"FBC" (space) message & send to 7575

محمدمرسی ‘ قید ِحیات سے رہائی پا گئے

پنجرے میں قید ہوکر‘ پیشیاں بھگتتے بھگتتے بالآخر مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی قید حیات سے رہائی پا گئے۔ گو‘2013ء سے وہ سابق ہوچکے تھے‘ لیکن بہرحال عوامی تائیدو حمایت سے برسراقتدار آنے کا اعزاز تو ہمیشہ اُن کے پاس ہی رہے گا۔یہ عالم اسلام کی وہی کہانی ہے‘ جو دہائیوں سے دہرائی جارہی ہے‘ کبھی ایران کے ڈاکٹر مصدق کی صورت میں‘ توکبھی ترکی کے عدنان میندرس کے روپ میں ۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو کون فراموش کرسکتا ہے؟ ایسی کہانیوں کا پلاٹ لکھا تو کہیں اور جاتا ہے‘ لیکن انہیں عملی جامہ پہنانے والے اپنے ہی ہوتے ہیں۔گویا عالم اسلام کے دکھوں کی داستانوں کا تسلسل ہے ‘جو بہرطور کسی نہ کسی صورت برقرار ہے۔
جس سال مصرکے محمد مرسی کا تختہ اُلٹا گیا تھا‘ اُسی سال امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ‘ دہائیوں پہلے ایران کے منتخب وزیراعظم ڈاکٹر مصدق کے خلاف لکھی جانے والی سازش کی تفصیلات جاری کی تھیں۔ان میں واضح طور پر اعتراف کیا گیا تھا کہ سی آئی اے نے برطانوی خفیہ ایجنسی کی درخواست پرڈاکٹر مصدق کا تختہ اُلٹنے کی کارروائی کی‘ جس کے بعد انہیں تاحیات اپنے ہی گھر میں نظربند کردیا گیا‘اسی نظربندی کے دوران 1967ء میں ڈاکٹرمصدق انتقال کرگئے اور جمہوریت کے علمبرداروں کے راستے کی بڑی رکاوٹ دُور ہوگئی ۔ بظاہر قصور ان کا یہ تھا کہ اُنہوں نے ایران میں تیل نکالنے والی برطانوی کمپنی کا محاسبہ کرنے کی کوشش کی تھی۔مدتوں سے تیل نکالنے کی ذمہ دار کمپنی ‘نکالے جانے والے تیل کا صرف بیس فیصد حصہ ایران کو دینے کو پابند تھی۔ ڈاکٹر مصدق کو معلوم ہوا کہ دئیے جانے والے بیس فیصد حصے میں بھی بے ایمانی کی جارہی ہے‘ جس پر اُنہوں نے تیل کی صنعت قومیانے کا اعلان کردیا۔ایسا کرنے سے پہلے ‘وہ ایران میں غیرملکی کمپنیوں کے اثرورسوخ کا اندازہ کرنے میں ناکام رہے ۔ اپنی مقبولیت کے زعم میں وہ یہ اقدام اُٹھا تو بیٹھے‘ لیکن اسی کی پاداش میں اُنہیں پہلے اقتدار اور اُس کے بعد زندگی سے محروم کردیا گیا۔اس کامغربی قوتوں کو ایک اور بہت بڑا فائدہ ہوا کہ ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی مطلق العنان حکمران بن گئے‘ جو پہلے صرف آئینی حیثیت کے حامل تھے۔اس کے بعدوہ 26سال تک ایران کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ کہیں پر کوئی داد تھی نہ فریاد۔ وہ کون سا ظلم ہوگا‘ جو ایران کے بادشاہ نے اپنی ہی عوام پر نہیں توڑا تھا‘ لیکن جمہوریت کے علمبرداروںکے ہونٹوں پر لگی چپ کی مہر نہ ٹوٹ سکی۔ بالآخر ایرانی عوام نے1979ء میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب برپا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ یہ الگ بحث کہ اس انقلاب کو دوسری انتہا بھی قرار دیا جاسکتا ہے؛اگر پہلے بادشاہ رضا شاہ پہلوی مطلق العنان تھے‘ تو اس انقلاب کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی تمام اختیارات کے حامل ٹھہرے؛ اگر ایران کے عوام شاہ کے دور میں مطلق العنانیت کو جھیلتے رہے‘ تو انقلاب کے بعد بھی حالات میں زیادہ تبدیلی نہ آسکی۔ 
ایران کے ڈاکٹرمصدق کے خلاف رچائے جانے والے ڈرامے کی جھلکیاں ‘ ترکی کے گلی کوچوں میںبھی نظرآتی ہیں۔22مئی 1950ء سے 27مئی1960ء تک ترکی کے وزیراعظم رہنے والے عدنان میندرس اپنے ملک کے مقبول ترین رہنما تھے۔اپنے دوراقتدار کے دوران اُنہوں نے ملک میں ایسا صنعتی انقلاب برپا کیا ‘جس کی مثال اُس کے بعد ترکی میں کبھی نہ دیکھی جاسکی۔ اُنہوں نے کمال اتا ترک کے دور میں بند کی جانے والی مساجد کو کھولا‘ اذان پر لگائی جانے والی پابندی کو ختم کیا ۔اُن کے دور میں ترکی کی سالانہ شرح نمو 9فیصد تک جا پہنچی تھی۔ شاید بات حد سے بڑھ رہی تھی کہ اب ترکی کو ہاتھوں سے نکلتے ہوئے دیکھنابڑی قوتوں کیلئے ممکن نہیں رہا تھا۔ سو‘ پہلے عدنان میندرس کوطیارہ حادثے میں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی ‘لیکن بات نہ بن سکی۔ اس کے بعد فوج کی مدد سے اُن کا تختہ اُلٹ دیا گیا ‘جس کے بعد اُنہیں پھانسی دے کر قصہ ہی ختم کردیا گیا۔ 
یہی کہانی اس کے بعد پاکستان میں بھی دہرائی گئی‘ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹ کر اُنہیں بھی پھانسی چڑھا دیا گیا۔سہارا تو عدالتی احکامات کا لیا گیا‘ لیکن اُن کی پھانسی کا عدالتی حکم آج بھی متنازعہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ کہنے والوں کا تو صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ گردنیں دو تھیں اور پھندہ ایک تھا۔ سو‘ جس کے ہاتھ میں طاقت تھی‘ اُس نے پھندہ دوسرے کی گردن میں فٹ کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹائے جانے سے پہلے ملک میں پورے زوروشور سے حکومت مخالف تحریک چلائی گئی۔ اس تحریک کے پس پردہ کون تھا؟ یہ بات بھی اب کوئی راز نہیں رہی اور پھر تختہ عین اُس وقت اُلٹا گیا جب سیاسی قوتیں ایک معاہدے کے قریب پہنچ چکی تھیں۔ عین ممکن تھا کہ چند گھنٹوں کے اندر اندر سیاسی قوتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کا باضابطہ اعلان کردیا جاتا ؛ اگر ایسا ہوتا تو شاید تمام منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جاتا ۔ اس سے بچنے کیلئے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اورملک پرایک مرتبہ پھر طویل عرصے کیلئے ڈکٹیٹرشپ نے اپنے پنجے گاڑھ لیے۔ اس کے بعد ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا‘ آج بھی ملک اُس کا خمیازہ بھگت رہا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو دور ِحکومت میں اُٹھائے جانے والے متعدد اقدامات سے بے چینی پیدا ہوئی تھی اور بہت سے تحفظات بھی پائے جاتے تھے ۔ حکومت کے بے شمار فیصلوں کو عوام کی طرف سے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا‘ لیکن بزعم خویش عوام کے ہردلعزیز رہنما کو اس کا ادراک تب ہوا‘ جب اُن کے گرد گھیرا مکمل کیا جاچکا تھا ۔ انہیں گھیرے میں لانے والوں نے بھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہ کی کہ جمہوری ادوار میں پیدا ہونے والے مسائل کو اگر ڈکٹیٹرشپ لا کر حل کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر نتائج وہی نکلتے ہیں جو نکلے۔ آئین کو ایسا چوں چوں کا مربع بنا دیا گیا کہ اس کی کوئی کل ہی سیدھی نہ رہ گئی؛اگر آپ اسلام چاہتے ہیں تو پھرمیں پانچ سال کیلئے آپ کا صدر ہوں‘ جیسا کھیل بھی کھیلا گیا۔جمہوریت کی خرابیوں سے بچاتے بچاتے ملک کو گرداب میں دھکیل دیا گیا‘ جس کے اثرات آج بھی ہمارے معاشرے میں کسی نہ کسی طور موجود ہیں۔
یہی سب کچھ اب مصرکے محمد مرسی کے ساتھ ہوا ہے ۔حسنی مبارک کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد محمد مرسی مصر کو ملک کے پہلے منتخب صدر کے طور پر اقتدار سنبھالنے کا اعزاز حاصل ہوا۔انہیںبمشکل ایک سال تک ہی برداشت کیا گیا اور 2013ء میں فوج نے انہیں اقتدار سے الگ کرکے قید میں ڈال دیا۔ صدر پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے حامیوں کو دوصحافیوں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو قتل کرنے پر اُکسایا۔ دوسال تک مقدے کی سماعت ہوئی اور 2015ء میں محمد مرسی کو اُن کے دیگر ساتھیوں سمیت بیس سال قید کی سزا سنا دی گئی۔اُن سے غلطی یہ ہوئی کہ اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی انہوں نے بنیاد پرست سمجھی جانے والی اخوان المسلمین کو کافی آزادی دی۔ اُن کی طرف سے نیا آئین تشکیل دینے کے حکم کو بھی تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا ‘جس کے نافذ ہونے کے بعد صدر کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا‘اسی افراتفری میں ہنگاموں کا سلسلہ بھی چلتا رہا‘ جس دوران 50سے زائد افراد مارے گئے اور ملک کے غیریقینی حالات مزید سنگین ہوگئے ۔ بالآخرملک میں آئین معطل کرکے محمد مرسی کو اقتدار سے الگ کردیا گیا۔یہ سچ ہے کہ وہ ملک کے پہلے منتخب صدر تھے ‘لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کے اقتدار میں آنے کے صرف ایک سال کے اندر اندر ہی عوامی سطح پر اُن کے خلاف مزاحمت پیدا ہوچکی تھی۔اپنے اقتدار میں آنے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر اپنی قوم سے خطاب کے دوران اُنہوں نے تسلیم کیا کہ اُن سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں ‘جنہیں درست کرنے کا وقت آگیا ہے۔شاید اب غلطیوں کا اعتراف کرنے کا وقت محمد مرسی کیلئے بھی گزر چکا تھا‘کیونکہ یہ وہی وقت تھا‘ جب اُن کے خلاف مصر کی سڑکوں پر لاکھوں افراد موجود تھے۔ یوں بھی یہ کیسے ممکن تھا کہ اسرائیل کے طاقتور ہمسائے کا صدر کوئی اسلام پسند شخص ہو۔
سو ‘ فوج نے اُن کا تختہ اُلٹا کر اُنہیں قید میں ڈال دیا‘ جو اب زندگی کی قید سے ہی آزاد ہوگئے ہیں۔وہ حالات‘ وہی کہانی اور عملدرآمد پر عمل کا وہی طریقہ کار جو دہائیوں سے دیکھنے میں آرہا ہے اور شاید ابھی مزید کافی عرصے تک چلے گا۔اس میں‘ اگر قصور دوسروں کا ہے‘ تو کہیں نہ کہیں غلطیوں سے مبرا ہم بھی نہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں