں: ''مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ سکیورٹی فورسز کے جوان بھی موقع پر پہنچ چکے ہیں۔ اس دوران آگ پوری طرح سے بھڑک چکی تھی اور میں نے سوچا کہ اگر میں یہاں سے نہ نکلا تو دم گھٹنے سے مارا جاؤں گا۔ صورت کا جائزہ لینے کے لیے میں بالکونی کی طرف گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ کچھ تاریں لٹکی ہوئی ہیں جنہیں ہاتھ میں لے کر میں نے اندازہ لگا رہا تھا کہ یہ کتنی مضبوط ہیں‘ اگرمیں انہیں تھام کر زمین کی طرف جاؤں تو کیا یہ میرا وزن برداشت کرپائیں گی۔ ابھی میں یہی سب اندازے لگا رہا تھا کہ اچانک دوگولیاں میرے انتہائی قریب سے شائیں شائیں کرتی ہوئی دائیں بائیں سے گزر گئیں‘یہ گولیاں سیکورٹی فورسز کے کسی سنائپر نے مجھے حملہ آوروں کا ساتھی سمجھ کر چلائی تھیں۔ سنائپرز کا نشانہ عام طور پر خطا نہیں ہوتا‘ لیکن فائراُس وقت ہوئے جب میں تاروں کو چیک کرتے ہوئے اچانک جھک گیا تھا اور نشانہ خطا گیا۔ میں تیسری مرتبہ بھی بچ گیا تھا۔میں فوراً بالکونی سے ہٹ گیا اور کمرے کے اندر ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ پانی کی دوبوتلیں ‘ کچھ دودھ اور ایک ٹی شرٹ لے کر دوبارہ پلنگ کے نیچے چلا گیا۔حاصل کی گئی تربیت کے مطابق؛ میں نے ٹی شرٹ کو چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں کاٹااور انہیں گیلا کرکے اپنے نتھنوں میں ٹھونس لیا اور ایک کپڑے کو دودھ سے گیلا کرکے منہ پررکھ لیا ‘تاکہ دھویں سے محفوظ رہ سکوں۔میری خوش قسمتی کا اندازہ لگائیے کہ جیسے ہی میں پلنگ کے نیچے گھسا تو حملہ آور دوبارہ کمرے میں آگئے؛اگر میں غلط نہیں ہوں تو شاید دس سیکنڈ یا شاید بیس سیکنڈز بعد۔ کچھ دیر بعد ہوٹل کے باہر سے بھاری گاڑیوں کی آوازیں آنے لگیں‘ لیکن تب تک سیکورٹی فورسز کو یقین ہوچکا تھا کہ شاید ہوٹل میں اب کوئی بھی شخص زندہ نہیں رہا۔اس خیال کے پیش نظر اُنہوں نے ٹینکوں سے ہوٹل کو نشانہ بنانا شروع کردیا ۔ جب بھی گولہ داغا جاتا تو پورا ہوٹل ہلنے لگتا۔لوگ مرچکے تھے‘ ہوٹل کا فرنیچر جل کر راکھ ہوچکا تھا۔انسانی جسموں کے جلنے کی بدبودماغ ماؤف کیے دے رہی تھی۔ٹینکوں کی گولہ باری کی وجہ سے پورے ہوٹل میں بڑے بڑے سوراخ بن گئے تھے ‘لیکن میں ابھی تک بچا ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مجھے زندگی کی قدروقیمت کا احساس ہوا۔میں خود کو چھوچھو کر یقین کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ میں تو سچ میں زندہ ہوں۔اچانک میں کابل کے منفی تین درجے سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں انتہائی ٹھنڈے پانی میں بھیگ گیا۔ یہ پانی ہوتل میں لگی آگ بجھانے کے لیے پھینکا جارہا تھا۔ اندازہ لگائیے میں چار مرتبہ یقینی موت سے بچ چکا تھا‘ لیکن محسوس ہورہا تھا کہ زندگی کے انتہائی قریب آجانے کے بعد اب یہ انتہائی ٹھنڈا پانی مجھے زندہ نہیں رہنے د ے گا۔مجھے جاگتے ہوئے 35سے 40گھنٹے گزرچکے تھے۔دن تقریباً بارہ بجے کے قریب میں نے اپنے کمرے میں کچھ لوگوں کی آوازیں سنیں اور اندازہ لگایا کہ یہ لوگ کون ہوسکتے ہیں۔اُن کی گفتگو سے اندازہ ہوگیا کہ سیکورٹی فورسز کے جوان ہیں تو میں اچانک پلنگ کے نیچے سے نکل کر چلانا شروع کردیا‘ گولی مت چلانا میں ائیرلائن کا کپتان ہوں۔چار کمانڈوز نے میری طرف بندوقیں تان لیں‘ لیکن جب اُنہیں تسلی ہوگئی کہ میں کون ہوں‘ تو اُن کی حیرت دیدنی تھی کہ میں بچ کیسے گیا؟‘‘
میں نے جب سے بین الاقوامی میڈیا میں آنے واسلیوس کی یہ کہانی پڑھی ہے‘ تو اُس کے بعدسے اسے کئی مرتبہ پڑھ چکا ہوں۔وہ کہتا ہے '' آپ میری خوشی کااندازہ نہیں لگا سکتے۔میں ہوٹل سے زندہ نکلنے والا آخری شخص تھا۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں خوشی کے مارے چیخوں‘پوری دنیا کو بتاؤں کہ دیکھو میں زندہ ہوں ۔یونان میں وزارت خارجہ نے میرے خاندان والوں کو اطلاع دے دی تھی کہ شاید آپ کا پیارا اب زندہ نہیں رہا۔جب اُن کو یہ اطلاع ملے گی کہ میں زندہ ہوں تو اُن کے کیا جذبات ہوں گے۔ مجھے اوپر والے نے زندگی بخش دی تھی۔اے اوپر والے تم بہت رحم کرنے والے ہو۔ اوپر والے مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ زندگی تیری کتنی بڑی نعمت ہے۔میں کبھی اتنا پرجوش نہیں ہوا تھا۔اندر دکھ کی لہریں بھی روح کو گھائل کررہی تھیں کہ میں نے اپنے بہت سے ایسے ساتھیوں کو کھو دیا تھا‘ جن کے ساتھ میں کام کرچکا تھا۔‘‘کہانی کا کلائمکس گزرچکا ‘لیکن اس کا سبق ابھی باقی ہے۔وہ بھی اسی خوش قسمت انسان کی زبانی سن لیجئے: ''میں نے اکثر لوگوں کو معاشی مشکلات اور دیگر مشکلات کے حوالے سے شکایات کرتے سنا تھا۔کبھی کبھار میں بھی اس رو میں بہہ جاتا تھا۔شکوہ کرتا تھا کہ زندگی نے ہمیں دیا ہی کیا ہے۔ میں شاید فراموش کرچکا تھا کہ زندگی بذاتِ خود سب سے بڑی نعمت ہے۔اب میں کہتا ہوں کہ زندگی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ تمہارے پاس پیٹ بھرنے کے لیے اناج ہے۔پینے کے لیے پانی ہے۔ باتیں کرنے کے لیے دوست اور اہل خانہ ہیں۔آپ آزاد ہیں ۔ ہنستے مسکراتے ہیں ۔ ان نعمتوں کو محسوس کریں۔زندگی کو اپنے اردگرد اچھی یادیں بنانے کے لیے صرف کریں۔اسے ذہنی تناؤ اور برائیاں کرنے میں ضائع مت کریں۔ اس کے ہرلمحے سے لطف اندوز ہوں ؛اگر آپ کو زندگی سے کوئی شکوہ ہے تو بھی خود کو تسلی دے لیں کہ سب مشکلات وقتی ہوتی ہیں۔کوئی مجھ سے پوچھ کر دیکھے کہ زندگی کیا ہوتی ہے؟ جب زندگی کی ڈور ہاتھ سے پھسلنے لگتی ہے تو پھر احساس ہوتا کہ اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے۔باقی سب باتیں ثانوی ہیں۔ بس یہ بات یاد رکھیں کہ آپ کے پاس زندگی ہے تو پھر زندگی سے اور کیا چاہیے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں