"FBC" (space) message & send to 7575

راجندر سنگھ بیدی کا کوارنٹین …(1)

اُردو کے نامورمصنف اور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی 1915ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ادبی زندگی کا آغاز 1932ء میں محسن لاہور ی کے نام سے کیا‘پھر اپنے اصل نام سے لکھنا شروع کردیا اور بتدریج اپنی پہچان بناتے گئے۔ افسانہ لکھا تو پڑھنے والوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ۔ افسانوں کے مجموعوں میں باسٹھ افسانوں کے علاوہ سات مضامین اور خاکے شامل ہیں۔ فلموں کی مکالمہ نگاری میں بھی بہت نام کمایااور لگ بھگ ستر کے قریب فلموں کے مکالمے لکھے۔ان میں سے بیشتر فلموں کے مکالمے اپنی ادبیت اور کردار شناسی کی بناء پر بہت سراہے گئے۔ مختصراً یہ کہ انہیں خصوصیات کی بناء پر اپنے عہد کے بڑے اور صاحب ِطرز ادیب تسلیم کیے گئے‘ بلکہ بعض احباب کی نظر میں تو وہ ترقی پسند نسل کے سب سے بڑے افسانہ نگار ہیں۔ ادب کی باریکیوں کو سمجھنے والے اُن کے بارے میں قرار دیتے ہیں کہ بیدی کے افسانوں اور ناولوں میں متوسط اور نچلے طبقے کی ہندوستانی خواتین کے کردار اور مزاج کی جو تصویر ملتی ہے‘ اُسے اُن کی افسانہ نگاری کا عروج کہا جاسکتا ہے۔ ہاں انہیں ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ اُن کے ناول پر سرحد کے دونوں جانب فلمیں بنیں اور ان فلموں نے فلم بینوں میں مقبولیت بھی حاصل کی ۔ راجندرسنگھ بیدی کے ایک ناول'' ایک چادر میلی سی‘‘ پر بھارت میں اسی نام سے 1986ء میں فلم بنائی گئی تھی تو اس ناول پر پاکستان میں فلم'' مٹھی بھر چاول‘‘ پردۂ سکرین کی زینت بنی تھی۔ 1947ء میں لاہور سے دہلی پہنچے اور پھر وہاں سے ممبئی کی راہ لی اور پھر اسی شہر میں اُنہوں نے 1984ء میں زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ ادب کی خدمات کے اعتراف میں بھارتی حکومت کی طرف سے اُن کے نام پر راجندر سنگھ بیدی ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ 
حیرت انگیز طور پر آج اس نامور لکھاری کی یادکورونا کے پس منظر میں آرہی ہے۔ وجہ نظروں سے گزرنے والا اُن ایک افسانہ ''پلیگ اور کوارنٹین‘‘ بنی کہ جس کا مطالعہ کرکے ایسے ہی محسوس ہوا کہ جیسے یہ آج کے وقت کے لیے کورونا کے پس منظر میں لکھا گیا ہو۔ ایک ڈاکٹر کے کردار کی زبانی لکھے جانے والے اس افسانے کی ایک ایک سطر آج کے حالات کی بھرپورعکاسی کرتی دکھائی دیتی ہے؛ حالانکہ یہ افسانہ اُنہوں نے چالیس کی دہائی میں لکھا‘ جس کی بنیاد 1896ء میں ہندوستان میں پھیلنے والی طاعون کی وبا بنی تھی۔ پہلے افسانے کی طرف چلتے ہیں‘ باقی باتیں بعد میں کریں گے۔ لکھتے ہیں ''ہمالیہ کے پاؤں میں لیٹے ہوئے میدانوں پر پھیل کر ‘ ہر ایک چیز کو دھندلا بنا دینے والے کہرے کی مانند پلیگ کے خوف نے چاروں طرف اپنا تسلط جما لیا تھا‘شہر کا بچہ بچہ اس کا نام سن کا کانپ جاتا تھا‘ پلیگ تو خوفناک تھی ہی ‘لیکن کوارنٹین اس سے بھی زیادہ خوفناک تھی‘لوگ پلیگ سے اتنے خوفزدہ نہیں تھے‘ جتنے کوارنٹین سے خوفزدہ تھے‘ تب محکمہ صحت کی طرف سے بیداری شعور کے لیے سڑکوں پر لگائے جانے والے قد آدم اشتہارات میں لکھوایا جاتا تھا'نہ چوہا نہ پلیگ‘ لیکن جب لوگوں میں کوارنٹین کا خوف بہت بڑھ گیا تو پھر یہ تحریر کچھ یوں لکھی جانے لگی؛ نہ چوہا نہ پلیگ نہ کوارنٹین۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ پلیگ سے اُتنی اموات نہ ہوئی تھیں‘جتنی اموات کوارنٹین کی وجہ سے ہوئیں؛ حالانکہ کوارنٹین کوئی بیماری نہیں تھی‘ بلکہ یہ تو اُس وسیع رقبے کا نام ہے‘ جہاں بیمار لوگوں کو تندرست لوگوں سے الگ کرکے لا ڈالتے ہیں؛ اگرچہ ڈاکٹروں اور نرسوں کا مناسب انتظام ہوتا تھا‘ لیکن پھر بھی مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث ان پر فرداً فرداً توجہ نہیں دی جاسکتی تھی‘ وہاں میں نے بے شمار لوگوں کو بے حوصلہ ہوتے ہوئے دیکھا‘ جن میں سے کئی تو دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھ کر ہی مر گئے تھے۔‘‘
بات آگے بڑھاتے ہوئے اپنے افسانے میں مزید لکھتے ہیں '' اکثرایسا بھی ہوا کہ کوئی معمولی علامات رکھنے والا مریض کوارنٹین میں پہنچنے کے بعد بیماری کے شدید حملے کا شکار ہوکر مر گیا‘ یہی وجہ رہی کہ بے شمار افراد اس بیماری کا شکار ہونے کے باوجود اسے چھپانے کی کوشش کرتے تھے؛ چونکہ ڈاکٹروں کو بھی تنبیہ کی گئی تھی کہ وہ پلیگ کے مریضوں کی فی الفور اطلاع دیں؛ چنانچہ لوگ ڈرتے ہوئے ڈاکٹروں سے بھی رجوع نہ کرتے‘ بیشتر صورتوں میں مریض کا علم تبھی ہوتا جب جگر دوز آہ وبکا کے درمیان کسی گھر سے لاش نکلتی‘ اُن دنوں میں بھی ایک پلیگ سینٹر میں بطورِ ڈاکٹر کام کررہا تھا اور اس مرض کا خوف مجھ پر بھی مسلط تھا‘شام کو گھر آنے کے بعد میں کاربالک صابن سے ہاتھ دھوتا رہتا‘ جراثیم کش مرکب سے غرارے کرتا‘ پیٹ جلا دینے والی گرم کافی پیتا رہتا‘ جب نہایت گرم کافی پینے سے پیٹ میں تخمیر ہوتی اور بخارات اُڑ اُڑ کر دماغ کو جاتے تو میں اکثر کسی حواس باختہ شخص کی طرح قیاس آرائیاں کرتا رہتا‘گلے میں ہلکی سی خراش آتی تو خوف سے کانپنے لگتا کہ پلیگ کی علامات نمودار ہورہی ہیں‘ پھر خیال آتا کہ اب میں بھی اس بیماری کا شکار ہوجاؤں گا اور مجھے کوارنٹین میں جانا پڑے گا۔۔۔اُن دنوں میں ولیم بھاگو نام کا بھنگیمیری گلی میں صفائی کا کام کیا کرتا تھا‘ اُس وقت جب کہ کوئی انسان دوسرے کے قریب نہ پھٹکتا تھا ‘وہ منہ پر کپڑا باندھے انسانیت کی خدمت کررہا تھا‘ علم تو اُس کا بہت محدود تھا‘ لیکن وہ اپنے تجربے کی بنا پر لوگوں کو مشورے دیتا رہتا تھا‘جیسے کہ‘لوگوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے کی تلقین کرتا ‘ اُنہیں اپنے گھر کے آس پاس چونا بکھیرنے کے فوائد کے بارے میں بتاتا۔۔۔
افسانہ مزید آگے کچھ یوں بڑھتا ہے '' ایک دن میں نے اُس سے پوچھا بھاگو تمہیں پلیگ سے ڈر نہیں لگتا تو وہ کہنے لگا‘نہیں بابو جی بن آئی بال بھی بیکا نہیں ہوگا‘ آپ کے ہاتھ سے ہزاروں نے شفا پائی‘ لیکن جب میری آئی ہوگی تو آپ کا دوادارو مجھ پر کوئی اثر نہ کرے گا‘ پھر وہ بات کا رخ پلٹتے ہوئے کہتا بابو جی بابو جی مجھے کونٹین کی بتائیے۔ اب ‘میں اُسے کیا بتاتا کہ وہاں تو ہم سب کا حلق سوکھا رہتا ہے اور یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ہم بھی اس بیماری کا شکار نہ ہوجائیں ۔ اُس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے میں کہتا کہ بھاگو تم بڑے انسان ہو‘ تم انسانیت کی بہت خدمت کررہے ہو تو وہ منڈاسے کے ایک پلو کو منہ سے ہٹا کر الکوحل کے اثر سے سرخ چہرے کو دکھاتے ہوئے جواب دیتا:بابو جی میں کس لائق کہ مجھ سے کسی کا بھلا ہوجائے ‘ وہ میرے پادری جی مجھ سے کہتے ہیں کہ انسانیت کے لیے جو کچھ بھی بن پڑے ضرور کرو‘ تو بس میں تو اپنی سی کوشش کرتا رہتا ہوں‘ میں چاہتاہوں کہ میرے دیش سے اس موذی بیماری کا جلد سے جلد خاتمہ ہو اور میں اپنی آنکھوں سے اِسے ختم ہوتا دیکھوں۔۔۔
ایک شام بھاگو بھاگا بھاگا میرے پاس آیا اور پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہنے لگا کہ بابو جی یہ کوانٹین تو دوزخ ہے‘ دوزخ!پادری لابے اسی قسم کی دوزخ کا نقشہ کھینچا کرتا تھا‘ میں نے اُسے جواب دیا کہ تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو‘ میں تو یہاں سے جان چھڑانے کی سوچ رہا ہوں۔ بابو جی اس سے زیادہ اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ آج ایک بے ہوش شخص کو مردہ سمجھ کر لاشوں کے ڈھیر میں جا ڈالا ‘ وہ تو جب لاشوں کو آگ لگائی گئی تو اُس شخص نے ہاتھ ہلانا شروع کردئیے‘ قریب تھا کہ وہ جل جاتا‘ لیکن میں آگ میں چھلانگ لگا کر اُسے نکال لایا۔اوہ تم نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیا ‘ یہ کہتے ہوئے جب میں نے اُس کا بازو دیکھا تو وہ نا صرف اچھا خاصا جلا ہوا تھا ‘بلکہ وہاں سے چربی تک جھانک رہی تھی‘ یہ دیکھ کر میں اُس پر کچھ غصہ بھی ہوا کہ تم نے اپنی جان کیوں خطرے میں ڈالی ‘ پھر ساتھ ہی اُس کا حوصل بڑھانے کے لیے پوچھا کہ وہ آدمی بچ گیا کہ نہیں ؟صاحب وہ پہلے تو بچ گیا ‘لیکن اتنا تڑپا تڑپا‘ اتنا تڑپا کہ میں نے کبھی کسی شخص کو اتنا تڑپتے ہوئے نہیں دیکھا اور بیچارہ یہی تکلیف سہتے سہتے وہ مرگیا‘ لیکن تھا وہ کوئی بہت ہی خاندانی آدمی‘ اس حالت میں بھی وہ میرا شکریہ ادا کرنا نہ بھولا تھا‘ لیکن آپ جانتے ہیں کہ وہ کیسے مرا تھا‘ وہ پلیگ سے نہیں کوانٹین سے مر گیا کوانٹین سے۔وہ یہ سب باتیں کرتا رہتا اور اپنے منہ کو منڈاسے سے لپیٹے انسانوں کی خدمت کرتا رہتا تھا۔ زندگی اسی طرح وسوسوں اور خوف کے درمیان گزر رہی تھی۔ (جاری)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں