"FBC" (space) message & send to 7575

ہمسائے کے ہاں آگ لگی ہوتو؟

دیکھا جائے تو اچھا ہی ہوا کہ نام نہاد سیکولرازم کا لبادہ بالآخر اُتر گیا اور مسلسل اُتر رہا ہے۔ وہ لبادہ ‘جسے اوڑھ کر ایک عرصے سے پوری دنیا کو بے وقوف بنایاجارہا تھا۔ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھوں سیکولرازم کی بلی کے تھیلے سے باہر آکرمیاؤں میاؤں کرنے سے اذہان واضح ہوں گے ۔سو‘ اپنے ہمسائیہ ملک میں سیکولرازم کی وفات پر زیادہ افسوس کا اظہا رکرنے کی ضرورت نہیں ہے۔تشویش کی بات یہ ہے کہ ماضی کے پیش نظر عبث نہیں کہ اندرونی حالات پر سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت کوئی مہم جوئی کرگزرے۔ اس کے پہلے مبہم اور اب واضح اشارے مل بھی رہے ہیں۔ خود بھارتی وزیراعظم مودی نے پچھلے دنوں ہی میں اپنی سکیورٹی فورسز کی تقریب سے خطاب کے دوران ایک مرتبہ پھر پاکستان کو شکست دینے کی بات کی ہے۔ یہ تک دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کو صرف سات سے دس دنوں میں شکست دے سکتے ہیں‘ جبکہ ملکی افواج کے ترجمان کی طرف سے ان باتوں کا بھرپور جواب سامنے آچکا ۔ گویا دونوں ممالک کے درمیان چڑھاؤ ‘لیکن زیادہ تر اُتار کا شکار رہنے والے تعلق ایک مرتبہ پھراُترائی کی ڈھلوان پر تیزی سے نیچے کی طرف پھسل رہے ہیں۔بدقسمتی سے سرحد کے اُس پار یہ آسان طریقہ سمجھ لیا گیا ہے کہ مسائل پر سے اپنے عوام کی توجہ ہٹانا ہو تو پاکستان کو دھمکیاں دئیے جانے کا سلسلہ شروع کردیا جائے ۔ حقیقت کا غیرجانبداری سے تجزیہ کیا جائے‘ تو بلاشبہ بھارت اس وقت متعدد اندرونی مسائل میں گھرا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ آئندہ ماہ دہلی میں ہونے والے ریاستی انتخابات ‘ ملک کی انتہائی سست رفتار معیشت اور سب سے بڑھ کر شہریت کے متنازع قانون کیخلاف جاری تحریک جیسے مسائل کے باعث بھارتی قیادت نے ایک مرتبہ پھر یہ روایتی طریقہ اپنا یا ہے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو‘ لیکن بظاہر سرحد کے اُس پار سے کشیدگی کو مزید بڑھاؤا دئیے جانے کے تمام اسباب موجود ہیں۔ 
ان تمام مسائل کو مہمیز شہریت کے متنازع قانون سے ملی ہے۔ مختصراً اس پر ایک مرتبہ پھرکچھ بات کرلیتے ہیں۔ گزشتہ سال 11دسمبر کو بھارت میں شہریت کا متنازع قانون منظور کیا گیا تھا ۔ اس کے تحت افغانستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیرمسلموں کو بھارتی شہریت دینے کی بات کی گئی تھی۔ مسلمانوں کو البتہ اس سے باہر رکھا گیا تھا‘ اسی کو لے کر ہندوستانی عوام کی قابل ذکر تعداد بھڑک اُٹھی‘ جن کے نزدیک یہ قانون ملک کے سیکولر آئین کی نفی کرتا ہے۔اب اس قانون کے حمایتیوں اور مخالفین کو آمنے سامنے آئے ہوئے تقریباً ڈیڑھ ماہ گزرچکااور صورت ِحال ہنوز کشیدہ ہے۔ پنجاب‘ میگھالے‘ آسام ‘ دہلی ‘ کیرالہ ‘ ارونا چل پردیش‘ ہریانہ اور متعدد دوسری بھارتی ریاستوں میں قانون کے مخالفین مسلسل سڑکوں پر ہیں۔ اب‘ اگرnext door neighbour کے ہاں آگ لگی ہو تو کون عقلمند یہ گمان کرسکتا ہے کہ ہم اُس کے شعلوں کی تپش سے متاثر نہیں ہوسکتے ۔ اس وقت یہی صورت حال ہے کہ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا حصہ بنا یا جارہا ہے ۔ وہاں متنازع شہریت قانون کے حمایتی ‘ اس کے مخالفین کو پاکستان چلے جانے کے مشورے دے رہے ہیں؛حتیٰ کہ انہیں گولی مار دینے کی باتیں عملی صورت اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پولیس افسران کی متعدد ایسی ویڈیوز وائرل ہوچکی ہیں ‘جن میں وہ مظاہرین کو پاکستان چلے جانے کی بات کرتے نظرآتے ہیں ۔ ایسے مشورے دئیے جانے کی بظاہر بڑی وجہ تو یہی ہے کہ احتجاجی تحریک کے مخالفین میں مسلمانو ں کی اکثریت غالب دکھائی دیتی ہے۔ اس بات کی بہرحال تحسین کی جانی چاہیے کہ ہندوؤں کی بڑی تعداد بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ دکھائی دے رہی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہی بھارتی پنجاب سے سکھوں کی بڑی تعدادبھی شاہین باغ میں جاری مظاہرے کا حصہ بننے کے لیے پہنچی تھی۔ 
اس تمام کے باوجودیہ بات بہرحال نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ بی جے پی کے ورکرز کی بڑی تعداد اپنی حکومت کے اقدامات کی حمایت میں کھڑی ہے۔ گویا بھارت میں انتہا پسند موجودہ صورت ِحال تو ہندوتوا کے فروغ دینے کا سنہری موقع گمان کررہے ہیں‘اسی تناظر میں پاکستان کو دھمکیاں دے کر دہلی کے ریاستی انتخابات میں کامیابی کی راہ بھی ہموار کی جارہی ہے۔ وجہ صاف ہے کہ حصول کامیابی کے لیے اسے آسان ترین راستہ سمجھا جارہا ہے۔دہلی کی ریاستی اسمبلی میں 70 سیٹیں ہیں ‘جن میں سے گزشتہ عام انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 67سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔اب‘ ان انتخابات کو مرکزی حکومت کی مقبولیت اورغیرمقبولیت کا پیمانہ سمجھا جارہا ہے۔ فروری میں ہونے والے یہ انتخابات ظاہر کریں گے کہ بھارتی عوام کس حد تک موجودہ حکومت کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ان انتخابات کے دوران کانگرس‘ بی جے پی اور موجودہ برسراقتدار جماعت عام آدمی پارٹی کے درمیان سہ رخی مقابلہ ہے۔ بظاہراروند کیجری وال کی عام آدمی پارٹی کی برتری نظرآرہی ہے‘ جسے بی جے پی کسی بھی قیمت پر ختم کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے لیے ان انتخابات کی اہمیت کا اندازہ لگا لیجئے کہ بھارتی انتہاپسندوں کی طرف سے انہیں بھارت بمقابلہ پاکستان کا نام دیا جارہا ہے ۔اس حوالے سے بی جے پی کے معروف رہنما کیل مسرا کی طرف سے کافی متنازع بیانات سامنے آچکے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اُن کے بیانات پر سوشل میڈیا صارفین نے اُن پر کافی لعن طعن کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک دہلی کے ریاست انتخابات سے پاکستان کا کیا لینا دینا؟وہ سمجھتے ہیں کہ ایسی باتیں صرف کامیابی کے لیے کی جارہی ہیں۔ 
ہوسکتا ہے کہ انتہاپسندی اور پاکستان کے خلاف نفرت کو مزید فروغ دے کر بی جے پی انتخابات میں کامیابی حاصل کرہی لے ۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس جماعت کے رہنمایہ نہیں جانتے کہ محض کامیابی کے لیے وہ کتنی بڑی قیمت ادا کررہے ہیں ؟کیا وہ نہیں سمجھتے کہ وہ اپنے ملک کو مسلسل انتہاپسندی کی جانب دھکیل رہے ہیں ‘جس کے نتائج بہرحال اُن کے ملک کو ہی بھگتنا ہوں گے۔ بلاشبہ وہ ان تمام باتوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں‘ لیکن حصول ِاقتدار کے لیے وہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی حالات میں مزید بگاڑ پیدا کررہے ہیں۔ اپنے ملک کی اکثریتی اور اقلیتی آبادیوں کے درمیان جان بوجھ کر نفرتوں کو بڑھاؤا دیا جارہا ہے۔ اس کا ایک ردعمل تو یہ سامنے آرہا ہے کہ ایک عرصے سے اپنے حالات پر بے بس مسلمان کھل کر سامنے آئے ہیں۔ کافی طویل عرصے بعد انتہاپسندی کو اپنے ملک کے زہرقاتل سمجھنے والے ہندؤ بھی کھل کر آواز بلند کررہے ہیں۔ یہ نتیجہ بھی برآمد ہوا ہے کہ ایک ہی ملک میں رہنے والوں کے درمیان نفرتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گویا ایک بار پھر یہ بات اپنی سچائی ثابت کررہی ہے کہ جہاں بھی انتہاپسندی کو فروغ ملتا ہے‘ وہاں صرف نفرتیں ہی پروان چڑھتی ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہمسائے کے ہاں حالات جس بھی نہج پر ہیں‘ بہرحال انہیں حکومت کے لیے آؤٹ آف کنٹرول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ جب ایک عمارت کی بنیاد رکھ دی جائے تو پھر کبھی نہ کبھی عمارت بھی بن ہی جاتی ہے۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے لیے حالات کبھی بھی مثالی نہیں رہے ‘لیکن یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اتنے ابتر بھی نہیں رہے‘ جتنے اب دکھائی دے رہے ہیں۔ 
عمومی طور پر انتہاپسندی کو فروغ دینے کا طرز عمل آمرانہ حکومتوں کے ادوار میں اختیار کیا جاتا ہے‘ جو بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی کئی ایک مواقع پر اختیار کیا گیا۔ اس کے ہم نے بہت نقصان دہ نتائج بھی بھگتے۔اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ بالآخر ہم اس کے اثرات سے بڑی حد تک باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں‘ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اقلیتیں خود کو پوری طرح سے محفوظ سمجھنے لگی ہیں‘ لیکن صورتِ حال پہلے کی نسبت کافی بہترضرورقرار دی جاسکتی ہے۔ ہمسائے کے ہاں خود اپنے ہی ہاتھوں سے بھڑکائی آگ سے بھی ہم یہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ہمیں رواداری پر مبنی معاشرے کے لیے مزید تیز رفتاری سے آگے بڑھنا ہوگا۔ رہی بات بھارت کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوں کی تو وہ یہ بخوبی جانتا ہے کہ ہم اُس کی پھونکوں سے تو بہرحال اُڑ جانے والے نہیں ۔ ہاں! ان پر محتاط رہنے کی ضرورت ہروقت ہی موجود رہتی ہے۔
ماضی کے تجربات کچھ نہ کچھ سیکھنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ بلاشبہ ملکی دفاع کے ضامن ادارے پوری طرح سے بیدار اور حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں‘ لیکن ہمسائے کے ہاں آگ لگی ہوتو کون گمان کرسکتا ہے کہ اُس کے شعلوں کی تپش ہم تک نہیں پہنچ سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں