"FBC" (space) message & send to 7575

اناپ شناپ سوچیں!

تعصبات ہوتے ہیں‘ پسند ناپسند کا عنصر بھی ہرجگہ دکھائی دیتاہے‘ لیکن معاملات تب بگڑنا شروع ہوتے ہیں‘ جب تعصبات گہرے اور پسند نا پسند کا عنصر مضبوط ہوجاتاہے۔ اعتماد کی جگہ بد اعتمادی لینا شروع ہوجاتی ہے۔کاروبارِ حکومت ہو یا کاروبار زندگی‘انہیں چلانے کے دوران‘ اگر یہ عناصر گھر کرلیں تو صورتحال ویسی ہی ہوجاتی ہے ‘جو اس وقت پنجاب اور سندھ میں نظرآرہی ہے یا پھر ہمارے روزمرہ کے اُمور ِزندگی میں۔ سندھ میں اس وقت سہ جہتی لڑائی چل رہی ہے؛ تلخیاں پوری طرح سے اپنے پنجے گاڑ چکیں۔وفاقی وزیرقانون کی طرف سے صوبے میں آرٹیکل 149کے نفاذ کی بات ہوئی تو طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ اب‘ وزیرموصوف کہتے تو ہیں کہ اُنہوں نے صرف آرٹیکل 149کے نفاذ کی بات کی تھی‘ جس کے تحت وفاقی حکومت صوبے میں کام کرنے کے احکامات دے سکتی ہے۔اُن کی وضاحتیں بھلا کون سنے؟کون ان پر کان دھرے کہ اس پر سندھ سے ابھی تک ردعمل سامنے آرہا ہے۔جواباً وفاق کو یاد دہانی کروائی گئی کہ آرٹیکل 149کے نفاذ کی باتیں کرنے سے بہتر ہے کہ صوبے کیلئے اعلان کردہ 162ارب روپے کے پیکیج کی ادائیگی کردی جائے‘ تاکہ مسائل سے نمٹا جاسکے۔ احتجاج میں صوبے کی قوم پرست جماعتوں کا موقف بھی صوبے کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی سے الگ نہیں ۔ شدید ردعمل سامنے آیا تو غبارے سے کسی قدر ہوا نکل گئی۔ سو‘ محسوس ہوتا ہے سندھ کو ٹیک اوور کرنے کیلئے جاری کوششیں فی الحال ایک مرتبہ پھر ناکامی سے دوچار ہوگئی ہیں ۔ ایک جنگ بلدیاتی اداروں اور صوبائی حکومت کے درمیان جاری و ساری ہے ۔ الزامات کا طومار ہے ‘جو ایک دوسرے پر باندھا جارہا ہے۔ ایک تیسری لڑائی ماضی کی بڑی جماعت کے مختلف دھڑوں کے درمیان چل رہی ہے۔ نتیجتاً کراچی کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ان حالا ت میں ملک کے سب سے بڑے شہر کے مسائل جلد حل ہونے کی توقع رکھنا بھی عبث ہے۔ کوئی کیوں کر توقع رکھ سکتا ہے کہ موجودہ حالا ت میں پانی کی قلت‘ گندگی کی بھرمار اور مکھیوں‘ مچھروں کی فراوانی سے برق رفتاری سے نمٹا جاسکتا ہے۔ یوں بھی بیان بازی او ر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے عمل میں تیزی آجائے تو بقا کی جنگ شروع ہوجاتی ہے ‘جس میں دوسرے بھول جاتے ہیں۔بس ‘اتنا یاد رہتا ہے کہ خود کو کیسے بچانا ہے ‘ وہ بھی اس صورت میں کہ جب احتساب کی تلوار مسلسل سر پر لٹک رہی ہو۔ حکومت چھن گئی تو بچنا بچانا مزید مشکل ہوجائے گا۔سو‘ ان حالات میں سندھ حکومت اپنے بچاؤ کیلئے آخری حد تک جائے گی۔اب ‘پیپلز پارٹی اپنی بقا کی جنگ جیتنے کا جتن کرے یا شہریوں کے مسائل حل کرئے؟ یہی صورتحال میئر کراچی کو درپیش ہے ۔جب سب اپنی اپنی جنگ لڑ رہے ہیں ‘تو ایسی اناپ شناپ سوچ توذہن میں آئے گی ہی کہ کراچی کے شہریوں کیلئے خود کو انہی حالات میں زندہ رہنے کا عادی بنالینا زیادہ بہتر ہوگا۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے مسائل ویسے تو نہیں‘ جیسے سندھ کے ہیں‘ لیکن یہاں شہریوں سے زیادہ بے چینی خود حکومت میں نظرآرہی ہے۔ گزشتہ چند روز تو اس مارا ماری میں گزرے کہ دلوں میں دبی ہی بہت سی خواہشیں زبان پر آگئیں۔ صوبائی کابینہ میں یکے بعد دیگرے تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں تو سیاسی افواہیں بھی عروج پر پہنچ گئیں۔ عون چودھری اور شہباز گل کی یکے بعد دیگرے اپنے عہدوں سے سبکدوشی کے بعد یہاں تک کہا گیا کہ شاید وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی ناکامیوں کو اپنے وزراکے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔یہ دونوں شخصیات منظرنامے سے آؤٹ ہوئیں تو ملک اسد کھوکھر اور آصف محمود کی انٹری بھی ہوئی‘ لیکن اس دوران خود وزیراعلیٰ عمرے کی ادائیگی کیلئے ملک سے باہر تھے۔ اُن کا پروگرام تو پہلے سے طے تھا ‘لیکن اس کے باعث کنفیوژن ضرور پیدا ہوئی۔ اُن باتوں کو بھی تقویت ملی کہ شاید یہ اعلیٰ سطح پر تبدیلی کے عمل کا بھی آغاز ہے۔ وہ تبدیلی‘ جس کی ایک عرصے سے باتیں ہورہی ہیں۔ ایک طرف یہ باتیں زور پکڑتی ہیں‘ تو دوسری طرف سردارعثمان بزدار کیلئے وزیراعظم کی حمایت ان باتوں کا اثر زائل کردیتی ہے‘لیکن ان باتوں کا اتنے تواتر سے اُٹھنا بہرحال سوالات کو تو جنم دیتا ہی ہے۔ خصوصاً گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران تو ان باتوں میں قابل ذکر حد تک شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔کچھ واقفان ِحال تو یہاں تک دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک کے اہم ترین صوبے کے وزیراعلیٰ کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سب کچھ کیا جارہا ہے۔ یہ میری نہیں ‘ ایسی باتیں کرنے والوں کی اناپ شناپ سوچ ہے کہ شاید کچھ طاقتور حلقے اُنہیں مزید اس منصب پر فائز نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس کی مناسب وجوہ بھی پیش کی جاتی ہیں کہ وہ صوبے میں معاملات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں‘ جن توقعات کے ساتھ اُنہیں اس عہدے پر لایا گیا تھا‘ وہ پوری نہیں ہوپارہیں۔ بیوروکریسی کے معاملات بہتر ہورہے ہیں‘ نہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا کوئی اتا پتا مل رہا ہے۔کثیر لاگتی اورنج لائن ٹرین منصوبہ بھی شیطان کی آنت بن چکا‘ جس کے جلدمکمل ہونے کی فی الحال بھی کوئی اُمید نظر نہیں آرہی ہے۔پولیس گردی کے مسلسل بڑھتے ہوئے واقعات عوام کو حکومت سے مزید برگشتہ کررہے ہیں ۔ تسلیم کہ اپنی ذات کی حد تک وزیراعلیٰ بہت سی خصوصیات کے حامل ہیں۔ اُن سے جب کبھی بھی ملاقات کا موقع ملا تو ہمیشہ اُنہیں تحمل سے بات کرتے ہوئے دیکھا۔ کرپشن کے الزامات سے بھی مکمل طور پر پاک ہیں‘ لیکن یقینا حکمرانی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں‘ جنہیں پورا کرنا ہی ہوتا ہے۔ جب وہ پورے نہیں ہوتے تو اناپ شناپ سوچ ذہن میں آتی ہے کہ کہیں چل چلاؤ کا وقت تو نہیں آگیا؟
کسی بھی سطح پر حالات میں بہتری رونما ہوتی دکھائی دے تو اناپ شناپ سوچیں خود ہی دم توڑ جاتی ہیں‘ لیکن کیا کیا جائے کہ یہ مضبوط تر ہوئی جاتی ہیں۔کیا کیا جائے کہ ہمیشہ تصویر کا روشن رخ دیکھنے کا عادی ہونے کے باوجود تاریک رخ ہی آنکھوں کے سامنے رہنے لگا ہے۔ حکومتی سطح سے ہٹ کر عوامی سطح پر بھی ہمارا کوئی حال باقی نہیں رہ گیا‘ شاید حکومتی سطح پر ہر وقت برپا رہنے والی بے چینی کا اثر نیچے تک سرایت کرچکا‘جس طرح حکومتی سطح پر حصول اقتدار کیلئے ‘ حصول اختیارات کیلئے ہروقت چھینا جھپٹی کا عمل جاری رہتا ہے‘ اُسے نچلی سطح تک اپنا لیا گیا ہے۔ دوسروں کے گریبانوں میں جھانکنے کی کیا کوشش کرنی‘ اپنے اپنے گریبان میں ہی جھانک لیں ‘تو حالات کا بڑی حد تک ادراک ہوجائے گا۔صبح سے شام تک صرف جھوٹ ہی جھوٹ‘ صبح سے شام تک بے ایمانی ہی بے ایمانی۔ دوسروں کی حق تلفی اور اپنی اپنی بساط کے مطابق بدعنوانی۔ بحیثیت ِقوم یہی چلن رہ گیا ہے ہمارا۔ کچھ اور نہ کرسکیں تو ٹریفک سگنلز توڑ کر ہی فخر محسوس کرتے ہیں ۔ کچھ اور نہ کرسکیں تو اپنے سے کمزوروں کی ڈانٹ ڈپٹ کرکے خود کو خوشی فراہم کرنے کا سامنا کرلیتے ہیں۔ یقین جانیے اس طرزِ عمل سے میں مبرا ہوں نہ کوئی دوسرا ‘ اگر کچھ لوگ مبرا ہیں تو اُن کی تعداد بہت کم ہوگی ‘ جس طرح حکومتیں ہروقت بہتری کے دعوے کرتی رہتی ہی‘ بالکل اُس طرح نچلی سطح پر ہم سب دعوے تو اپنے بہترین ہونے کے ہی کرتے ہیں‘ لیکن عملی طور پر ہم اخلاقیات کی نچلی ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ہم پستی کی طرف جاتے ہی جارہے ہیں۔ 
اناپ شناپ سوچ ذہن میں آتی ہے کہ اب ہمارا یہ سفر رکنے والا تو دکھائی نہیں دیتا؟ آجاکے ہمارے پاس سات آٹھ سو سال پہلے کے مسلمانوں کی ترقی کے تذکرے ہی رہ گئے ہیں۔اُنہیں کا تذکرہ کرتے ہیں اور دل بہلاتے ہیں۔اُس دور کی باتیں سنتے ہیں اور شاد ہوتے ہیں‘ لیکن عملاً ہم ‘ہماری پوری قوت کے ساتھ سائنسی تحقیق اور آزاد سوچ کے درمیان کھڑے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں