"FBC" (space) message & send to 7575

یہ جو لاہور سے محبت ہے

''یہ جو لاہور سے محبت ہے‘‘ جان لیجئے کہ کسی اور سے محبت ہرگز نہیں‘ یہ لاہور سے ہی محبت ہے۔ یہ اُس شہر سے محبت ہے ‘جو دنیا کا 15واں بڑا شہرہے ۔یہ اُس شہر سے محبت ہے ‘جوبزرگوں کی سرزمین ہے۔ جسے حضرت علی بن عثمان المعروف داتا گنج بخش کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا‘ جسے حضرت میاں میر نے رونق بخشی‘ جس کی مٹی کو پیر عنایت شاہ قادری کو اپنے اندر سمونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ اُس شہر سے محبت ہے ‘جو قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے‘ جس کے ایک محلے مولیاں سے 29سو سال پرانے نوادرات بھی برآمد ہوچکے ہیں ‘جہاں ایک روایت کے مطابق ‘کبھی مہاتما بدھ نے بھی قیام کیا تھا‘جس کی سرزمین پر آج بھی کم ازکم تاریخ کے 460نقوش موجود ہیں‘ جس کی ہواؤں میں مستی ‘ جس کی فضاوں میں چاشنی ہے۔اسی چاشنی نے تو ملکہ نورجہاں کو بھی بے خود کردیا تھا۔؎
لاہور رابجان برابرخریدہ ایم 
جان دار ایم و جنت دیگر خریدہ ایم 
شہر لاہورادب دوستی میں بھی درجہ کمال پر۔اُستادوں کے اُستاد حضرت علامہ اقبال ‘ حفیظ جالندھری ‘ فیض احمد فیض اور کن کن ہستیوں کا نام لیا جائے‘ جنہوں نے اس شہر کی فضاوں کو ہمیشہ ادب کی خوشبو سے مہکائے رکھا‘جو آج بھی مہک رہی ہے۔بے شک اِس شہر نے ہمیشہ اک عالم کو اپنے اندرسموئے رکھا ہے۔ لاہور سے محبت کا ایک اعتراف عالمی ادارے یونیسکو کی طرف سے بھی سامنے آیا ہے‘ جس نے لاہور کو تخلیقی اور ادب دوست شہروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ایک ایسا شہر جس نے ہمیشہ ادب کی آبیاری کی‘ ایک ایسا شہر جس نے ہمیشہ تخلیق کاروں کے لیے اپنے بازو وا رکھے۔کسی بھی شہر کی اس فہرست میں شمولیت کے لیے وہاں کی تاریخ اور وہاں تخلیق ہونے والے ادب کو بنیاد بنایا جاتا ہے ۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ عالمی ادارے کو لاہور کے بارے میں یہ خیال اتنی تاخیر سے کیوں آیا ؟ اب جو یہ خیال آیا ہے تو یونیسکو کی مرتب کردہ ادب دوست شہروں کی فہرست میں لاہور کا نام بھی جگمگا رہا ہے۔یونیسکو کے اس اعتراف کی بابت پڑھتے پڑھتے اِس شہر سے جڑی کتنی ہی یادیں تازہ ہوگئیں۔ اِس شہر میں آنکھ کھولنے کے بعد سے اِس کے بارے میں اتنا کچھ سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ اب توہم جیسے اِس شہر کا اٹوٹ انگ بن چکے ہوں۔ کہاوتوں میں اِس کا ذکر‘ گیتوں میں اِس کا ذکر۔
دال دس کھاں شہر لاہور اندر کنے بوہے تے کینیاں باریاں نیں
نالے دس کھاں ‘ ایتھوں دیاں کھوئیاں کینیاں مٹھیاں تے کینیاںکھاریں نیں
ذراسوچ کے دیوں جواب مینوں‘ ایتھوں دیاں اٹاں کینیاں ٹوٹیاں تے کینیاں ساریاں نیں
طویل عرصہ گزرتا ہے‘ جب پہلی مرتبہ بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ سریندر کور کی آواز میں یہ گیت سنا تھا۔ایک تو لاہور سے عشق اور دوسراگیت کے بول بھی ایسے تجسس بھرے تھے کہ سنتے ہی دل میں گھر کرگئے۔ تجسس پیدا ہوا کہ سنتے ہیں اب اِن سوالات کے کیا جوابات آتے ہیں۔ جواب آیا۔
دال دساں میں شہر لاہور اندر ‘ لکھاں بوہے تے لکھاں ای باریاں نیں
جنہاں کھوئیاں تو بھرن معشوق پانی‘ اوہی او میٹھیاں تے باقی کھاریاں نیں
جنہاں اِٹاں تے دھر گئے پیر عاشق‘ اوہی ٹوٹیاں تے باقی ساریاں نیں
یادوں کی پرتیں ہیں کہ خود سے کھلتی جارہی ہیں۔ گورنمنٹ ہائی سکول باغبانپورہ میں حاصل کی گئی میٹرک تک تعلیم‘اسی اسکول میں ڈرائنگ کے اُستاد ریاض حسین صاحب اور پی ٹی ماسٹر کمال حسین صاحب سے متعدد بار مار بھی کھائی‘ لیکن مار کے بعد دگنی محبت کا لطف بھی اُٹھایا‘ پھر وہ ایف سی کالج سے ماسٹرڈگری حاصل کرنا۔ ایف سی کالج میں گزرا ہوا زمانہ ہماری زندگی کا سنہری ترین دور ہے۔ پہلے میڈیم پروین شوکت صاحبہ اور پھر میڈیم خدیجہ ضیا صاحبہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ رہیں۔ دونو ں ہی کیا شاندار شخصیت رکھتی تھیں۔ میڈیم پروین شوکت ہمیشہ ساڑھی پہنا کرتی تھیں‘ جس کے ساتھ کبھی کبھار جوڑے میں پھول بھی لگایا کرتی تھیں۔بہت ہی نرم آواز میں گفتگو کرتیں اور ہمیشہ پیار سے سمجھاتیں۔ اُن کے جانے کے بعد میڈیم خدیجہ ضیا ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ بنیں تو وہ پیار سے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ پر یقین رکھتی تھیں۔ اس بات کا لحاظ کم ہی کرتی تھیں کہ جب بچے اپنے قد کے برابر آجائیں تو پھر اُن پر زیادہ سختی نہیں کرنی چاہیے‘ لیکن محنتی شاگردوں کی بہت قدر کرتی تھیں۔
اب اپنے منہ میاں مٹھو کیا بننا کہ ایک مرتبہ ہمارا گروپ اُن کو بتائے بغیر ہی مری کے دورے پر نکل کھڑا ہوا۔ اگلے روز اُن کو معلوم ہوا تو کہنے لگیں ‘ اچھا جب وہ لوگ واپس آجائیں گے تو میں بھی کلاس لینے آجاؤں گی۔ واپسی پر جو کچھ ہوا ‘ وہ ایک الگ داستان ہے۔ طلعت فیصل آبادی تمام ملبہ مجھ پر ڈال رہا تھا تو میں اِسے یونس عزیز کی شرارت قرار دے رہا تھا۔ ناصر رفیق اپنی جان بچاتا پھر رہا تھا تو اظہر اپنی مخصوص ٹون میں سب کو تسلی دے رہا تھا۔ او چھڈو کجھ نئیں ہوندا‘ فکر نہ کرو تہاڈا بھرا سب سنبھال لے گا۔
کیا شاندار دور تھا ۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد کافی عرصے کے بعد دل کیا کہ چلو ایف سی کالج کا چکر لگاتے ہیں۔ کچھ یادیں تازہ کرتے ہیں۔یقین جانیے کہ جب ڈیپارٹمنٹ تک پہنچے تو پھر اندر داخل ہونے کی ہمت ہی نہ ہوسکی۔وہیں باہر ایک بینچ پر بیٹھ کر ماضی کو یاد کرتا رہا۔ عارف والا سے آیا ہوا محمد ریاض اور پھر راشد بٹ۔ وہ ایک محمد علی بھی تو ہوا کرتا تھا‘ اور پھر بھیگی آنکھوں کے ساتھ وہاں سے اُٹھ گیا۔؎ 
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
اس شہر سے جڑی یادوں میں ہربنس پورہ پل کبھی نہیں بھول پائے گا۔آج تو لاہور کے عین بیچوں بیچ سے گزرنے والی نہر پر بنے ہربنس پورہ پل کی شکل و صورت ہی تبدیل ہوچکی ہے۔ یہاں رنگ روڈ کا انٹرچینج بن چکا‘ لیکن ہمارے بچپن میں صورت حال یکسر مختلف ہوا کرتی تھی۔کینال روڈ پر فتح گڑھ سے آگے کچی سڑک شروع ہوجاتی تھی اور اِسی سڑک پر چل کر ہم شوٹنگ دیکھنے کے لیے ہربنس پورہ پل پر جایا کرتے تھے‘ تاہم گزشتہ 20برسوں نے تو اب اِس شہر کی حالت ہی تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔ہر طرف ہاوسنگ سکیمیں اور اِن میں بھرے ہوئے انسان ہی انسان۔باغوں کے شہر سے تبدیل ہوکریہ کنکریٹ کا جنگل ہی بن چکا ہے۔ کھیت کھلیان دیکھنے کو من مچلے تو کم از کم بارہ چودہ کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد ہی خواہش کی تکمیل ہوپاتی ہے۔
اب یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ جب ہم اپنے دیہاتوں میں رہنے والوں کو سہولیات فراہم نہیں کریں گے تو وہ بڑے شہروں کا رخ ہی کریں گے۔دوسرے شہروں کے ساتھ ساتھ یہی کچھ لاہور کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔اِس سب کے باوجود یہ بھی اِس شہر کی خصوصیت ہی گردانی جائے گی کہ بے شمار تبدیلیوں کے باوجود اِس نے ایک ادب دوست اور تخلیقی شہر ہونے کی اپنی صلاحیت کو برقرار رکھا ہے۔
بلاشبہ یونیسکو نے اِس کا برملا اعتراف کرکے ایک ایسا فریضہ انجام دیا ہے‘ جو بہت پہلے انجام دیا جانا چاہیے تھا ۔ اِس لیے کہ میرا شہر ہرحوالے سے بے مثل ہے۔ اسی لیے تو'' یہ جو لاہور سے محبت ہے‘‘ کسی اور سے نہیں‘ لاہور سے ہی محبت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں