"FBC" (space) message & send to 7575

سچائی کو معاف کردیں!

سچائی کے نام پر سچائی کی ایسی بے توقیری پہلے تو کبھی نہ دیکھی تھی‘ جیسی اب دیکھنے میں آرہی ہے۔ شاید اسی لیے یقین جیسی نعمت ‘تو جیسے ہمارے ہاں سے مکمل طور پر کنارہ کرچکی ۔ بات کرنے والے کو اپنی ہی بات کا یقین ‘نہ اسے سننے والا اعتماد کی دولت سے مالامال۔لکھنے والے کو بھی نہیںمعلوم کہ وہ کیا لکھ رہا ہے ۔بقول شاعر: ع
اِک دکھاوا رہ گیا بس دل سے وہ چاہت گئی
کوئی جانے تو کیا یہ صورت حال ایک دن میں پیدا ہوئی ہے؟ہرگز بھی نہیں کہ اتنا سب کچھ مختصر وقت میں کبھی نہیں ہوسکتا۔موجودہ صورتحال کی ابتدا تو خیر تقسیم ہند کے وقت ہی ہوگئی تھی‘ جب سرحد کے اُس پار پودینے کے باغات چھوڑ کر آنے والوں نے یہاں آموں کے باغات الاٹ کرالیے تھے‘جن کی زمین چارپائی سے پاؤں نیچے رکھتے ہی ختم ہوجاتی تھی۔ اُنہوں نے یہاں مربعے الاٹ کرالیے اور حقداروں کی اکثریت ہاتھ ملتی رہ گئی۔افراتفری کا وہ دور اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا ‘لیکن اس کے بارے میں سنا اور پڑھا بہت کچھ ہے۔کسی دورمیں بابو سے بابا جی تک کا سفر طے کرنے والے قدرت اللہ شہاب کا لکھا ''شہاب نامہ‘‘ بڑی رغبت سے پڑھا تھا۔ اس پڑھے میں سے بہت کچھ تو ذہن سے محوہوچکا ‘لیکن کتاب میںلکھی ایک داستان کبھی ذہن سے نہیں نکل سکی کہ سچائی بہرحال کسی نہ کسی طور اپنا وجود نا صرف برقرار رکھتی ہے‘ بلکہ اپنے ہونے کا احساس بھی دلاتی ہے۔
ذرا غور سے پڑھیے گا۔قدرت اللہ شہاب نے لکھا: ''قیام پاکستان کے بعد مجھے کچھ عرصے کیلئے صنعتوں کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا‘ جب ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اپنی جائیدادوں کے کلیمز داخل کررہے تھے۔ہم صرف ایک خاص رقم تک ہی کلیمز دینے کے مجاز تھے ‘ ایک روز ایک ایسا کلیم ہمارے پاس آیا‘ جو مخصوص رقم سے کم تھا‘ جس پر ہم نے کلیم داخل کرانے والے شخص کو بلایا تو ایک باریش شخص کمرے میں داخل ہوا۔ اُس کے جسم کو دیکھ کا بخوبی اندازہ ہورہا تھا کہ اُس نے تقسیم میں بہت سختیاں جھیلی ہیں‘ہم سب اُس کی مدد کرنا چاہتے تھے‘ لیکن کلیم کم رقم کا ہونے کے باعث یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہوپارہا تھا‘ ہم میں سے کسی نے اُنہیں کہا کہ وہ اپنے کلیم کی رقم میں تھوڑا سا اضافہ کردیں‘ اس پر وہ بابا جی بولے کے تمام عمر رزق حلال کمایا اور کھایا ہے تو آج کیسے بے ایمانی کے راستے پر قدم رکھ دوں‘ ہم جو آوازیں دن رات سن رہے تھے ‘ یہ آواز اُن سے بالکل الگ تھی ‘ تنہا تھی‘ ہم نے پھر بابا جی کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ آپ جو مشین وہاں چھوڑ کرآئے ہیں‘ اب اُس کی قیمت بڑھ چکی ہوگی۔ باباجی ہنس کر بولے کہ وقت کے ساتھ چیزوں کی قیمت گھٹتی ہے ‘بڑھتی نہیں اور یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلے گئے‘ لیکن ہمارا چین اور سکون بھی اپنے ساتھ ہی لے گئے...۔؎
اور ستم یہ کے میرا جی ہی نہیں
بدل گیا سب ہی کچھ اس دیار بودش میں
گواُس دور میں سنائی دینے والی یہ تنہا آوازآج بھی کبھی کبھار سنائی دیتی رہتی ہے‘ لیکن بحیثیت ِ قوم دیکھا جائے تو ایسی آوازیں بہت کمزور اور ناتواں ہوچکی ہیں۔بس ‘ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ایسی دوڑ شروع ہے‘ جس میں اخلاقیات کو سرے سے ہی نظراندا زکردیا گیا ہے۔رنگ بازی ہے کہ اس فن میں جو یکتا ہوا ‘گویا اُس کی ترقی کی راہیں اچھی خاصی ہموار ہوگئیں اور جو اس فن سے ناآشنا رہا‘ وہ دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا۔ رنگ بازی کے یہ سلسلے ایسے تسلسل سے دیکھنے میں آتے رہتے ہیں کہ گویا معمول کی بات بن چکی ہو۔ اپنی ایک بوٹی کیلئے دوسرے کا اونٹ حلال کردینا‘ عین جائز سمجھا جاتا ہے ۔ یہ وہ روایت ہے‘ جو عوامی سطح پر بھی اپنے پنجے پوری مضبوطی سے گاڑ چکی ہے۔ اپنی روزمرہ کی زندگی کا جائزہ ہمیں بہت اچھی طرح اس کا احساس دلاتا ہے کہ ہم کیا کررہے ہیں‘ اگر ہم خود احتسابی کیلئے تیار ہوں تو ۔ حکومتی سطح پر بھی یہ طرزِ عمل ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ نظروں کے سامنے رہنے کیلئے ہی تو ہمارے وزیران و مشیران آئے روز کوئی نہ کوئی نیا کٹا کھولتے رہتے ہیں۔ایسے بلند بانگ دعوے کہ جن کی بنیاد ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ہرکوئی سچ قوم کے سامنے پیش کرنے کیلئے مرا جارہا ہے۔اُس سچائی کی تلاش‘ جسے ہم اپنے ہاتھوں سے دفن کرتے جارہے ہیں۔ سچ کی بنیاد صرف اور صرف ایک ہے کہ جو میں ہوں ‘ وہ میں ہوں کہ میرے جیسا کوئی دوسرا ہے‘ نہ ہوگا۔قابلیت کا ایک ہی پیمانہ باقی رہ گیا ہے کہ جانے والوں کو خوب برا بھلا کہو اور خود کو پارسا او ر قابل ترین شخص ثابت کرو۔ آج یہی چلن چل رہا ہے۔ اس حوالے سے تو ہمارے کچھ وزرا کا بہت ڈنکا بج رہا ہے۔ اس میں وزیرریلوے سرفہرست دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے ادارے کے اجلاس کی صدارت کرنے کیلئے لاہور آتے ہیں تو ایک ٹکٹ میں دومزے لینے کیلئے پریس کانفرنس بھی رکھ لیتے ہیں ۔ جب بھی وہ پریس کانفرنس کرتے ہیں تو بنیاد دوباتوں پر ہوتی ہے؛ نمبر ایک‘ریلوے کا محکمہ بہت خسارے میں جارہا تھا‘ جسے میں نے منافع بخش بنا دیا۔ سابق وزیرریلوے نے ادارے کا ستیا ناس کردیا تھا ۔ ریل کا پہیہ جام ہوچکا تھا ‘جسے میں نے رواں کردیا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔اب یہ الگ بات کہ پرانی بوگیوں کے ساتھ ہی نئی ٹرینیں چلانے کے دعوے کیے جارہے ہیں؛حالانکہ عید پر ٹرینوں کا شیڈول‘ جس طرح سے شدید متاثر رہا وہ الگ ہی کہانی سنا رہا ہے۔نمبر دو‘ شریف خاندان چور ہے۔ انہوں نے ملک کی دولت لوٹی ‘ زرداری چور ہے‘ جس نے ملک کی دولت لوٹی ‘اب اسے اس کے انجام سے کوئی نہیں بچا سکتا‘ وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی بھی کافی اِن ہیں ۔چاند کی تلاش میں انہوں نے جو معرکہ سر کیا ہے‘ اُس نے حکومت کو ہی تقسیم کرکے رکھ دیا۔ ملک میں دوعیدوں کا مسئلہ تو 1950ء سے ہی چلا آرہا‘ لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ کے پی کے کی حکومت اپنی ہی وفاقی حکومت کے خلاف ڈٹ گئی۔وہ شوروغوغا برپا ہوا ‘جو آج سے پہلے شاید ہی کبھی سننے میں آیا ہو۔ سچ تو معلوم نہیں کیا ہے‘ لیکن نیا کٹا ضرور کھل گیا ہے۔اب معلوم نہیں یہ کب تک کھلا رہے گا۔ اپوزیشن کی طرف سے بھی اپنے سچا ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہتا ہے۔سچ کیا اور جھوٹ کیا ۔ کچھ پلے نہیں پڑتا۔ جان رکھیے کہ سچائی کی نمائش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ اپنے ہونے کا احساس خود دلاتی ہے۔ اس کا وجود کبھی ختم ہوا‘ نہ ہوگا ‘لیکن ہم سب نے مل کر اسے بے توقیر کرنے کا جو طریق اپنا رکھا ہے ‘ اُسے ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ دیکھیے تو کیاعالم ہوچکا کہ اب ریڑھی بان سے لے کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز احباب بھی جھوٹ ایسے دھڑے سے بولتے ہیں کہ گویا سننے اور دیکھنے والے اندھے‘ گونگے اور بہرے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ کون کیا کررہا ہے۔ کس کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جارہی ہیں۔ کون کس کی ڈگڈی پر ناچ رہا ہے۔ جب کوئی کسی دوسرے کے خلاف بات کررہا ہوتا ہے‘ تو اُس کے پیچھے اُس کا کیا مفاد چھپا ہوتا ہے ۔ہم نے اپنے پاؤں پر تو کلہاڑی مار ہی لی ہے‘ تو کیا ضرور ی ہے کہ سچائی کے نام پر اپنی آنے والی نسلوں کو بھی جھوٹ اور خود فریبی کا راستہ دکھائیں ۔
سنے گا شاید کوئی نہیں ‘لیکن زنجیر ہلاتے رہنا چاہیے ۔عرض صرف اتنی سی ہے کہ خدارا‘ جس طرح سچائی کا قتل عام ہورہا ہے‘ اس صورت میں بہتری لانے کی کوشش کیجئے ‘ ایسا نہ ہو کہ ہمارا رہا سہا بھرم بھی ٹوٹ جائے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں