"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ اچھا اچھا

ہروقت کے رونے دھونے کے دوران کچھ اچھا ہونے کی خبر ملے تو شادی مرگ کی سی کیفیت کا طاری ہونا عین ممکن ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت ہورہی ہے یہ جان کر‘سن کر‘ پڑھ کر کہ 51سال کے طویل وقفے کے بعد بالآخر ملک میں تیسرے بڑے میگا ڈیم‘ مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد رکھا دیا گیا۔ اس ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ بیس سال پہلے آچکی تھی تو پھر کام شروع کرنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ڈیمز کے حوالے سے کی جانے والی نئی تحقیقات اس طرف اشارہ کررہی ہیں کہ اب بڑے ڈیمز معاشی طور پر زیادہ سود مند نہیں رہے۔ٹھیکے میں وزیراعظم کے مشیر برائے کامرس کی کمپنی کے حصے دار ہونے کے باعث اقربا پروری کے بھی کچھ الزامات سامنے آئے‘اسی تناظر میں اپوزیشن کی طرف سے بھی کئی ایک اعتراضات اُٹھائے گئے۔اس کے بعد ہی رواں سال میں مارچ میں واپڈا کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ٹھیکے کا ازسرنو جائزہ لینے کے بعد خیر سے تمام رکاؤٹیں دور کردی گئی ہیں۔ اس صورت حال پربہت کچھ لکھا اور کہا جاسکتا ہے‘ لیکن اتنی ہی خوشی بہت ہے کہ کم از کم کچھ تو ہونے جارہا ہے۔ اس لیے شکوے شکایات کو تو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔کچھ اچھے خیالات سے دل بہلاتے ہیں ‘ کچھ خواب دیکھتے ہیں ‘ کچھ مستقبل میں جھانکتے ہیں۔وہ بھی کیا خوب صورت وقت ہوگا ‘جب پانچ سے سات برس بعد 213میٹر بلند یہ ڈیم حقیقتاً ہماری آنکھوں کے سامنے ہوگا۔یہاں سے حاصل ہونے والی 8سو میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہورہی گی۔13لاکھ ملین ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ 16ہزار ایکڑ سے زیادہ زرعی اراضی کو سیراب کررہاہوگا۔ پشاور کے باسیوں کو پینے کا پانی میسر آئے گا ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی تعمیر شروع ہونے سے کم از کم پانی کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کی طرف سفر تو شروع ہوگا۔ 
ناگہانی آفات کسی امتحان اور آزمائش سے کم نہیں ہوتی ۔یہ اپنے ساتھ رنج و الم لے کر آتی ہیں‘ انسانوں کو دکھوں میں مبتلا کردیتی ہیں ۔پیاروں کو پیاروں سے جد اکردیتی ہیں۔کچھ تباہیوں کے اثرات تو نسلوں تک بھگتنا پڑتے ہیں ‘لیکن کیا کیجئے کہ بہت سی صورتوں میں ہم خود بھی آزمائشوں کو دعوت دیتے ہیں۔ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی آنکھیں موندے رہتے ہیں۔ کسی معجزے کے انتظار میںہوتے ہیں کہ شاید مسائل خود سے ہی حل ہوجائیں۔ بس اسی انتظار میں ہما رے ملک کی پیاس بڑھتی چلی گئی‘ اتنی زیادہ کہ پانی کی سخت قلت کا سامنا کرنے والے ممالک کی فہرست میں ہم تیسرے نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔اندازہ ہے کہ 2025ء تک یہ مسئلہ سنگین تر ہوجائے گا ۔بقول شاعرـ؎
یہ کیسی پیاس ہے اے اہل درد کچھ تو کہو
کہ تشنگی نہ بجھی اور ایاغ بجھنے لگے
کہاں 1947ء کہ جب ہرپاکستانی کیلئے کم از کم سالانہ 5ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب ہوا کرتا تھا اور اب یہ وقت کہ ہرشہری کے لیے پانی کی دستیاب مقدار ایک ہزار مکعب میٹر سے بھی کم ہوچکی۔ فصلوں کیلئے پانی کی کمی‘ معمول بن چکی ۔زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں کہ گزشتہ سال فصل خریف کیلئے پانی کی 30سے 40فیصد کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔گندم کی فصل کو بھی پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ آنے والے وقت میں صورت حال مزید سنگین ہوتی چلی جائے گی۔ فصلوں کیلئے پانی کی دستیابی تو ایک طرف رہی۔ ذرا اندازہ تو کیجئے کہ میرے ملک کے ساٹھ ‘ ستر فیصد رہنے والوں کیلئے پینے کیلئے بھی صاف پانی کا حصول خواب ہوچکا۔اس دھرتی پر 40فیصد اموات آلودہ پانی کے باعث ہوتی ہیں۔ وجہ سیدھی اور صاف ہے کہ میرے شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والے ہزاروں نہیں‘کروڑوں ہم وطن پانی کیلئے جوہڑوںاور ٹوبوں کے آلودہ پانی پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ حصول پانی کیلئے یہ کوئی دوسرا ذریعہ نہیں پاتے ۔ہم جو بڑے شہروں میں رہتے ہیں‘ خوش قسمت ہیں کہ کم از کم پینے کو پانی تو ملتا ہے۔ پانی کی سپلائی گھروں تک نہ پہنچے تو فلٹریشن پلانٹس سے پانی بھرنے کی سہولت بھی موجود ہے ‘ورنہ تو ان گنہگار آنکھوں نے پانی کو تالے میں پڑا ہوا بھی دیکھا ہے۔ اُس خطے میں ‘جسے تھرپارکر کہتے ہیں۔وہ خطہ جہاں زندگی کا دارومدار ہی بارشوں پر ہے۔ بارشیں برس گئیں‘ تو ہر طرف ہریالی آگئی اور نہ برسیں‘ تو پھر ہر طرف قحط سالی ڈیرے ڈال لیتی ہے اور ایک قیامت ِ صغریٰ کا منظر ہوتا ہے۔
یہ الگ بات کہ شکوہ کروں تو کچھ بے جا بھی نہیں۔ایک ایسا ملک‘ جس کے دریاؤں سے گزر کر ہرسال کم از کم 21ارب ڈالرکا 29ملین ایکڑفٹ پانی سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔اندازہ تو لگائیے کہ دنیا بھر میں اوسطاً یہ شرح 8.6ملین فٹ کے قریب ہے۔ہم کسی سے کیا گلہ کریں کہ اتنے زیادہ پانی کو ضائع کرنے کے بعد ہم دستیاب پانی کا صرف دس فیصد حصہ ہی ذخیرہ کرپاتے ہیں۔اس کے بعد ہم یہ گلہ نہیں کرسکتے کہ قدرت نے ہمیں پانی جیسی نعمت سے نوازنے میں بخل سے کام لیا ہے۔یہ ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں‘ جنہوں نے ہمیں اس سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ہم اکثر یہ شکوہ کرتے ہیں کہ بھارت ہمارا پانی روک لیتا ہے۔ وہ ہمیں ہمارے حصے کا پورا پانی نہیں دیتا ۔ اس سے کہیں بہتر ہو کہ ہم ہرسال ضائع ہوجانے والے 29ملین ایکڑ فٹ پانی کو بچانے کی کوشش کریں۔ عالمی فورمز پر بھارت سب سے زیادہ ہماری اسی کوتاہی کا سہارا لیتا ہے۔ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے بھی تو پانی ضائع ہی کردینا ہے‘ تو اس سے بہتر ہے کہ اسے استعمال کرلیا جائے ۔ اس بات کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔جواب ہوبھی نہیں سکتا‘ جس کا آسان حل یہ سمجھا جاتا ہے کہ سب کچھ دشمن کے سر پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کرلو۔
پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے پیش نظر‘ اب اس طرح کا رویہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا؛اگر ہم خود کو بڑے ڈیمز تعمیر کرنے کی پوزیشن میں نہیں پاتے تو فوری طور پرمائیکروڈیمز کی تعمیر شروع کی جاسکتی ہے‘ جو ہر اُس علاقے میں بنائے جاسکتے ہیں‘ جہاں کوئی ڈھلوان دستیاب ہو۔کاشتکاری کے جدید طریقے اپنا کر بھی پانی کی اچھی خاصی مقدار بچائی جاسکتی ہے۔پانی کی دستیاب مقدار کا تقریباً 95فیصد کاشتکاری کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔اس کے باوجود ہمارے فصلوں کی فی ایکٹر پیدوار دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت کہیں کم ہے۔گویا پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے ہمیں بہت سے دوسرے پہلوؤں کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ اس حوالے سے ضائع کرنے کیلئے اب ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں بچا۔دوسروں پر الزامات دھرنے کی بجائے ‘ہمیں خود اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینا ہوگا؛اگرچہ مہمند ڈیم کی تعمیر کے آغاز کو احسن اقدام قرار دیا جاسکتا ہے‘ لیکن یہ صرف آغاز ہے۔
ضروری ہے کہ گومل زام ڈیم کے ناکام تجربے کو بھی سامنے رکھا جائے۔قبائلی علاقے میں تعمیر کیا گیا یہ ڈیم نا صرف یہ کہ وقت مقررہ پر مکمل نہ ہوسکا ‘بلکہ اپنی تعمیر کے بعد بھی بے شمار مسائل کا سامنا کرتا رہا۔کہتے ہیں کہ اچھے کی اُمید ہی رکھنی چاہیے ۔ سو‘ اسی کے مصداق ہم بھی سب منفی باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اچھے کی اُمید ہی رکھتے ہیں کہ پانی کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ‘جس اچھے سفر کا آغاز کیا گیا ہے‘ وہ اب جاری رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں