"FBC" (space) message & send to 7575

اسد عمر اکیلے نہیں گئے

اسد عمر ا کیلے نہیں گئے‘ بلکہ اُس رومانس کو بھی ساتھ لے گئے ‘جس کا جادو آج سے آٹھ نو ماہ پہلے تک سر چڑھ کر بول رہا تھا۔وہ حکومت کی تمام تر کریڈیبلٹی کو بھی داؤ پر لگا گئے۔حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ ملکی معیشت کی بربادی ملکی سلامتی کے معاملات پر بھی اثر انداز ہونے لگی تھی۔ بہتری کی اُمیدوںکو بھی ملیامیٹ کردیا۔سب سے بڑھ کرجانے والے وزیرخزانہ اپنے ساتھ وہ اعتماد بھی لے گئے‘ جو ملکی معیشت میں بہتر ی کے لیے اُن پر کیا گیا تھا۔پوری قوم اس انتظار میں تھی کہ کوئی تو ایسا کرشمہ ہوگا کہ اگر سب کچھ نہیں تو کچھ نہ کچھ ضرورٹھیک ہوجائے گایا ٹھیک ہونا شروع ہوجائے گا۔
سبھی نے توقعات وابستہ کررکھی تھیں کہ بدعنوانوں کی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد ایمانداروں کی حکومت کے کچھ ثمرات تو عوام تک پہنچیں گے۔سوئس بینکوں سے دوسو ارب ڈالر واپس لاکر ملک کے تمام قرضے ادا کردئیے جائیں گے۔لوٹی ہوئی قوم کی دولت واپس آنا شروع ہوجائے گی تو تمام گلے دور ہوجائیں گے۔ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا سلسلہ بھی جلد شروع ہوجائے گا۔350ڈیموں کی تعمیر کا ڈول بھی جلد ہی ڈال دیا جائے گا۔پاکستان میں غیرملکی بڑی تعداد میں آنا شروع ہوجائیں گے اوراپنے ساتھ پیسہ بھی لائیں گے۔پٹرول؛ اگر 46نہیںتو 60 روپے لیٹر تک ملنا شروع ہوجائے گا۔ کشکول ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے گا‘ لیکن جاگتی آنکھوں کے ساتھ جو خواب دکھائے گئے تھے ‘ سب کچھ ہی اُن کے اُلٹ ہورہا تھا۔ہوا کیا پٹرول تقریباً سو روپے فی لیٹر تک جا پہنچا اور ڈالرکی قیمت میں اضافے نے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔
ملکی معیشت کی بربادی کے لیے ہردم سابق حکومت کو مورد ِالزام ٹھہرانے والے خود ملک کو 3ہزار تین سو ارب روپے کے مزید قرضوںکی دلدل میں دھکیل گئے۔یہ اُس وزیر کی کارکردگی کا حال رہا‘جسے اُس کا کپتان سالوں سے اس ذمہ داری کے لیے تیار کررہا تھا۔حکومت میں آنے سے قبل ہی برسوں پہلے سے انہیں کہا جاتا رہا کہ وہ اپنا ہوم ورک مکمل رکھیں‘ لیکن ذمہ داری پڑی تو سب کچھ اُلٹ ہوگیا۔ انہیں کے اعدادوشمار کو لے کر وزیر اعظم عمران خان بھی ملکی معیشت کے حوالے سے ایسے دعوے کرتے رہے ‘جو حقیقت سے قدرے برعکس دکھائی دیتے تھے۔وزیرخزانہ بننے کے بعد اسد عمر خود تو اپنے دعووں کے مطابق؛ کچھ نہ کرسکے ‘ساتھ ہی اب وزیراعظم کو بھی اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کا جواب دینے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔آج سب سے زیادہ بھد اُنہیں باتوں پر اُڑرہی ہے جو بنا سوچے سمجھے کی گئی تھیں۔اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ سب باتیں کرنے والے حقیقت سے آگاہ نہیں تھے۔ان حالات میں کپتان کے لیے کوئی دوسرا چارہ ہی باقی نہیں رہ گیا تھا کہ وہ بولڈ اقدامات نہ اُٹھاتے۔یہ کام شاید کچھ عرصہ پہلے ہی ہوجاتا‘ لیکن وزیرخزانہ کا دورہ امریکہ شیڈول ہونے کے باعث اس میں تاخیر ہوئی۔کچھ یہ وجہ بھی رہی کہ کپتان اپنے کھلاڑی کو سوچنے کا وقت فراہم کرنا چاہتے تھے۔
وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اپنے کھلاڑی کو یہ پیشکش کی گئی تھی کہ وہ اوپننگ کی بجائے تھری یا فورڈاؤن پر بیٹنگ کرلیں۔سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری کی طرح اوپننگ بیٹسمین نے یہ پیشکش قبول کرنے کی بجائے وزارت چھوڑنے کو ترجیح دی۔
تکلیف ہوتی ہے یہ سوچ کر‘ یہ دیکھ کر کہ اپنے آٹھ ‘ نوماہ کے دور میں وہ کہیں بھی ڈلیور نہیں کرسکے‘ سوائے اس دعوے کے کہ ملکی معیشت کو آئی سی یو سے نکال کر وارڈ میں لے آئے ہیں۔دکھ پہنچتا ہے جانے والے کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہوئے‘ لیکن حقیقت سے نظریں چرانا بھی تو ممکن نہیں ہوتا۔پہلے ایمنسٹی سکیم کی مخالفت اور پھر خود ہی یہ سکیم لانے کا ڈول ڈال دینا۔ اس پر اُنہیں کابینہ کے متعدد اراکین کی مخالفت کا سامنارہا۔ خود وزیراعظم کے غیرمطمئن ہونے کی باتیں بھی سامنے آئیں۔آٹھ ماہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ پیکیج کیلئے مذاکرات جاری ہیں‘ لیکن یہ ابھی تک فائنل نہیں ہوسکا۔پیکیج فائنل ہونے میں تاخیر نے ان کی کارکردگی پر جو سوالات اُٹھائے‘ تو پھر ان کا جواب ملنا مشکل ہوگیا۔ان تمام عوامل نے مل کر کپتان کی ٹیم کے اوپننگ بیٹسمین کو کھیل سے باہر کردیا۔یہ شاید اس لیے بھی ضروری تھا کہ اگر یہ سٹیپ نہ اُٹھایا جاتا ‘تو کپتان کے لیے بعض ناقابل حل مشکلات پیدا ہوجاتیں۔پورے سیٹ اپ کو بچانے کے لیے یہ قربانی ضروری تھی؛حالانکہ بجٹ کی آمد بالکل قریب ہونے باعث یہ وقت اِس تبدیلی کے لیے ہرگز موزوں نہیں تھا۔اگر اس کے باوجود وزیرخزانہ کو عہدے سے ہٹایا گیا ہے‘ تو یقینا حالات حکومت کے قابو سے بھی باہر ہورہے تھے۔
اب چاہے لاکھ اس کو جماعت کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ قرار دیا جائے‘ لیکن کارکردگی اچھی ہوتو مخالفین خود ہی دبک جاتے ہیں۔یہ صحیح ہے کہ جماعت میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے الگ الگ گروپس سرگرم ہیں۔واقفان ِحالات کا یہ بھی بتانا درست کہ اسدعمر کی وزارت سے علیحدگی کا حتمی فیصلہ وزیراعظم اور جہانگیر ترین کی ملاقات میں ہی کیا گیا تھا۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس فیصلے میں کہیں نہ کہیں گروپ بازی کا عنصر بھی موجود ہے‘ لیکن جب صرف آٹھ ماہ کے دوران دو‘ تین منی بجٹ پیش کردئیے جائیں تو پھر معاشرے کی کس اکائی کو اعتماد ملے گا؟جب پہلے سے حاصل ہونے والے ٹیکس محصولات میں بھی 440ارب روپے کی کمی کا امکان پیدا ہوجائے ‘تو پھر مخالفین کیوں کر اس سے فائدہ نہیں اُٹھائیں گے۔
اسد عمر کی وزارت سے علیحدگی سے حکومت کے اِس موقف کو بھی تقویت پہنچے گی کہ جو کام نہیں کرے گا وہ ‘ اپنے عہدے پر نہیں رہے گا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اسد عمر کے بعد اب برسراقتدار جماعت کے پاس کوئی ایسی شخصیت ہی نظر نہیں آتی ‘جو خزانے کی چابیاں سنبھال سکے۔تبھی تو اب ڈاکٹر حفیظ شیخ پر اعتماد کرنا پڑا ہے کہ شاید وہ کوئی کرشمہ کردکھائیں۔ صرف اسد عمر صاحب کی کارکردگی پر کیا دکھ کا اظہار کیا جائے۔ بیشتر کھلاڑیوں کی طرف سے ہی ناقص کھیل پیش کیا جارہا ہے۔سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری کو بھی اپنی وزارت سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں تو اُن کو بھی جان لینا چاہیے کہ وہ ڈلیور نہیں کرسکے۔اُن کے دور میں میڈیا انڈسٹری جس بری طرح متاثر ہوئی ہے‘ اُس نے ہزاروں گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردئیے ہیں۔چند روز پہلے لاہور کے ایک ہوٹل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جب اُن سے اس بابت سوال کیا گیا تو موصوف نے چہرے پر انتہائی ناگواری کے اثرات لاتے ہوئے‘ اس سوال کا جواب دینا ہی پسند نہ کیا۔ اب یہ خود تو چلے گئے‘ لیکن ایک اہم ترین شعبے کی جڑیں مکمل طور پر ہلا گئے ہیں۔ان کی لگائی گئی چوٹیں ایک عرصے تک محسوس کی جاتی رہیں گی۔ وزیر ڈلیور بھی نہ کررہا ہو اور وزارت کے خمار میں انسان کو انسان بھی نہ سمجھے تو پھر اُسے نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔بے سروپا باتیں۔بے یقینی پھیلانے والے بیانات اور پھر گردن کا اکڑاؤ۔یہ سب کچھ زیادہ دیر تک نہ چلنا تو طے تھا‘ لیکن یہ اتنے کم عرصے تک ہی چل پائے گا‘یہ ہم سب کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ ایسا سبق ‘جسے ہم سینکڑوں بار پڑھ چکے ہیں‘ لیکن اس سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نہیں سیکھنا چاہتے ہم کہ جب کوئی ہم پر اعتماد کرتا ہے‘ تو اُسے کسی بھی قیمت پر مجروح نہیں کرنا چاہیے۔نہیں سیکھنا چاہتے ہم کہ جب ہمیں اختیار ملتا ہے تو پھر ہماری ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ جانے والے چلے گئے ،اب بار آنے والوں کے کندھوں پر آن پڑا ہے۔ اُن سے توقع ہی رکھی جاسکتی ہے کہ وہ عوام کے رہے سہے اعتماد کو ختم ہونے سے بچا لیں گے۔ زیادہ باتوں کی بجائے اپنی کارکردگی سے خود کو منوائیں گے۔بلند بانگ دعووں پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے ‘عملی طور پر کچھ کرنے کی کوشش کریں گے‘ ورنہ بہت کچھ تو جانے والے لے گئے ‘ بچا کھچا بھی نہ ختم ہوجائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں