"FBC" (space) message & send to 7575

راجندرسنگھ بیدی کا کوارنٹین …(آخری قسط)

بات ہورہی ہے‘ اُردو کے معروف افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کے افسانے ''پلیگ اینڈ کوارنٹین‘‘ کے حوالے سے۔ کچھ باتیں توگزشتہ روز کالم کے پہلے حصہ میں ہوچکیں اور جو باتیں بچ رہیں‘ انہیں آج کرلیتے ہیں۔ایک لکھاری کی نظر تو دیکھئے کہ بیدی جی نے اپنے افسانے میں قریباً سوا سو سال پہلے ایک وبا کے ساتھ پیدا ہونے والی صورت ِحال اور تب قائم کیے جانے والے قرنطینہ سینٹرز کا جو نقشہ کھینچا ہے ‘ کچھ قطع برید کے ساتھ آج کے قرنطینہ سینٹرز کے بارے میں کچھ ویسے ہی خیالات پائے جاتے ہیں۔ خیر باقی باتیں بعد میں کریں گے۔ پہلے 1896ء میں ہندوستان میں پھیلنے والی طاعون کی وبا کے تناظر میں لکھے گئے افسانے کو اختصار کے ساتھ مکمل کرلیتے ہیں۔ایک ایسی وبا‘ جس کے باعث اس وقت لگ بھگ 15سے 20لاکھ ہندوستانی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔ تب وبا سے پیدا ہونے والی صورت ِحال اوراس کی روک تھام کے لیے بنائے جانے والے قرنطینہ سینٹرزکے حوالے سے بات آگے بڑھاتے ہیں اور اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تب کے اور آج کے حالات میں کچھ تبدیلی بھی آئی ہے یا نہیں؟ 
راجندرسنگھ بیدی لکھتے ہیں ''اگرچہ ہمہ یاراں دوزخ کا خیال اس لامتناہی سلسلہ قہروغضب میں لوگوں کو کسی حد تک تسلی کا سامان بہم پہنچاتا ‘تاہم مقہور بنی آدم کی فلک شگاف صدائیں تمام شب کانوں میں آتی رہتیں‘ ماؤں کی آہ و بکا‘ بہنوں کے نالے‘ بیویوں کے نوحے اور بچوں کی چیخ وپکارایک نہایت المناک منظر پیدا کرتی ‘ جب صحیح سلامت لوگوں کے سینوں پر منوں بوجھ رہتا تھا‘ تو اندازہ لگا لیجئے کہ اُن لوگوں کی کیا حالت ہوتی ہوگی ؟جو گھروں میں بیمار پڑے تھے‘ پھر کوارنٹین کے مریض جنہیں مایوسی کی حد سے گزر کر ملک الموت مجسم دکھائی دے رہا تھا‘ وہ زندگی سے یوں چمٹے ہوئے تھے‘ جیسے کسی طوفان میں کوئی کسی درخت کی چوٹی سے چمٹا ہو اور پانی کی تندوتیز لہریں ہرلحظہ بڑھ کر اُس چوٹی کو بھی ڈبو دینے کی آرزومند ہوں‘ ایک روز میں کسی توہم کی وجہ سے کوارنٹین سینٹر نہ گیا اور ابھی گرم گرم کافی پی کر فارغ ہوا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ‘ نوکر نے دروازہ کھولا تو ہانپتا کانپتا بھاگو چلاتا ہوا اندرداخل ہوا بابو جی‘ بابو جی میری بیوی کو گلٹیاں نکل آئی ہیں ‘ خدا کے واسطے اُسے بچاؤ‘ اُس کی چھاتی پر دودھ پیتا ڈیڑھ سالہ بچہ بھی ہے‘ وہ بھی ہلاک ہوجائے گا۔ اُس سے ہمدردی کا اظہار کرنے کی بجائے میں نے خشمگیں لہجے میں پوچھا کہ پہلے کیوں نہ آسکے ‘ کیا بیماری ابھی ابھی شروع ہوئی ہے؟ وہ بولا :صبح جب میں کورانٹین گیا تھا تو تب اُسے معمولی سا بخار تھا‘ارے وہ بیمار تھی اور تم پھر بھی کوارنٹین گئے؟بھاگو نے جواب دیا: جی صاحب! وہ بالکل معمولی سی بیمار تھی اور پھر میرے دونوں بھائی بھی گھر پر تھے‘ اس لیے میں چلا گیا‘ اچھا تو تم اپنی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی مہربانی اور قربانی سے طاعون کے جراثیم لے کر گھر آئے ہو‘ یہ سب تمہارا اپنا قصور ہے‘ اب اپنی جانبازی کا مزہ بھگتو۔‘‘
مختصر طور پر افسانے میں لکھی گئی بات مکمل کرتے ہیں‘ جس میں راجندر سنگھ بیدی ایک فوجی ڈاکٹر کے کردار کی زبانی مزید احوال یوں بیان کرتے ہیں‘میں نے بھاگو کو واپس بھیج دیا‘ لیکن بعد میں پشیمانی ہوئی تو میں بھاگا بھاگا اُس کے گھر پہنچ گیا‘ دیکھا کہ بھاگو کے دونوں چھوٹے بھائی اپنی بھاوج کی چارپائی باہر نکال رہے تھے‘ اسے کہاں لے جارہے ہو؟صاحب 'کوانٹین‘ لے جارہے ہیں ‘ ارے تو کیا اب کوارنٹین دوزخ نہیں ہے؟ہے تو دوزخ ہی‘ لیکن صاحب آپ کے انکار کے بعد چارہ ہی کیا تھا‘ بہرحال میں نے کچھ دوادارو تو کیا ‘لیکن بھاگو کی بیوی بچ نہ سکی۔بھاگو نے کچھ دن بیوی کی موت کا سوگ منایا اور اُس کے بعد پھر دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہوگیا۔‘‘اس سے آگے ہم افسانے کو اپنے الفاظ میں اختصار سے پیش کرتے ہیں کہ بالآخر شہر کی فضا طاعون کے جراثیم سے پاک ہونے لگی اور کاروبار زندگی بحال ہونے لگا۔ بیدی جی کے ڈاکٹر نے محسوس کیا کہ وہ شہر میں جس طرف سے بھی گزرتے ہیں تو لوگ اُنہیں تحسین بھری نگاہوں سے دیکھتے‘پھر ایک روز اُن کے اعزاز میں شہر میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کو ہاروں سے لاد دیا گیا اور اُنہیں ایک ہزار روپے کی خطیر رقم بطور نذرانہ پیش کی گئی۔ ہر شخص اُن کی واہ واہ کررہا تھا۔ بیدی جی کے ڈاکٹرصاحب دادوتحسین سمیٹ کر گھر پہنچے تو ایک طرف سے کسی نے کہا: صاحب مبارک ہو۔ ڈاکٹرصاحب نے دیکھا تو وہ بھاگو تھا۔ڈاکٹرصاحب نے بھونچکا کر اُس سے کہا کہ بھاگو بھائی یہ تم ہو؟ اس سے آگے ایک مرتبہ پھر بیدی جی کے قلم سے نکلے الفاظ نقل کرتے ہیں‘لکھتے ہیں ''مبارکباد دیتے ہوئے بھاگو نے اپنا وہی پرانا جھاڑوقریب ہی ایک گندے حوض کے ڈھکن پر رکھ دیا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا منڈاسا کھول دیا ‘ اُسے دیکھ کر میں بھونچکاکر رہ گیا‘اوہ یہ تم ہو بھاگو بھائی‘دنیا تمہیں نہیں جانتی تو نہ جانے‘میں تو جانتا ہوں ناں‘تمہارا یسوع تو جانتا ہے‘ پادری لابے کے بے مثال چیلے ‘ تم پر خدا کی رحمت ہو۔اُس وقت میرا گلا سوکھ گیا اور بھاگو کی مرتی ہوئی بیوی اور بچے کی تصویر میر ی آنکھوں میں کھچ گئی‘ہاروں کے بار گراں سے میری گردن ٹوٹنے لگی اور بٹوے کے بوجھ سے میری جیب پھٹنے لگی‘ اتنے اعزاز حاصل کرنے کے باوجود میں بے توقیر ہوکر اس قدرشناس دنیا کا ماتم کرنے لگا۔‘‘٭
ہندوستان میں طاعون کی وبا تو 1896ء میں پھیلی تھی‘ لیکن راجندرسنگھ بیدی نے یہ افسانہ چالیس کی دہائی میں لکھا تھا ۔ یہ افسانہ آج تقریباً 80سال بعد کورونا کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورت ِحال کی بھی پوری طرح سے عکاسی کرتا دکھائی دے رہا۔ آپ کو بھی کبھی موقع ملے تو ضرور یہ مکمل افسانہ پڑھیے گا ‘ سر دھنیے گا اور یہ بھی ضرور سوچئے گا کہ دانشور کی نظر کہاں تک دیکھ سکتی ہے کہ 80سال پہلے لکھا جانے والا افسانہ ‘ آج کی صورت ِحال کی بھی کس قدر ٹھیک ٹھیک عکاسی کررہا ہے۔ 1896ء میں بھی لوگ‘ طاعون کی روک تھام کے لیے قائم کیے گئے قرنطینہ سینٹرز میں جانے سے گھبراتے تھے ۔ آج کورونا سے بچاؤ کے لیے قائم کیے جانے والے قرنطینہ سینٹرز بھی لوگوں کے لیے ہوا بن چکے ہیں۔ چلیں‘ تب تو ہمارے ملک پر غیرملکیوں کا تسلط تھا کہ انہیں بھلا ہم سے کیا ہمدردی ہوسکتی تھی۔ آج تو ہمارے اپنے ہی ہم پر حکمرانی کررہے ہیں تو پھر بھی حالات ایسے کیوں ہیں۔ کورونا سے نمٹنے کے لیے ایسی غیرذمہ داری‘ تماشے اور افراتفری کہ جن لوگوں کو معمولی نزلہ زکام کی شکایت بھی تھی‘ وہ بھی ڈر کے مارے دبک گئے کہ کہیں انہیں قرنطینہ سینٹر میں نہ بھیج دیا جائے۔ ایسی خطر ناک اور موذی وبا‘ جس سے مرنے والوں کی تعداد ‘ دوفیصد سے بھی کم ہے ‘ وہ شہریوں کے لیے کسی خوفناک عفریت کا روپ دھار چکی ہے۔ یہ بات تسلیم کہ ہر نئی بیماری اپنے ساتھ بہت سی توہمات لے کر آتی ہے‘آغاز میں اس کے بارے میں سمجھنا مشکل ہوتا ‘لیکن جو کچھ احسن انداز میں کرنا ‘ اپنے بس میں ہوتا ہے ‘ وہ تو کیا ہی جاسکتا ہے۔ 
بات اگر سماجی رویوں کی کی جائے توآج کورونا کے مریضوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سماجی رویے ہمیں راجندرسنگھ بیدی کے افسانے میں بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ آج کورونا کے مریضوں کے ساتھ ہمارے معاشرتی رویے‘ اُن سے کچھ زیادہ مختلف تو نہیں دکھائی دے رہے۔ اچھا بھلا انسان منٹوں میں دوسروں کے لیے اچھوت بن جاتا ہے۔ یہ انہیں رویوں کے باعث ہی رہا کہ بے شمار ایسے کیسز سامنے آئے ‘جن میں لوگوں نے ابتدائی علامات سامنے آنے کے باوجود ہسپتال جانے سے گریز کیا کہ اگر سچ میں کورونا نکل آیا تو اُن کے لیے تو بے شمار مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کورونا سے نمٹنے کی حکمت عملی کی مثال سوڈنڈے اور سو گنڈے(پیاز)ایک ساتھ کھانے والی پالیسی دکھائی دیتی ہے۔ ہم مکمل لاک ڈاؤن کرسکے‘ نہ اپنی معیشت کو بچا سکے۔ ہم نے دوکشتیوں میں سوار ہوکر خود ہی اپنے لیے اتنے زیادہ مسائل پیدا کرلیے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان کے آثار شدت سے دکھائی دینے لگیں گے۔اللہ کرے کہ ہمارے لیے خطرناک حالات پیدا نہ ہوں کہ ہمارے ہاتھ پاؤں تو معمولی سی مشکل صورت ِحال میں ہی پھول جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ موذی وباکورونا سے نمٹنے کے لیے جو لوگ حقیقت میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں‘ اپنی جانوں کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں ‘تو حقداروں کی ہی تحسین ہونی چاہیے ۔ دعا کے ساتھ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ اُن کے ساتھ بھی ولیم بھاگو جیسا سلوک نہ ہو! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں