"FBC" (space) message & send to 7575

ملکی حالات کا عکاس ادارہ

1849ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک ایکٹ منظور کیا ‘ جس کے تحت برصغیر میں ریلوے کا نظام قائم کرنے کی بات کی گئی۔اسی ایکٹ کے تحت ‘ آسان الفاظ میں کہہ لیں کہ عظیم جزیرہ نما ہند ریلوے کے نام سے کمپنی وجود میں آگئی۔ 50ہزار پاؤنڈ کے شراکتی سرمایے سے قائم ہونے والی کمپنی نے ‘ ایسٹ انڈیا کمپنی سے معاہدہ کیا اور ریلوے لائن کی تعمیر شروع کردی گئی۔ 16اپریل 1853ء کو برصغیر میں پہلی مسافر گاڑی تب کے بمبئی بوربند رسٹیشن سے روانہ ہوکر تھانے کے سٹیشن تک پہنچی۔ اکیس میل کے اس سفر میں مجموعی طور پر ستاون منٹ لگے اور یوں برصغیر میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ دُور دیس سے آئے ہوئے گوروں نے موجودہ پاکستان میں ریل کا آغازتیرہ مئی 1861ء کو کیا‘جب کراچی سے کوٹری تک 169کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ اس کے بعد لاہور سے لے کر ملتان تک ریلوے لائن کو ٹرینوں کے لیے کھول دیا گیا اور پھر رفتہ رفتہ ملک بھر میں سٹیم انجن چھکا چھک کرتے ‘ سیٹی بجاتے‘ ٹرینوں کی بوگیاں کھینچتے ہوئے بھاگتے دوڑتے دکھائی دینے لگے۔اس انقلاب نے نا صرف بہت بڑے برصغیر کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا‘بلکہ ریل کے سفر کو ایک رومانس بنا دیا تھا۔
1971ء کے بعد ہمارے ہاں پاکستان ویسٹرن ریلویز ‘ صرف پاکستان ریلویز رہ گئی کہ ہمارا مشرقی حصہ ہم سے الگ ہوگیا تھا۔ تب تک بھی اس محکمے کی حالت اچھی خاصی تھی کہ اس پر سفر کو محفوظ سمجھا جاتا تھا‘ نیز اس کا رومانس بھی بڑی حد تک برقرار تھا۔ کبھی ریتلے علاقوں‘ کبھی جنگل تو کبھی ہرے بھرے کھیتوں کو بھاگتی دوڑتی ٹرین میں بیٹھ کر دیکھنے کا اپنا ہی لطف ہوتا تھا۔ ایک خاندان کے ساتھ ایک ہی کوپے یا بوگی میں بیٹھ کر سفر کرنے کا الگ ہی مزہ ہوتا تھا۔ کہیں آنے اور جانے والے سبھی خواہشمندوں کی یہی تمنا ہوتی تھی کہ اگر ممکن ہو تو ریل گاڑی پر ہی سفر کیا جائے۔یہ ہے؛اُس محکمہ ریلوے کا مختصر سا پس منظر‘ جسے آج اپنی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اس پر اگر ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی طرف سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے تو اس میں کچھ غلط نہیں ۔ کہا جاسکتا ہے کہ صرف ریلوے ہی کیا‘ بلکہ اس وقت تو پورے ملک کی حالت ہی وینٹی لیٹر پر پڑے ہوئے مریض جیسی دکھائی دے رہی ہے‘لیکن اگر صرف ریلوے کی بات ہی کرلی جائے‘ تو ملک کی حالت کو سمجھنا بھی آسان ہوجائے گا۔ 
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اپنے فرائض اورذمہ داریوں کو انجام دینے کی بجائے ہمیشہ دوسروں کو سدھارنے پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے۔افسوس کہ ہمارے اس طرزِ عمل نے ایک وقت کے شاندار اور عظیم ادارے کو وینٹی لیٹر پر پہنچا دیا ہے ۔ مصیبت یہ ہے کہ صرف حکومتی سطح پر ہی نہیں ‘بلکہ محکمانہ اور عام آدمی کی سطح پر بھی اپنی ذمہ داریوں کو قبول نہ کرنا ہمیشہ سے ہی ہمارا المیہ رہا ہے۔ دل میں تسلیم کرچکے ہوتے ہیں کہ ہم سے کچھ غلط ہوچکا ‘لیکن اس پر معذرت کرنے یا ِاپنی غلطی کی ذمہ داری قبول کرنے کو شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ خصوصاً جب ذمہ داری قبول کرنے کی صورت میں وزارت سے ہاتھ دھونے کا خطرہ بھی محسوس ہورہا ہوتو‘ پھربھلا کون اتنا بڑا رسک لے؟ وزارت تو معلوم نہیں کیا کیا پاپڑ بیل کر حاصل کی گئی ہوتی ہے ۔ پتا نہیں کتنے سچ اور جھوٹ بولے گئے ہوتے ہیں ۔ہاں دوسروں سے یہ توقع ضرور رکھی جاتی ہے کہ وہ نا صرف اپنی غلطی کو تسلیم کریں ‘بلکہ اگر وزیر ہیں تو پھر وزارت سے فورا استعفیٰ بھی دے دیں ۔المیہ ہی توہے کہ آستینیں چڑھا اور کف اُڑا ‘ اُڑا کر مہذب ممالک کی مثالیں تو دی جاتی ہیں‘ لیکن خود ایسی مثالیں قائم کرنے کو ہمیشہ آؤٹ آف کورس ہی سمجھا جاتا ہے۔ویسے تو مثالی حکمرانوں کا ہمارے ہاں ہمیشہ ہی قحط رہا ہے ‘لیکن اب تو جیسے گڈ گورننس اور انتظامی کنٹرول نامی چڑیا کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہی۔ المیہ ہی تو ہے کہ ہم اپنے فرائض سے صرف نظر برتتے ہوئے ہمیشہ دوسروں کی اصلاح کو ہی اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔بدقسمتی سے ایک شاندار ادارہ بھی اسی طرز عمل کا شکار ہورہا ہے۔ تقریباً ہرہفتے ریلوے ہیڈکوارٹرز لاہور میں تو سیاسی پیش گوئیوں کا چورن زوروشور سے بیچا ہی جاتا ہے۔اکثر اوقات اپنے ماتحتوں کے ساتھ نارواسلوک کی شکایات بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گاہے بگاہے بھی آنے اور جانے والوں کی قسمت کا حال بتانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے‘ نہیں خبر ہوتی تو بس اپنے محکمے کی نہیں ہوتی ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ 2012ء میں انڈین ریل منسٹر دنیش ترویدی نے صرف کرایوں میں اضافہ ہونے پر وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔ کہیں پڑھا تھا کہ تب کے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے دنیش ترویدی کو درمیانی راستہ نکالنے کی پیش کش بھی کی تھی‘ لیکن موصوف نے استعفیٰ واپس لینے سے انکار کردیا تھا۔ہمارے ہاں 74افراد ٹرین آتشزدگی میں زندہ جل جاتے ہیں۔ درجنوں ٹرینیں پٹری سے اُتر جاتی ہیں ۔ ہرروز متعدد ٹرینیں مستقبل بنیادوں پر تاخیر کا شکار رہتی ہیں۔مسافر حکومت کی جان کو رو رہے ہوتے ہیں۔ مردو خواتین اور بچے پلیٹ فارمز پر انتظار کی سولی پر لٹکے رہتے ہیں‘ لیکن دوسروں کی قسمت کا حال بتانے والوں کا جواب ایک ہی ہوتا ہے کہ ہمیں مسائل ورثے میں ملے ہیں۔ بے شک اس میں کوئی شک نہیں کہ ریلوے کے مسائل کوئی ایک دن میں پیدا نہیں ہوئے‘ لیکن ان کے حل کی بھی تو کوئی صورت ہوتی ہوگی۔ یہ صور ت تبھی نکل سکتی ہے‘ جب ذمہ دار اپنی تمام توجہ اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کرنے پر مرکوز رکھیںاور بس‘ یہی ایک کام نہیں ہوپاتا ‘ورنہ کچھ تو بہتری کی صورت دکھائی دیتی۔ کبھی نواز شریف کی کابینہ میں شامل ہوکر اُن کے قصیدے پڑھنا تو کبھی صدر پرویز مشرف کو ملک کا سب سے بڑا مسیحا قرار دینا۔ اب‘ اُسی طرح موجودہ حکومت کی شان‘ بیان کرتے رہنا۔ مصیبت تو یہ ہے کہ یہ صرف محکمہ ریلوے کی ہی صورت حال نہیں ہے‘ بلکہ حکومتی ‘ محکمانہ اور عام آدمی کی سطح پر یہی طرز ِعمل دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہمارے اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ ہرسطح پر ہی تنزلی کا سفر تیز تر ہوا جاتا ہے۔ہم سب کا ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ مسائل کے لیے ہروقت دوسروں کو ذمہ دار قرار دیتے رہیں۔ یہاں قوم کو معلوم نہیں کون کون سے سیاپے پڑے ہوئے ہیں ‘لیکن بس صبر‘ صبر اور گھبرانا نہیں‘ گھبرانا نہیں کا ورد ہی جاری ہے۔ ایک تسلسل سے یہ سب باتیں کرنے والے یہ تک سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ آخر کوئی کب تک یہ کہانی سن سکتا ہے۔ 
اب ‘اگر ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی طرف سے بھی محکمہ ریلوے کی حالت ِ زار پرتشویش کا اظہار سامنے آیا ہے‘ تو اس طرف بھرپورتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں ریلوے کو انتہائی اہمیت کا ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ خصوصاً رقبے کے لحاظ سے بڑے ممالک کے لیے تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ ریل کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں تک آسان رسائی میسر آتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کے ذریعے مسافر سفر کرتے ہیں ‘ سامان کی آسان اور بڑے پیمانے پر ایک سے دوسری جگہ ترسیل ممکن ہوتی ہے ‘بلکہ یہ ملکی دفاع میں بھی اہم ترین کردارادا کرتا ہے۔ طویل عرصہ گزرتا ہے جب مرحوم عنایت اللہ کی لکھی ایک کتاب‘''خاکی وردی لال لہو‘‘ نظر سے گزری تھی۔ اُس میں ایک سپاہی کی زبانی ریلوے کی پاک فوج کے لیے اہمیت کا ایک باب بھی موجود تھا۔تب شاید پہلی مرتبہ احساس ہوا تھا کہ ریل گاڑیوں کا رواں دواں رہنا ‘ ملک کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے ۔سب سے پہلے تو اس کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت ہے اور دوسرے ہروقت کی بیان بازی سے گریز کرنا ناگزیر ہے۔ دراصل مسئلہ تب بھی پیدا ہوتا ہے‘ جب باتیں تو بڑی بڑی کی جائیں ‘لیکن کچھ کرکے نہ دکھایا جائے۔ سچی بات ہے کہ اگر کارکردگی بول رہی ہو تو پھر زبان کو زحمت دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہاں تو اس وقت ابھی تک بس باتیں ہی سنائی دے رہی ہیں۔
معاملہ چاہے ملکی معیشت کا ہو‘مہنگائی کا‘بیڈ یا گڈگورننس کا یا پھر ایک وقت کے شاندار محکمہ ریلوے کا‘سب کا حال ایک جیسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ نہ دیگر مسائل حل ہورہے ہیں اور نہ ریل کا پہیہ رواں رکھنے میں کامیابی حاصل ہوپارہی ہے۔ باقی بیانات ہی رہ گئے ہیں‘ جن سے جی کو خوش کیے جارہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں