"FBC" (space) message & send to 7575

سماج سدھار تحریک

ایک بارپھر سماج سدھار تحریک زوروشور سے جاری ہے۔ہرکسی کی کوشش یہی ہے کہ وہ دوسروں کو سدھار لے۔اس مقصد کیلئے سبھی سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور اس چکر میں اپنے ہی بیڑے غرق کیے جارہے ہیں۔ نہ کوئی منصوبہ بندی نہ کوئی ویژن‘بس بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہے‘ جسے جو جس طرف ہنکا دیتا ہے ‘ یہ اُسی طرف چل پڑتا ہے۔ایسے ہی ‘اگر آج کی تحریر بے ربط محسوس ہو‘ ردھم کی کمی چبھنے لگے تو معاف کردیجئے گا۔یوں بھی ان حالات میں کہاں کی سوچ بچا ر اور کہاں کی عقل و دانش کی باتیں ۔حکومت تو عوام کا تیل نکال ہی رہی ہے تو ہم خود بھی خود کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔اب تو جیسے معاشرے میں بے سروپا باتوں اور غلط حرکتوں کا مقابلہ جاری ہے‘ جس میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کیلئے کوششیں ہمہ وقت جاری رہتی ہیں۔ بس ایک ہانکا لگا ہوا ہے ؛اگر کبھی اس بارے میں نہیں سنا تو ہم بتا دیتے ہیں کہ بادشاہ سلامت ہاتھی پر سوارپورے لاؤلشکر کے ساتھ شکار کے لیے نکلتے۔سرکاری ہرکارے شیر یا ہر اُس جانور کوجس کا بادشاہ شکار کرنا چاہتا تھا‘ اُس کو تین اطراف سے گھیر کر اِس ترتیب سے شورشرابا کرتے کہ جانور کے لیے فرار کا صرف وہی راستہ بچتا جو جان بوجھ کر چھوڑا گیا ہوتا تھا۔ اپنی جان بچانے کیلئے جب جانور اُس خالی‘ لیکن موت کے راستے سے فرار ہونے کی کوشش کرتا تو سیدھا بادشاہ کے چنگل میں جا پھنستا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔اس وقت تو جیسے ہماری کیفیت بھی ویسی ہی ہوچکی ہے۔ہمیشہ جذباتیت کے دھارے پر بہنے والی ایسی قوم‘ جس نے عقل کو تو شاید بیچ ہی کھایا ہے۔دوسروں کو سدھارنے کے چکر میں ہم نے اپنے ہی بیڑے غرق کرلیے ہیں۔ہم نے سمجھ لیا ہے کہ جتنی بڑی بڑی باتیں کریں گے‘ اُتنی ہی ہماری اہمیت بڑھے گی۔ سو‘ اہمیت بڑھانے کیلئے اس سے بہترحربہ اور کون سا ہوسکتا ہے کہ بڑے لوگوں کے بارے میں گفتگو کی جائے‘ اُن کے بارے میں لکھا جائے۔
ہمیں چاہے کوئی نارووال کی بس پر سوار نہ ہونے دے‘ لیکن اُمور حکومت چلانے کیلئے وزیراعظم کو مشورے دینا فرض ِاولین سمجھا جاتا ہے۔نا صرف مشورے دینا فرض اولین گردانا جاتا ہے‘ بلکہ یہ خواہش بھی رکھی جاتی ہے کہ ہم نے جو کچھ کہا یا لکھا ہے ‘ اُس پر من وعن عمل بھی ہو۔ عقل حیران اور پریشان ہوجاتی ہے جب مشورے دینے والوں کے بیک گراؤنڈ پر نظر جاتی ہے ۔ ہر کسی کی رائے میں اُس کا اپنا اینگل جھلک رہا ہوتا ہے‘ جس میں سے غیرجانبدرای کو ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔ مجال ہے‘ جو بھانت بھانت کی بولیاں سن کر کوئی پختہ رائے قائم کی جاسکتی ہو۔یقین جانیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سیاست اور سیاسی رہنماؤں کی حرکات و سکنات ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔کسی کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے کوئی بغض ہے توسمجھ لیجئے کہ وزیراعلیٰ کے اچھے کام تقریباً خاک ہوئے۔ کسی کو وزیراعظم اچھے نہیں لگتے تو ایسے محسوس ہوتا ہے‘ جیسے ان سے برا شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ زرداری صاحب یا میاں نواز شریف سے کوئی اختلاف ہو تو گویا ان کی کسی اچھائی کا ذکر کرنا گناہ عظیم بن جاتا ہے۔یقین کیجئے کہ موجودہ حالات اور بحیثیت ِمجموعی اپنے قومی طرز عمل کو دیکھ کر شرمندگی سے محسوس ہوتی رہتی ہے۔ سنتے تو ہمیشہ سے یہی آئے ہیں کہ دوسروں کو برا کہنے سے بہتر ہے کہ خود کو سدھارنے کی کوشش کریں۔ وہ بابافرید جی نے کیا خوب بات کی ہے ۔ ؎
برے نوں میں لبن ٹریا تے برا ناں لبا کوئی
جد میں چاتی اپنے اندر پائی تے میرے توں برا نہ کوئی
الغرض ہرکوئی سیاستدانوں کو ہی مشورے دینے میں مصروف نظرآتا ہے کہ اُنہیں کیا کرنااور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ہماری سمجھ میں آج تک نہیں آسکا کہ آخر یہ سب لایعنی گفتگو سے حاصل کیا ہوتا ہے۔ سب اپنی اپنی بولی بولتے ہیں‘ وقت ختم ہوتا ہے اور سب اپنے اپنے گھر کی راہ لیتے ہیں‘ اللہ اللہ خیرصلا۔ نہ کچھ حاصل نہ کچھ وصول۔بس‘ ویلے مصروف۔کیا ہی اچھا ہو کہ اگر کچھ قوم کی تربیت کے بارے میں بھی سوچ لیا جائے‘ جسے آج تک سڑک تک سلیقے سے پار کرنا نہیں آئی ۔ گاڑی پارک کرنے کی تمیز تو شاید کسی نے سکھائی ہی نہیں۔ کیسے لوگ ہیں ہم کہ گھنٹوں بیٹھ کر تاش کھیلتے رہیں گے ‘ دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے رہیں گے‘ لیکن جیسے ہی سڑک پر نکلیں گے تو کوشش ہوگی کہ گاڑی یا موٹرسائیکل اُڑن کھٹولا بن جائے۔نہ کسی ٹریفک سگنل کی پروا ‘نہ کسی دوسرے قانون کی اہمیت۔ سنتے ہیں کہ سڑکوں کی صورت حال ‘ معاشروں کا احوال سناتی ہے‘ تو پھر خود ہی سمجھ لیجئے کہ ہمارے معاشرے کا کیا حال ہوگا؟ گاڑی میں بیٹھتے ہی موبائل فون کو کان سے لگانا فرض اولین سمجھا جاتا ہے ‘جس کے بعد نہ دائیں کی پروا‘ نہ بائیں کی۔اللہ ہی جانے کون سی ایسی ضروری باتیں ہوتی ہیں‘ جنہیں ایک آدھ گھنٹے کیلئے موقوف نہیں کیا جاسکتا ۔ یااللہ! یہ کیسا فیشن ہے‘ جس کے باعث متعدد جانیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔آج آبادی کے تناسب سے ‘ ٹریفک حادثات کے حوالے سے ہمارے ملک کا شمار دنیا کے بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے درمیان اپنی زندگیوں کو گنوا دینے کا مقابلہ ہورہا ہے۔ ہم نے اپنی ہی زندگیوں کو کتنا ارزاں کردیا ہے کہ جو ہرروز سڑکوں پر ختم ہوجاتی ہیں ‘لیکن ہم سدھرنے کیلئے تیار ہی نہیں ۔
اڑھائی ارب روپے کی لاگت سے لاہور کی کینال روڈ کو دھرم پورہ سے جلوموڑ تک وسیع اور کشادہ کردیا گیا ہے۔ ٹریفک اس سڑک سے رواں دواں ہے‘ لیکن پوری روڈ پر پیدل چلنے والوں کیلئے بمشکل صرف دو پُل تعمیر کیے جاسکے ہیں۔ دو کی تعمیر پائپ لائن میں تھی کہ تبدیلی سرکار کے باعث سب کچھ ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ اس وقت‘ لاہور میں ٹریفک حادثات کے حوالے سے یہ سب سے خطرناک سڑک بن چکی۔تعمیر کے بعد سے یہاں ہونے والے حادثات میں 37فیصد تک اضافہ ہوچکا۔ یہ صرف ایک مثال ہے‘ ورنہ تو پورے ملک میںہی سڑکیں قتل گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ پرانی گاڑیاں‘گھسے ٹائراور اناڑی ڈرائیور ملک کے ہرحصے میں موت بانٹتے پھر رہے ہیں ۔ حالات میں بہتری کیلئے حکومت کی طرف دیکھا جاتا ہے‘ لیکن جب حکومتی اہلکار خود ہی صورت حال کی خرابی میں ملوث ہوں تو؟ ہر کوئی ‘ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی میں سب ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی بھرپورکوشش کرتے نظرآتے ہیں۔ٹریفک پولیس کے وہی اہلکار جو شہریوں میں معلوماتی لٹریچر تقسیم کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ وہی سفارشی لائسنس بنوانے میں بھی مصروف نظرآتے ہیں۔ وہی صحافی ‘جو سڑکوں کی صورت حال پر ٹریفک پولیس کے لتے لیتے نہیں تھکتا‘ وہی اپنے کسی پکڑے جانے والوں کو چھڑوانے کے لیے فون گھماتا دکھائی دیتا ہے۔ کبھی غور کیجئے گا کہ ہماری خراب تر ہوتی حالت کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم جو کہتے ہیں ‘ وہ خود نہیں کرتے۔ بس ہماری کوشش ہے کہ ہم دوسروں کو سدھار لیں؛ حالانکہ اگر ہم سماج سدھار تحریک سے پہلے خود کو سدھارنے کی طرف توجہ دیں‘ تو یقین جانیے کہ ہمارے آدھے مسائل تو ویسے ہی حل ہوجائیں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں