"FBC" (space) message & send to 7575

جان کی امان پاؤں تو---!

دوچار مرتبہ نہیں‘ ہزاروں بار یہ سوچ ذہن میں در آتی ہے کہ ہم اہل ِ اسلام امن کے داعی ہیں؛ انسانیت ہمارے مذہب کا بنیاد ی ستون ہے ‘اس بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں ‘اس پر یقین رکھتے ہیں اور اس کا برملا اعلان بھی کرتے ہیں‘ پھر آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ ہمارے ان اعلانات پر دوسرے زیادہ کان نہیں دھرتے؟ ہماری پکار کوپس ِپشت ڈال دیتے ہیں‘ سنی ان سنی کردیتے ہیں۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کرتا ہوں کہ شاید کچھ معاملات میں ہم ہمیشہ اپنی منوانے کے عادی ہوچلے ہیں۔ ان دنوں کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کی حکومتی اور مساجد کھلی رکھنے کیلئے مذہبی رہنماؤں کی کوششوں کے تناظر میں بھی ایسی ہی صورت ِحال دکھائی دے رہی ہے۔
حکومت کہتی ہے کہ مساجد بند رکھنے سے کورونا پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے ‘جبکہ علما کہتے ہیں کہ اگر منڈیاں اور مارکیٹس کھل رہی ہیں تو مساجد بند رکھنے پر اصرار کیوں؟ اسی بحث و مباحثے اور دلائل کے تبادلے کے نتیجے میں اب کی بار ‘ چاہے مشروط طور پر ہی سہی‘ علمائے کرام کو ہی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ادائیگی نماز ِجمعہ اور نماز تروایح کے حوالے سے علمائے کرام اور حکومت کے درمیان 20 نکات پر اتفاق بھی ہوچکا۔ اب‘ ان پر عمل درآمد کس حد تک ہوپائے گا ؟ اس کی ایک جھلک گزشتہ جمعۃ المبارک کو بخوبی دیکھنے کو مل چکی۔
پورے ملک کی بات تو ایک طرف رکھیے‘ صرف لاہور کی بات کرلیتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ لاہور میں چھوٹی بڑی مساجد کی تعداد قریباً 44سو کے لگ بھگ ہے ۔ گزشتہ نمازِ جمعۃ المبارک کی ادائیگی کے دوران کچھ مساجد کا مشاہدہ کرنے کا بھی موقع ملا‘ لیکن صورت ِحال دیکھ کر کسی قدر مایوسی ہوئی۔ معافی کی درخواست پر عرض کرنے کی اجازت درکار ہے کہ بیشتر مساجد میں عملاً 20نکات کا کہیں بھی عمل دخل دکھائی نہ دیا۔اب‘ بیشتر مساجد میں نماز تراویح کے حوالے سے بھی کم و بیش یہی صورت ِحال دکھائی دے رہی ہے۔
کہنے والے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ آنے والے دن کورونا وائرس جیسی وبا کے حوالے سے بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں‘ خدارا احتیاطی تدابیر پر عمل کریں‘ لیکن صورت ِحال دیکھ کر تو یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم سب احتیاطی تدابیر کو پس پشت ڈال چکے ہیں اور آنے والے دنوں کے دوران ‘ انہیں مزید پس پشت ڈالیں گے۔ 
جان کی امان پاؤں تو عرض کرتا ہوں کہ کسی قدر حیرانی کے ساتھ کچھ پریشانی بھی ہورہی ہے کہ آخر ہمارے ہاں ہی اس بات پر اصرار کیوں ہے کہ نمازِ تراویح مساجد میں ہی ادا کرنی ہے‘دیگر اسلامی ممالک کی صورت ِحال کا جائزہ لیا جائے تو پریشانی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے سعودی عرب کی سرزمین ‘ مقدس ترین ہے ۔ وہاں کی حکومت نے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی بند کردی اور ہنوز ہمارے یہ مقدس ترین مقامات بند ہیں۔کوئی دوسری رائے نہیں کہ اپنے مقدس ترین مقامات کو یوں اپنے پیروکاروں سے خالی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے‘ لیکن وہاں کی حکومت نے موذی مرض سے بچاؤ کیلئے اس کو ضروری جانا اور یہ اقدام کیا‘ نیز وہاں نمازِ جمعۃ المبارک کے اجتماعات بھی معطل ہیں۔ ہمارے ہمسایہ اسلامی ملک ایران میں بھی مساجد اور تمام زیارات گزشتہ دو ماہ سے بند ہیں۔ کویت‘ عراق ‘ متحدہ عرب امارات اور بے شمار دیگر اسلامی ممالک میں بھی ایسی ہی صورت ِحال دکھائی دیتی ہے ۔ غیراسلامی ممالک میںبھی مذہبی اجتماعات معطل ہوچکے ہیں۔ مسیحیوں کے روحانی پیشوا‘ یوٹیوب پر دعا کراتے ہیں اور مسیحی برادری اُسے سن کر اپنے گھروں میں بیٹھ کر دعا پر آمین کہتی ہے۔عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہیں بند ہونے کے ساتھ بیت المقدس تک بند ہے ۔دنیا بھر کی صورتِ حال کے پیش نظر یہ بات حلق سے نیچے نہیں اُترتی کہ آخر ہمارے علمائے کرام کیوں کر اس بات پر اٹل ہیں کہ کسی بھی صورت مساجد کھلی رہنی چاہیے۔ ہماری ناقص عقل اس قابل تو نہیں کہ اس کے گھوڑے دور تک دوڑسکیں ‘لیکن اتنا ضرورہے کہ موجودہ صورت ِحال کچھ کچھ توسمجھنے کی صلاحیت بہرحال موجود ہے۔ 
اس تناظر میں خود علمائے کرام کے درمیان اختلافات بھی بہت کنفیوژ کررہے ہیں۔ معروف سکالر ڈاکٹر جاوید احمد غامدی کے خیالات سننے کا اتفاق ہوا تو وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے سنائی دئیے کہ صورت ِحال کے پیش نظر فی الحال نماز گھروں پر ہی ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کسی ٹی وی پروگرام میں وہ کہہ رہے تھے کہ اگر کوئی خود اپنی جان لینے کی کوشش کرے تو اُس کی یہ کوشش خودکشی کے زمرے میں آتی ہے‘ اگر کوئی جان بوجھ کر دوسروں کی جان خطرے میں ڈالے تو یہ قتل کے زمرے میں آتا ہے۔ دوسری طرف مخالف نکتہ نظر رکھنے والے علمائے کرام قرار دیتے ہیں کہ جب کاروبار کھل رہے ہیں‘ منڈیوں میں خریداروں کا ہجوم دکھائی دینے لگا ہے تو پھر مساجد بند کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ بے شک اُن کا نقطۂ نظر اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر منڈیوں میں جائے بغیر ‘ بھوک مٹانے کیلئے اشیائے خورونوش کا اہتمام ہوسکتا ہے ‘ تو پھر بلا شک و شبہ دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہیے‘ اگر کاروبار کیے بغیر پیٹ کا دوزخ بھرنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے تو پھر ضرور یہ راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اب‘ اگر ایک معاملے میں مجبوری کا عنصر کارفرما ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرے معاملے میں بھی یہی فارمولا اپلائی کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ بے شک کوئی مسلمان ایسا نہیں ہوگا‘ جس کا دل خالی مساجد کو دیکھ کر مٹھی میں نہیں آجاتا ہوگا ‘لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارا مقابلہ اس وقت ایک ان دیکھے دشمن سے ہے۔ یہ دشمن ہمیشہ اسی تاک میں رہتا ہے کہ بس کچھ افراد ایک دوسرے کے قریب آئیں اور یہ اپنا کام کرگزرے۔ یہ ضروری نہیں کہ مساجد میں نہ جانا کورونا وبا سے بچاؤ کی ضمانت فراہم کرتا ہے ‘لیکن کم از کم کسی حد تک تو بچاؤ ممکن ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی آپ دیکھئے کہ اگر خدانخواستہ مساجد میں ہونے والے اجتماعات سے کوروناوائرس پھیلنے کے کچھ کیسز سامنے آگئے‘ تو انہیں کھلوانے والے کہاں سٹینڈ کریں گے؟
جان کی امان چاہتا ہوں کہ ایک معاملہ اور بھی ہے؛بلاشبہ ہمارا ایمان انتہائی پختہ ہے کہ اس کیلئے ہم اپنی جانیں تک قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔تھوڑی سی پریشانی اس بات پر ہورہی ہے کہ ایمان کی یہ مضبوطی دنیاوی معاملات میں کیوں نظر نہیں آتی؟ہمارا شمار بدعنوان ترین ممالک میں ہوتا ہے۔
غضب خدا کا کہ یہاں ادویات تک جعلی تیار ہوتی ہیں ۔ آئے روز پنجاب فوڈ اتھارٹی کے چھاپوں میں انتہائی مضرصحت اشیائے خورونوش پکڑی جاتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بچوں کی خوراک تک میں ملاوٹ کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں کئی چھاپوں کے دوران درجنوں مرتبہ خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرچکا ہوں کہ ملاوٹ مافیا ہمیں کیا کچھ کھلا رہا ہے۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ حکومتیں کفر پر تو برقرار رہ سکتی ہیں‘ لیکن ناانصافی پر نہیں‘ آگے حساب خود لگا لیں کہ ہمارے نظام عدل کا کیا حال ہے؟ بس‘ ہرکوئی دوسرے کو سدھارنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے‘ جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے تو بھینس پہلے بھی اُسی کی تھی اور ہمارے ہاں تو شاید ہمیشہ اُسی کی ہی رہے گی۔ 
یہ ہیں ہم اور ہمارے ایمان کی پختگی۔ معلوم نہیں ہمارا دھیان اِن قباحتوں کے خلاف جہاد کرنے کی طرف کیوں نہیں جاتا؟ آجا کے سیدھے سادے سے معاملات کو ہی متنازع بنا دیا جاتا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور انسداد حوالے سے بھی یہی صورتِ ِحال پیدا ہورہی ہے۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کرتا ہوں کہ قصہ مختصر یہی ہے کہ کورونا نامی وائرس انتہائی خطرناک دشمن سے جس حد تک بھی بچا جاسکتا ہے‘ بچنا چاہیے۔
سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کے لیے یہ مشکل مرحلہ ہے کہ اُسے عوام کو کرونا کے ساتھ فاقوں سے بھی بچانا ہے۔ اس مقصد کے لیے ‘اگر وہ کوئی قدم اُٹھاتی ہے تو اُس پر عمل کرنا چاہیے کہ ایسی صورت میں گناہ اور ثواب ‘ اُس کی گردن پر ہی آئے گا‘ تو پھر ہمیں زیادہ ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں