"FBC" (space) message & send to 7575

آپ کو باعزت بری کیا جاتا ہے

کہر اور دھوپ کے کتنے ہی موسم بیت چکے‘ لیکن کمزوری محتاج ہے اور ہمیشہ محتاج ہی رہے گی‘ جب تک کہ اہل عزم و ہمت کمزوروں کی حمایت میں اُٹھ کھڑے نہ ہوں۔ پوری قوت اور پوری ہمت کے ساتھ‘ صرف بیان بازی کی حد تک نہیں‘ ورنہ مصالحت سے تو ہمیشہ سے ہی کام لیا جاتا رہا ہے۔کون نہیں جانتا کہ بنیاد‘ اگر کھوکھلی ہوجائے ‘تو پھر کچھ باقی نہیں بچتا‘ پوری کی پوری عمارت دھڑام سے نیچے آگرتی ہے۔ افسوس کہ ہماری بنیادیں بھی کمزور ہوچکیں اور کمزور بھی مزید کمزور ہوچکے۔
ماہ اگست کے دوران صلاح الدین نامی ایک شخص کی اے ٹی ایم مشین توڑتے ہوئے ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ ویڈیومیں صلاح الدین عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہوا بھی دکھائی دے رہاتھا۔ ویڈیو وائرل ہونے کے کچھ روز بعد صلاح الدین ‘ رحیم یار خان پولیس کے ہتھے چڑھ گیا ۔ اُس سے پوچھ گچھ ہوئی اور اسی پوچھ گچھ کی تاب نہ لاتے ہوئے ‘ صلاح الدین پولیس حراست میں جاں بحق ہوگیا۔ پورے ملک میں غلغلہ مچ گیا کہ پولیس نے ایک ذہنی مریض کو بھی نہ بخشا۔ابتدائی طور پر پولیس کی طرف سے بتایا گیا کہ صلاح الدین دل کا دورہ پڑنے کے باعث جاں بحق ہوا۔ فرانزک رپورٹ نے کچھ اور ہی حقائق پیش کیے۔رپورٹ سے عیاں ہوا کہ نوجوان کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اُس کے دائیں بازو کے اوپر اور پیٹ پر تشدد کے نشانات پائے گئے۔اُس کے جسم میں خون کے جمے ہوئے لوتھڑے بھی پائے گئے تھے ۔ صاف ہو گیا کہ صلاح الدین کی موت طبعی نہیں تھی۔ اندازہ لگائیے پوسٹ مارٹم اور فرانزک رپورٹ سامنے آنے سے پہلے خودآر پی او بہاولپو ر نا صرف پولیس تشدد کی نفی کرتے رہے ‘بلکہ معاملے کو دبانے کے لیے اپنا اثرورسوخ بھی استعمال کرتے رہے تھے۔ جب رپورٹس سے سب کچھ صاف ہوگیا ‘تو حسب ِروایت عوامی سطح پر شدید رد عمل دیکھنے میں آیا تو حسب دستورحکومتی سطح پر بھی ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچانے کا عزم سامنے آیا۔35سالہ اس نوجوان کے لیے ہمدردی کی لہر میں مزید شدت آئی‘ جب پولیس حراست سے اُس کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ۔ ویڈیو میں وہ پولیس اہلکاروں سے سوال کرتا ہوا دکھائی اور سنائی دیتا ہے کہ اگر تم لوگ مجھے مارو گے نہیں تو کیا میں ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟ تم لوگوں نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے۔شور مچا تو متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او‘ ایک اے ایس آئی اور تفتیشی افسر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا‘پھر وہی ہوا ‘جو ایسے تمام معاملات میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ 
ایک ایسے ملک میںجہاں ہرروز ایک نیا تماشا لگا ہوتا ہے‘ وہاں کس کے پاس اتنی فرصت کہ وہ ایک ہی معاملے پر اپنی توجہ مرکوز رکھ سکے ۔سو ‘یہ واقعہ بھی پرانا ہونے لگا؛البتہ ایک توقع ضرور تھی کہ اس مرتبہ ریاست مدینہ کا بہت تذکرہ سننے میں آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس معاملے کا وہ انجام نہ ہو‘ جو اس سے پہلے ایسے واقعات کا دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ توقع تھی کہ اس تشدد میں ملوث پولیس اہلکار ‘ بہادر بچے راؤ انوار کی طرح بچ نہیں پائیں گے ۔وہ بہادر بچہ‘ جس کی تیز رفتار ترقی نے سب کو حیران کررکھا تھا۔ وہ بہادر بچہ‘ جس نے پولیس مقابلوں کے ذریعے بے شمار سماج دشمن عناصر کو اُن کے انجام تک پہنچایا تھا ۔ اپنے کندھوں پر سٹارز کی تعداد کو تیزی سے بڑھایا تھا ۔ وہ تو پولیس مقابلے میں نقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد جو پورے ملک میں شور مچا‘ حقائق جاننے کی سعی کی گئی تو معلوم ہوا کہ موصوف کے بیشتر پولیس مقابلے جعلی تھے۔ نقیب اللہ کو بھی جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا‘ اگر ذہنوں سے محو نہ ہوا ہو تو ذرا یاد کرنے کی کوشش کیجئے کہ نقیب اللہ قتل کیس پر پورے ملک میں کس قدر ہاہا کار مچی تھی۔ اعلیٰ ترین سطح سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں‘ لیکن افسوس کہ انصاف کی یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اس مرتبہ اُمید تھی کہ صلاح الدین ہلاکت کیس کو مثال بنا دیا جائے گا۔ وجہ اِس اُمید کی یہ تھی کہ ہمیشہ یہی سنا اور پڑھا ہے کہ ریاست مدینہ میں تو یہی اصول ہوتا تھا کہ جان کے بدلے جان‘ آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان۔ایک روشنی سی دکھائی دے رہی تھی کہ اِس کیس کو ضرور مثال بنایا جائے گا ۔ یہ الگ بحث کہ صلاح الدین چور تھا یا اُس نے کیا کیا تھا ‘لیکن اتنا ضرور تھا کہ بہرحال وہ ایسی موت کا حقدار نہیں تھا۔ وہ بھی ایسے افراد کے ہاتھوں جو لوگوں کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ جو قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہیں۔موجودہ حکومت تو یوں بھی قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ کمزوروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملانے کا دعوی کرتی ہے۔ معاشرے کے کمزور طبقات کا ہاتھ بٹانے کا دعوی کرتی ہے۔ اُن کو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کے لیے ہلکان ہوئی جاتی ہے۔ اُس سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی اُمید نہ لگانا بھلا کیوں کر مناسب عمل گردانا جاسکتا تھا۔ 
کہیں نہ کہیں سے ایسی آوازیں ضرور اُٹھ رہیں تھیں کہ حکومت اِس معاملے میں بھی کچھ نہیں کرپائے گی۔ یہ معاملہ بھی ویسے ہی حل کرلیا جائے گا ‘جیسے ساہیوال میں ایک خاندان کے متعدد افراد کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے معاملے کو حل کیا گیا تھا۔ خیر ہماری قومی نفسیات کے حساب سے تو وہ معاملہ بہت ہی پرانا ہوچکا ہے‘ لیکن پھر بھی یاد دلائے دیتے ہیں۔ موجودہ سال کے ابتدائی مہینے کے دوران ہی پیش آنے والے اس واقعے میں چار افراد مارے گئے اور 3بچے زخمی ہوئے تھے۔ پہلے پہل کوشش تو پوری رہی کہ اس بات کو ثابت کردیا جائے کہ مرنے والے دہشت گرد تھے۔ پھر موقف اختیار کیا گیا کہ نہیں اِن میں سے ذیشان نامی ایک شخص کا تعلق داعش سے تھا۔ یہ بھی الگ بحث کہ ذیشان کا کوئی کریمنل ریکارڈ آج تک سامنے نہیں آسکا۔ یاد تو کیجئے کہ اِس معاملے پر بھی ہم سب کتنے جذباتی ہوئے تھے۔ لاہور کے جنرل ہسپتال کے عقب میں واقعہ ایک بستی کے یہ مکین شادی میں شرکت کے لیے بورے والا جارہے تھے۔ ساہیوال کے قریب اِن کی گاڑی کو روکا گیا‘ گاڑی کے رکتے ہی فائر کھول دیا گیا اور چار افراد مارے گئے۔ یہ تک سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی تھی کہ گاڑی میں دہشت گردوں کے ساتھ بچے کیا کررہے تھے؟پھر اِس معاملے میں بھی وہی ہوا کہ کچھ تو وقت کی گرد نے بہت کچھ چھپا لیا اور کچھ صلح اور دیت کی کوششوں نے رنگ دکھایااور سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ معافی تلافی مل گئی۔ سوچا کہ تب تو حکومت نئی نئی برسراقتدار آئی ہے ‘شاید اِس لیے اُس نے بھی مصلحت سے کام لیا ہے۔ صلاح الدین والا واقعہ سامنے آیا تو انصاف کی اُمید اِس لیے بھی زیادہ تھی کہ حکومت نے اپنے قدم جما لیے تھے‘لیکن اِس معاملے کا انجام بھی روایات سے ہٹ کر نہ ہوسکا۔
17اکتوبر کو صلاح الدین کے والد نے گوجرانوالہ کے قریب واقع اپنے گاؤں گورالی کی مسجد سے اعلان کیا کہ اُنہوں نے اپنے بیٹے پر تشدد کے ذمہ دارن کو اللہ کی خاطر معاف کردیا ہے۔ یہ اعلان بھی ہوا کہ گورالی میں سوئی گیس کی فراہمی‘ سکول کی تعمیر اور رابطہ سڑک بنائی جائے گی؛ اگرچہ یہ بھی واضح کردیا گیا تھا کہ اِن اقدامات کا معافی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ بھی شاید اتفاق سے ہی ہوا تھا کہ ایک مرحلے پر صلاح الدین کے والدکی طرف سے ہائر کیے جانے والے وکیل نے بھی مقدمے کی پیروی کرنے سے انکار کردیا تھا۔اُن کی طرف سے قرار دیا گیا تھا کہ اُنہوں نے ایسا اِس لیے کیا ہے کہ کیس سیاسی بنتا جارہا ہے۔اتفاقا ًجس عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا‘ وہ بھی آج تک نہیں بن سکا۔بائی چانس کیس کو رحیم یار خان سے لاہور منتقل کرنے کے اعلان پر بھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔ اتنے سارے اتفاقات کے بعد اللہ کی خاطر معافی دینا تو بنتا ہی تھا ۔سو‘ صلاح الدین کے والد نے بھی یہی کیا۔امر واقعہ تو یہ بھی کہ ایسے کسی بھی معاملے میں جب تک جرم قبول نہ کرلیا جائے‘ تب تک معافی کیسے ہوسکتی ہے؟جرم تسلیم کیے جانے کے بعد ہی معافی ‘ دیت یا سزا کا مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔
صلاح الدین ہلاکت کیس میں ملوث پولیس اہلکار اِس حوالے سے خوش قسمت رہے کہ اُنہیں اِن تمام مراحل سے گزرے بغیر ہی مقدمے سے باعزت رہائی مل گئی ہے۔شاید‘ اِس وجہ سے بھی کہ کمزوری محتاج ہے اور ہمیشہ محتاج ہی رہے گی‘ جب تک کہ اہل عزم و ہمت کمزوروں کی حمایت میں تن کر کھڑے نہ ہوجائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں