"FBC" (space) message & send to 7575

فدوی‘ درخواست گزار ہے

جناب عالی!گزارش ہے کہ فدوی ایک عرض پیش کرنا چاہتا ہے؛اگر کوئی بات بری لگے تو پیشگی معذرت ہے۔فدوی کا کہا؛ اگر باطل قرار پائے‘ تو براہ کرم اسے سزا کا مستوجب گردانے جانے کی بجائے درگزر سے کام لیا جائے۔ بندہ حقیر بخوبی آگاہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح ملک اب کے بھی تاریخ کے نازک دوراہے پر کھڑا ہے۔ہمارا ایک ناہنجار ہمسایہ پلٹ پلٹ کرجھپٹ جھپٹ پڑتا ہے ۔اس پرجواب دینا مجبوری بن جاتی ہے۔فدوی یہ بھی جانتا ہے کہ خطرہ ابھی پوری طرح سے ٹلا نہیں۔ بندہ ناچیز اس صورت حال پر سخت فکرمند ہے ‘لیکن اسے سب سے زیادہ فکرمندی اس بات پر ہے کہ اُس کے مسکن کے خلاف بنی جانے والی سازش کے تانوں بانوں میں کچھ دوستوں کا نام بھی آرہا ہے۔یہ سن کر ناچیز کی راتوں کی نیند حرام ہوچکی ہے؛ اگر کبھی آنکھ لگ بھی جائے ‘تو ڈراؤنے خواب آتے رہتے ہیں ۔خوابوں میں دوردور تک تپتا صحرا ہی دکھائی دیتا ہے‘ جس کے عین وسط میں واقع اپنے گھر کے اردگرد ہر طرف بگولے رقص کرتے نظرآتے ہیں۔ڈھونڈے سے بھی کوئی نخلستان نہیں ملتا۔چاروں طرف سے دشمن حملہ آور ہوتا نظرآتا ہے اور پھر فدوی ماتھے پر پسینہ لیے ‘ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ یکدم بیدار ہوجاتا ہے۔اُس کے بعد تو نیند جیسے روٹھ ہی جاتی ہے۔
جناب عالی !بعد میں یہی سوچیں اور فکریں بندہ ناچیز کو گھیر لیتی ہیں کہ آخر ہمارے اچھے خاصے نخلستان کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ فدوی نے پڑھا ہے کہ کسی زمانے میں ہم با آسانی اپنے ہمسائیوں کے گھروں میں چلے جایا کرتے تھے اور گاہے بگاہے اُن کا بھی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ آج ہمارا ایک ہمسایہ جو ہم پر پلٹ پلٹ کر جھپٹ جھپٹ پڑتا ہے۔ اُس کے بڑے بھی جب ہمارے مسکن کی فضاؤں سے گزر کر دوسری سلطنتوں میں گھومنے پھرنے یا وہاں کے سلطانوں سے ملنے کے لیے جایا کرتے تھے۔ اس سفر کے دوران وہ بیشترمواقع پرہمارے ہاں مشروبات پینے یا لذت کام ود ہن کیلئے رک جایا کرتے تھے۔اس سے یہ بھی معلوم پڑ جاتا تھا کہ بال بچہ کیسا ہے۔ اُمور سلطنت کیسے چل رہے ہیں ‘وغیرہ وغیرہ۔بالکل اسی طرح جب ہمارے بزرگ اُس ہمسائے کے ہاں سے گزر تے تھے تو وہ اُنہیں شرف میزبانی بخشا کرتے تھے۔ اس طرح دونوں کے درمیان گپ شپ کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔اب صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ‘آئے روز دونوں اپنی تلواریں بے نیام کرلیتے ہیں ۔ کبھی اُمورِ سلطنت پر کنٹرول مضبوط کرنے کیلئے ‘ کبھی انتخابات میں کامیابی کیلئے‘ تو کبھی اپنی رعایا کی توجہ ہٹانے کیلئے...!
بندہ غور کرتا ہے‘ تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت بھی کچھ یہی صورت حال چل رہی ہے۔دونوں ریاستیںا یک مرتبہ پھر مدمقابل ہیں۔ ہمارے ہمسائے کہ ہاں تو مار دیں گے ‘ تباہ کردیں گے‘ نہیں چھوڑیں گے اور پتا نہیں کیا کیا نعرے لگ رہے ہیں۔ بندہ حقیر بخوبی سمجھتا ہے کہ سرحد پار کے جنون نے ایک دنیا کو پریشان کررکھا ہے‘ لیکن اس کا وہاں کے سلطان کوفائدہ بھی ضرور ہوا ہے۔ان حالات میں اگر کوئی ہمسایہ ریاست کے سلطان سے پوچھے گا کہ رافیل طیاروں کی ڈیل میں کرپشن کا کیا ہوا‘لامحالہ جواب میں چانٹا کھائے گا کہ عقل کے اندھے ملکی سلامتی داؤ پر لگی ہے اور تمہیں کرپشن کی پڑی ہے۔ دوبارہ ایسی بات کی تو دوسرا گال بھی لال ٹماٹر بن جائے گا۔ جناب بہت سوکھا پڑا ہے‘فصلیں برباد ہوگئی ہیں اور اب تو ناک ناک ساہوکار کے قرض میں ڈوب چکے ہیں۔ بھگوان کیلئے کچھ کیجئے ۔ ابے جاہلو! لگتا ہے کہ عقل تمہارے قریب سے بھی ہوکر نہیں گزری۔دشمن دیش لٹھ لے کر ہم پر پل پڑا ہے اور تمہیں اپنی سوجھ رہی ہے۔ان حالات میں تو تمہیں یہ کہنا چاہیے کہ بادشاہ سلامت ہمارا بچا کھچا ہڈیوں کا پنجر بھی دیش کیلئے حاضر ہے۔ خیر اس الیکشن میں ہمیں ووٹ دو ۔ جیت گئے تو تمہاری سمسیا پر غور کریں گے۔ اپنے ہاں کے حالات کی طرف نظرجاتی ہے‘تو یہاں بھی صورت حال بہت مختلف نظر نہیں آتی۔ سنتے ہیں کہ ہمسایہ سلطان نے پھر سے تاج حاصل کرنے کے لیے جو ڈراما رچایا تھا ‘ اُس کی عوام پوری طرح سے اس ڈرامے کی بابت جان چکی ہے ‘ لیکن جناب میرے کچھ واقفان تو مختلف باتیں بھی بتاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ڈراما رچانے والے کے چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ یہ بتاتے ہیں کہ وہاں کی جنتا کو بتایا جارہا ہے کہ دیکھو ہمارے اُڑن کھٹولے دوسری ریاست کے ساٹھ کلومیٹر اندر تک گھس گئے اور اُنہیں پتا ہی نہیں چلا۔ وہاں کی رعایا کو تو بتایا جارہا ہے کہ دیکھو ہم نے دشمن دیش کے دودیرینہ دوستوں کو بھی اُس کے خلاف کردیا ہے۔اب ہم تینوں مل کر اسے مزہ چکھائیں گے۔بندۂ حقیر‘ جس تیسرے ہمسائے کے بارے میں سنتا ہے‘ یہ وہی ہے‘ جس کے 50 لاکھ سے زائد باشندے ناچیز کے مسکن میں دہائیوں تک پناہ لیے رہے تھے‘ کیونکہ اُن کے دیس میں بہت طاقتور دشمن گھس آیا تھا۔ دل مان کر تو نہیں دیتا‘ لیکن جناب خدانخواستہ دشمن کا کہا سچ ہوا تو؟ چوتھا ہمسایہ ہمارافولادی دوست تو ہے‘ لیکن سنتے ہیں کہ کئی ایک معاملات میں وہ بھی ناک بھوں چڑھاتا رہتا ہے۔یہ سب کچھ ذہن میں آتے ہی دل اور تیزی سے دھڑکنا شروع ہوجاتا ہے ۔ ایسا ہونے کی کچھ وجوہ بھی ذہن میں آتی ہیں‘ لیکن پھر یہ سوچ دل دہلائے دیتی ہے کہ کہیں ذہن میں کلبلانے والی یہ سوچیں زبان پر آگئیں تو شاید فدوی کہیں کا نہیں رہے گا۔
جناب عالی! جان کی امان‘ یہاں تک سن لیا ہے تو تھوڑی سی اجازت اور دے دیجئے ۔بندہ ‘درخواست گزار ہے کہ ایسا ہونے کی وجوہ پر غور کیا جائے ۔ یہ بجا کہ ہمار ا سب سے بڑا دشمن پہاڑوں کے اُس پار ‘ایشیا کے عین درمیان تک اپنی مصنوعات کیلئے رسائی چاہتا ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہمارے تینوں ہمسائیوںکے تجارتی مفادات ایک ہوچکے ہیں اور آج کل تجارت سے اہم شاید ہی کچھ رہ گیا ہو کہ تجارت ہوگی تو پیسہ ڈھیلا آئے گا۔تین میں سے ایک کا رویہ تو کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے‘ لیکن جو دو دوسرے ہیں‘وہ ہمارے اتنا خلاف کیوں ہوگئے؟ ہمیں نقصان پہنچانا اُن کی خواہش کیوںبن گئی ہے ‘ وہ بھی اس صورت میں کہ دونوں ہمارے برادر اسلامی ممالک ہیں۔بندہ اس پر بھی بہت فکرمند ہے کہ جب ہمارا سب سے بڑا دشمن ہماری حدود میں گھسا تو دنیا کے کسی بڑے سلطان نے اس کی مذمت نہیں کی ۔کسی نے پھوٹے منہ سے جارح کو برا بھلا نہیں کہا کہ میاں تمہیں شرم نہیں آئی‘ جو تم منہ اُٹھا کر ایک خودمختار‘ آزاد ریاست کے اندر گھس گئے۔کسی بڑے نے زبان نہ کھولی کہ اگر تم نے آئندہ ایسا کیا تو سب مل کر تمہیں مزہ چکھا دیں گے‘تو جناب !کیا بندہ ان بڑے سلطانوں کی خاموشی کو نیم رضامندی سمجھے؟ پھر یاد آیا کہ یہ سب کچھ کوئی ایک دن میں تو نہیں ہوا۔یاد آیا کہ ایک امن پسند اور متعدل ملک میں ہم نے خود ہی تو جنگی سوچ اور عمل کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فروغ دیا تھا۔پوری دنیا سے قسم قسم کے لوگوں کو خوش آمدید کہا تھا ۔اُنہیں تمام سہولیات فراہم کی تھیں‘پھر اس کے بطن سے جو کچھ برآمد ہوا اُس نے پوری دنیا میں ہماری شناخت ہی تبدیل کرکے رکھ دی۔
ہم لاکھ چیختے چلاتے رہتے ہیں کہ بھلے مانسوں دہشت گردی کے خلاف ہماری قربانیوں کو تسلیم کرو‘ لیکن ہماری بات پر کان ہی نہیں دھرا جاتا۔غلط یا صحیح ‘ لیکن عموی تاثر بہرحال یہی ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔کامیاب سفارتکاری پر خوش ہونا ہمارا حق ہے‘ جو ہم بہت ہو بھی چکے۔ کافی بھنگڑے بھی ڈال لیے ہیں ۔ فدوی کی گزارش ہے کہ تھوڑی فرصت مل جائے‘ تو ہمیں اس بات پر غور ضرور کرنا چاہیے کہ دنیا ہمارے بیانئے کو تسلیم کرنے کیلئے کیوں تیار نہیں ہوتی؟؟
جناب عالی! فدوی کی گزارش ہے کہ جو وقت گزر گیا ‘وہ تو کسی صورت واپس نہیں آسکتا ‘ لیکن خدا کیلئے سوچئے کہ ہم پوری دنیا سے لڑنے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں...؟
آپ کا تابعدار:بندہ ٔناچیز

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں