"FBC" (space) message & send to 7575

قسمت

کیا المیہ ہے کہ ہمارے سمیت بیشتر مسلم ممالک ہروقت سلگتے ہی رہتے ہیں۔کبھی کبھار جوش آتا ہے تو ہلکی آنچ جوالامکھی میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔اس کے نتیجے میں کبھی آمر اقتدار میں آجاتے ہیں‘ تو کبھی اس کانتیجہ حکومت مخالف تحریکوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بہتری کی اُمید پر نقصان بھی اُٹھایا جاتا ہے‘ لیکن حالات جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔ 2011ء میں جنم لینے والی عرب بہار کو گزرے زیادہ عرصہ تو نہیں گزرا ۔ اس دوران لاکھوں مظاہرین بہتری کی اُمید میں سڑکوں پر آکر مظاہرے کرتے رہے‘ جس کے حکومتوں کی تبدیلی کی حد تک نتائج برآمد بھی ہوئے۔ تیونس سے شروع ہونے والی اس تحریک کی وجہ سے پہلے تو تیونس میں ہی حکومتی سطح پر تبدیلی آئی ۔ اُس کے بعد مصر سمیت چار ممالک میں حکومتوں کا تختہ اُلٹا گیا۔اس کے کافی عرصے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عرب بہار کے دوران مختلف ممالک کو 614ارب ڈالر کا مالی نقصان بھی اُٹھانا پڑا تھا۔ لیبیا ‘ شام اور یمن بدترین خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگئے ۔ دہائیوں سے لیبیا میں آمریت کے سرخیل معمرقذافی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ وہ معمرقذافی ‘جس کی مرضی کے بغیر لیبیا میں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا تھا‘ ایک بڑے پائپ میں چھپا ہوا پکڑا گیا‘جس کی تصاویر کا عالمی سطح پر بھی بہت چرچا ہوا تھا۔ انورالسادات کے بعد مصر میں عنان ِاقتدار سنبھالنے والے حسنی مبارک کے بارے میں کون گمان کرسکتا تھا کہ اُس کے جیتے جی اُس کے سر سے اقتدار کا ہما اُڑ سکتا ہے‘ اُسے بھی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے‘ جس کے بعد مصر میں ایک الگ ہی کہانی دہرائی گئی۔ افسوس کہ جس تبدیلی کے لیے مصری عوام نے قربانیاں دیں‘ اُس کا آج بھی دور دور تک کوئی نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔ شام میں تو ابھی تک خانہ جنگی کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ خوب صورت لوگوں کا قدیم ملک شام اب ملبے کا ڈھیر بنا پڑا ہے۔ یہاں پر ظلم و ستم کی کیسی کیسی داستانیں رقم نہیں ہوئیں ۔ 
مجال ہے‘ ان واقعات سے کسی نے کوئی سبق سیکھا ہو‘ اگر سیکھا ہوتا تو آج ایران‘ لبنان اور عراق میں حالات 2011ء کی نہج پر پہنچے ہوئے نہ دکھائی دیتے۔ ان ممالک میں جاری مظاہروں کے باعث اب تک لبنان اور عراق کے صدور مستعفی ہونے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ یہاں حکومت مخالف مظاہرے تو ہورہے ہیں‘ لیکن بغیر کسی قیادت کے‘خصوصا عراق میں تو کچھ معلوم نہیں ہورہا کہ مظاہرین کی قیادت کون کررہا ہے۔ بس ہر صبح کو مظاہرین سڑکوں پر آجاتے ہیں اور حکومت کیخلاف اپنے غم وغصے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ مسلم اکثریتی ملک لبنان توصورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ لوگوں کی بنیادی اشیائے ضروریہ تک رسائی بھی مشکل ہوگئی ہے۔ پٹرول نہ ملنے کے باعث اکثر اوقات شہری اپنی گاڑیاں راستے میں ہی چھوڑ کر منزل کی راہ لیتے ہیں۔غصے سے بھرے مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ رشوت کا خاتمہ کیا جائے ‘ اُنہیں اُن کے حقوق دئیے جائیں اور بدعنوان اشرافیہ کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ لبنان کے حوالے سے ایک اختلاف ضرور کیا جاسکتا ہے کہ مسلم اکثریتی ملک ہونے کے باوجود یہاں اقتدار اور دولت پر زیادہ تر مسیحیوں کا کنٹرول ہے۔ اس پر اتفاق بھی کیا جاسکتا ہے کہ ان سب نے مل کر ہی مشرق وسطی کا سوئٹزرلینڈ کہلانے والے ملک کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے۔ لبنانی عوام کو گلہ ہے کہ اُن کی معاشی مشکلات کی سب سے بڑی وجہ بدعنوانیاں ہیں‘ یہی حالات عراق میں بھی نظر آرہے ہیں۔ امریکی حملے کے نتیجے میں عراق کو آمر صدام حسین سے تو نجات مل گئی‘ لیکن یہ بدعنوانیوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔عراقی حکومت کو تو دنیا کی بدعنوان ترین حکومت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوچکا ۔ پانی سر سے گزرجانے کے بعد عوام سڑکوں پر آئے ہیں تو دوسری طرف سے طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے۔ نتیجتاً اب‘ عراق کے مختلف شہروں کی گلیوں میں عراقیوں کی جابجا بکھری ہوئی لاشیں دکھائی دیتی ہیں ۔ادھر ایران‘ البتہ حکومت مخالف مظاہروں کو دبانے میں کامیاب رہا ہے۔ 
چاہے 2011کی عرب بہار ہو یا ایران‘ عراق اور لبنان میں جاری حالیہ مظاہروں کی بات ہو‘ سب میں قدر مشترک ایک ہی دکھائی دیتی ہے‘ بدعنوانیاں‘ رشوت ستانی‘ اشرافیہ کی طرف سے اختیارات سے تجاوزات اور عوام کی اُن کے حقوق سے محرومی۔بدقسمتی سے ہم بھی اس صورت حال سے مبرا نہیں‘ لیکن خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں حالات ابھی تک پرتشدد سطح تک تو نہیں پہنچے‘ لیکن ایسے امکانات کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا‘ جہاں صرف ایک سال کے دوران مہنگائی میں اضافے کا تناسب 11.37فیصد تک پہنچ جائے‘ بنیادی اشیائے ضروریہ بھی عوام کی رسائی سے دُور ہوتی جارہی ہوں‘ تمام تر دعووں کے باوجود رشوت کا بھوت ہر جگہ پر ناچ رہا ہو‘ بدعنوانی کا عفریت نیچے سے اوپر تک پوری طرح سے اپنے پنجے گاڑھ چکا ہو‘ انصاف نامی چڑیا کہیں دُورمنہ چھپا کر بیٹھ چکی ہو‘ بات بات پر جھوٹ بولنے کو وتیرہ بنا لیاجائے‘ نچلی سطح سے لے کر اوپر تک ہرکوئی قانون کو اپنے گھر کی باندی سمجھے‘ جہاں پولیس مقابلوں میں بے گناہوں کو اُن کی زندگیوں سے محروم کردیا جائے‘ تو پھر کیوں کر حالات پرتشدد سطح تک پہنچ جانے کے امکانات کو رد کیا جاسکتا ہے۔ شاید انتظار بھی اسی بات کا کیا جارہا ہے کہ کچھ زیادہ ہی برا ہو تو تب ہی بہتری کی طرف قدم بڑھانے کی کوئی سنجیدہ کاوش کی جائے۔
افسوس تو اس بات پر بھی ہے کہ یہ سب کچھ نچلی ترین سطح پر بھی نظرآتا ہے‘ جو ایک وقت میں فرشتہ دکھائی دے رہا ہوتا ہے‘ پردہ اُٹھتا ہے تو اندر سے کچھ اور ہی برآمد ہوتا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس پر یقین کیا جائے اور کس پر نہیں۔بس ‘ایک بے ڈھنگا سا چلن ہے ‘جس پر ہم سب چلتے چلے جارہے ہیں اور وہ بھی سچ اور ایمانداری کے نام پر۔ تمام اعشایے ثابت کرتے ہیں کہ ہم رشوت ستانی اور بدعنوانی میں یکتا ہیں۔ قانونی شکنی ہماری گٹھی میں پڑی ہے ‘لیکن ایماندار اور سچے کہلانے جانے کا شوق بہت ہے۔ 
کیسی کیسی خواہشات ہیں کہ ہم جھوٹ بھی بولتے رہیں اور ہماری ایمانداری والی باتوں پر یقین بھی کیا جائے۔ سب کے سب ایک دوسرے کو سچائی کا سبق گھول گھول کر پلانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ ٹی وی اسکرینوں پر اخلاق کے بڑے بڑے بھاشن دینے والوں کواپنے سے کمزوروں کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حکومتوں کی رہنمائی کرنے والوں کو خود راستے سے بھٹکا ہوا دیکھا ہے۔ ایسا نہیں کہ اگر یہ سب کچھ لکھا جارہا ہے اور لکھنے والا بہت پاک ‘ صاف ہے تو ایسا مت سمجھا جائے‘ جس کی جتنی بساط ہوتی ہے ‘وہ دونمبری کرنے سے باز نہیں آتا۔ بلاشبہ سب کو اس صف میں نہیں رکھا جاسکتا‘ لیکن اکثریت کو اس سے باہر بھی نہیں نکالا جاسکتا۔ میرے سمیت کوئی تو اپنے آپ سے پوچھے کہ اگرحقیقتاً ہمیں رب کائنات کا خوف اور ڈر لاحق ہو تو ہم یہ سب حرکتیں کریں؟کون نہیں جانتا کہ حقوق العباد کی ہمارے مذہب میں کیا اہمیت ہے۔ کیااس کے باوجود ہم دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے میں پیش پیش نہیں رہتے؟معلوم نہیں کس بوتے پر ہم ببانگ دہل یہ سب کچھ کرتے ہیں اور پھر ڈرنے کا ناٹک بھی کرتے ہیں۔یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ ہمیں دودھ میں نہایا ہوا سمجھا جائے۔ یہ شاید ہماری قسمت میں ہی لکھ دیا گیا ہے کہ نہ ہمارے اندر سے دولت اور اقتدار کی خواہش ختم ہونی ہے اور نہ ہمیں سیدھا راستہ ملنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں