"FBC" (space) message & send to 7575

مغل دربار میں!

دوچار بار نہیں‘ بلکہ درجنوں مرتبہ لاہور کے شاہی قلعے کا چپہ چپہ چھان چکا ہوں۔اس کے باوجود جب بھی یہاں سے واپسی ہوتی ہے تو کچھ مزید وقت گزارنے کی تشنگی ساتھ ہی واپس آتی ہے۔ کچھ روز پہلے والڈ سٹی لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹر کنزرویشن نجم الثاقب کا علی الصبح فون آیا۔ اپنے انداز گفتگو کے عین مطابق‘ تیز تیز حال احوال پوچھنے کے بعد اصل خبر سنائی‘ بول؛ ‘ میاں اتنے دن ہوگئے آپ آئے نہیں؟لگتا ہے کہ اب شاہی قلعے آنے کو جی نہیں چاہتا ۔ خوب جانتا تھا کہ وہ یہ بات مذاق میں کررہے ہیں‘ ورنہ اُنہیں لاہور سے میری محبت کا بخوبی اندازہ ہے۔ پوچھا جناب آپ کا فون آنا بلاوجہ تو ہو نہیں سکتا ‘ جو اصل بات ہے‘ وہ بتائیے۔ قہقہہ لگا کر جواب دیا کہ میاں عالم پناہ جلال الدین محمد اکبر کے شاہی حمام سے ملحقہ کچھ نئی تعمیرات سامنے آئی ہیں ‘ دیکھنے آجاؤ۔
اُن کا اتنا ہی بتانا کافی تھا کہ پھر پہلی فرصت میں ہی وہاں جاپہنچا۔ وہی ماحول ‘ شاہی قلعے کی وہی کشش ‘ سب کچھ ویسے کا ویسے ہی تھا۔ بس‘ ایک تو اس کے دیوان ِعام کے نیچے پوشیدہ تہہ خانہ سامنے آیا تھا اور دوسرے اکبری حمام سے ملحقہ رقبے کی کھدائی کے دوران تاریخ کے کچھ مزید آثار سامنے آئے تھے۔ وہیں پر آغا خان فاؤنڈیشن سے منسلک فرانسیسی ماہرآثار قدیمہ سٹیفن پریڈینز سے بھی ملاقات ہوئی۔ گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا تو بتانے لگے کہ وہ دنیا کے بے شمار ممالک میں واقع شاہی محلات میں اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں‘ لیکن اتنا بہت کچھ ایک جگہ پر شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔نجم الثاقب نے لقمہ دیا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر ہمیں جلال الدین محمد اکبر کے بعد جہانگیر‘ شاہ جہاں‘ اورنگ زیب اور اس کے بعد سکھ اور انگریز ادوار کی تعمیرات ملتی ہیں۔ اِن سب جانے والوں نے یہاں پر کچھ نہ کچھ حصہ ڈالا ہے‘ لیکن جو کچھ مغل کرگئے ‘ وہ تو بس اُنہی کا خاصا تھا۔بات مزید آگے بڑھاتے ہوئے بتانے لگے کی مغلوں کی تعمیرکردہ کسی بھی پوشیدہ عمارت کا صرف ایک حصہ سامنے آنے کی دیر ہوتی ہے‘ اُس کے بعد باقی پرتیں تو خود بخود ہی کھلتی چلی جاتی ہیں۔اس کی وجہ اُنہوں نے یہ بتائی کہ مغلوں کی ہرعمارت جیومیٹری کے باریک اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کی جاتی تھی۔ 
دوران گفتگو تخیلات کا سلسلہ بھی دراز ہوتا چلا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے مغلوں کو کیا حسن ذوق بخشا تھا۔اتنی شاندار تعمیرات اِس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ تخلیقی صلاحیتوں‘ کیمسٹری ‘ فزکس اور جیومیٹری جیسے علوم سے مکمل آگاہی رکھتے تھے‘ پھر اُن کی تعمیرات کو کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہرگز نہیں کہ وہ معاشی طور پر بھی انتہائی مضبوط تھے۔ اس حوالے سے جلال الدین محمد اکبر سے لے کر اورنگ زیب عالمگیر کے مغل دور کو مثالی قرار دیا جاسکتا ہے۔ فوجی لحاظ سے بھی اُن کا کوئی مقابلہ نہیں تھا ۔ 1686ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اورنگ زیب عالمگیر کو للکارنے کی کوشش کی تھی‘ جس کے نتیجے میں اُنہیں مغل دربار میں ناک رگڑ کر معافی مانگنا پڑی تھی۔ چشم تصور سے اس واقعہ کا مختصر سا پس منظر یوں ہے کہ تب کے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہ جوزایا چائڈ کے دماغ میں سمائی کہ کیوں نہ بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں مغل بحری جہازوں کا راستہ کاٹ دیا جائے اور جو جہاز ہاتھ لگے ‘ اُسے لوٹ لیا جائے۔ یہ تب کی بات ہے جب پوری دنیا کی کل جی ڈی پی میں ہندوستان 25فیصد کا حصہ دار تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب مغل سلطنت ڈھاکہ سے لے کر کابل تک ‘ 40لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی ۔ طبل جنگ بجا تو مغل امیر البحر سیدی یاقوت نے اپنی فوج کے ہمراہ ممبئی میں انگریز فوج کو گھیرے میں لے لیا۔ بالآخر اپنی جان چھڑانے کے لیے ابرام نوار اور ویلڈن اپنے بندھے ہاتھوں اور نیچی نظروں کے ساتھ اورنگ زیب کے سامنے پیش ہوئے ۔دونوں کو بادشاہ کے سامنے پیٹ کے بل لیٹنے کا حکم ہوا اور پھر اِسی حالت میں وہ معافی کے خواستگار ہوئے۔ آئندہ فرماں برداری کے وعدے‘ ڈیڑھ لاکھ روپے تاوان اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہ کی ملک بدری کے عوض معافی ملی۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ اگر اس موقع پر اورنگ زیب انگریزوں کو معافی دینے کی بجائے اُنہیں ہندوستان سے نکال باہر کرتے تو آج خطے کی تاریخ ہی کچھ اور ہوتی‘ پھر انہیں انگریزوں نے مغل اقتدار کا خاتمہ کیااور آخری مغل بادشاہ کو تدفین کے لیے کوئے یار میں دوگز جگہ بھی نصیب نہ ہوسکی۔ 1862ء میں جب اس تارک وطن نے میانمار(تب برما)کے دارالحکومت رنگون میں آخری سانس لی ‘تو تب اُس کے سرہانے بس نصف درجن اہل خانہ ہی موجود تھے۔ 
تخیلات کا سلسلہ مزید دراز ہوتا ‘لیکن سٹیفن اور نجم الثاقب کی گفتگو واپس شاہی قلعے میں لے آئی۔ دونوں کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ اُنہیں یہاں سے مزید بہت کچھ ملنے کی قوی اُمید ہے۔دونوں نئی تعمیرات کے حوالے سے کچھ تکنیکی سی گفتگو کررہے تھے ‘جس سے اکتاہٹ محسوس کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر چشم تصور کا سہارا لیا۔ کچھ کچھ ایسی باتیں بھی یاد آنے لگیں کہ ایک طرف اگر ہندوستان میں تاج محل بن رہا تھا تو دوسری طرف برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جارہی تھی ۔ فروغ علم کی بجائے مغل عمارتیں تعمیر کرکے ذاتی تشہیر میں لگے رہے وغیرہ وغیرہ‘باتیں یاد تو آئیں ‘لیکن ان میں سے بہت سی باتوں کا جواب نہ مل سکا ۔ آیا تاج محل جیسی تعمیر کسی یونیورسٹی یا اس سے بھی زیادہ سطح کا علم رکھے بغیر ممکن تھی؟ تب اسے تعمیر کرنے والوں نے کیوں کر یہ سوچا کہ اگر اس کی نوے فٹ گہری بنیادوں میں کئی فٹ تک ریت ڈال دی جائے تو یہ زلزلے سے محفوظ رہے گا۔معلوم نہیں کسی علم کے بغیر اُنہیں معلوم ہوگیا تھا کہ ویل فاؤنڈیشن بھی کسی چڑیا کا نام ہوتا ہے۔ اس تکنیک سے کام لیتے ہوئے اُنہوں نے دریا ئے جمنا کے اندر بھی تاج محل کی بنیادیں کھود کر اُنہیں مصالحے اور پتھروں سے بھر دیا تھا ۔ یہ ایسی تکنیک ہے‘ جس نے دنیائے عالم کے اس عجوبے کو ہمیشہ کے لیے دریا کے نقصانات سے محفوظ کردیا ہے۔انگریزوں نے اس تکنیک کے استعمال کا آغاز اُنیسویں صدی میں شروع کیا تھا۔ علم کو فروغ نہ دئیے جیسی باتوں پر ہی ایک مرتبہ کسی نے بتایا تھا کہ ان کا بہترین جواب وِل ڈیورانٹ کی کتاب سٹوری آف سویلائزیشن سے بخوبی مل سکتا ہے۔
مطالعہ سے معلوم ہوا کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے پورے برصغیر میں لاکھوں کی تعداد میں سکول اور مدرسے تھے‘ جہاں تعینات اساتذہ کو حکومت تنخواہ دیا کرتی تھی۔ اس سے بھی حیران کن بات یہ سامنے آئی کہ جب انگریزوں نے ملک چھوڑا تو تب ان تعلیمی اداروں میں سے بیشتر کھنڈرات کی صورت اختیار کرچکے تھے۔ بلاشبہ جب کسی ملک کو معاشی طور پر کنگال کردیا جائے تو اُس کے اثرات ہرشعبے پر ہی پڑتے ہیں۔ نجم صاحب کے ہلانے سے پھر زمین پر واپسی ہوگئی‘ لیکن اس سوچ کے ساتھ کہ کیوں ہم بلاوجہ کسی کو اُس کی واجب تعریف سے محروم رکھتے ہیں ۔ بلاشبہ اس بات سے اختلاف ہرگز ممکن نہیں کہ تب وہ سب کچھ بھی ہوتا تھا جو بادشاہت کا خاصا ہوتا ہے۔ کسی کی کیا مجال تھی کہ کوئی بادشاہ کے سامنے کھل کر سانس بھی لے سکے۔ رعایا کو ہرحالت میں اپنے بادشاہ کو حکم ماننا ہوتا تھا۔ حصول اقتدار کیلئے بھائیوں نے بھائیوں کا خون بہایا تو بیٹوں نے اپنے والدین تک کو حوالہ زنداں بھی کیا۔مطلق العنان بادشاہت کے کس دور میں یہ کس جگہ نہیں ہوا؟ ویسے بھی آج اگر جمہوریت ہے تو کون سی ہم نے دودھ شہد کی نہریں بہا دی ہیں۔ انصاف تب بھی حکمرانوں کے درباروں کی لونڈی ہوا کرتا تھا ہمارے ہاں بھی امرا ہی اس سے مستفید ہوپاتے ہیں۔ غریبوں کیلئے تب بھی جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوا کرتا تھا‘ آج بھی صورت حال میں زیادہ بہتری نہیں آئی۔ معاشی شعبے میں بھی ہم نے کون سے تیر چلا لیے ہیں؟ اقتدار میں آنے کیلئے تب بھی طاقت اور جھوٹ کا استعمال کیا جاتا تھا‘ آج بھی یہی سب کچھ ہوتا ہے تو پھر تبدیل کیا ہوا؟تب بھی بڑھ چڑھ کر طاقتوروں کی تعریف کی جاتی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں