"FBC" (space) message & send to 7575

منتری بدھی مان کا دنبہ

آئیے آج ماضی کے کچھ اوراق پلٹتے ہیں؛ ان دنوں تو ویسے بھی سندھ کے حکمران رہنے والے راجہ داہر کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت کچھ چل رہا ہے۔ ہمارا مدعا اس بحث سے قدرے مختلف ہے۔ ''چچ نامہ‘‘ میں مذکورتو بہت کچھ ہے‘ لیکن قدرے اختصار سے بیان کرتے ہیں؛ ایک روز راجہ داہر کو خیال آیا کہ شہزادی مائی شادی کی عمر کو پہنچ چکی ‘ بہتر ہوگا کہ ا س کی شادی کردی جائے۔ اس دوران خوش قسمتی سے رمل کے راجہ رائے بھاٹیہ نے رشتہ بھی بھیج دیا‘ اسے اپنی خوش قسمتی گردانتے ہوئے راجہ داہر نے اس بارے میں رائے لینے کے لیے نجومیوں کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ بات کافی عجیب سی ہے ‘لیکن ہے ایک تاریخی حقیقت۔ نجومیوں نے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ شہزادی مائی کو اُروڑ کے قلعے سے باہر نہیں جانا چاہیے‘ کیونکہ اس کی جس کے ساتھ بھی شاد ی ہوگی تو سندھ کا تخت و تاج بھی اُسی کو مل جائے گا۔ عجیب سی صورت ِحال پیدا ہوگئی تھی ۔ راجہ داہر شہزادی مائی کی شادی نہیں کرتا تو مصیبت‘ اور اگر کرتا ہے تو اُسے اپنا تخت و تاج جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مشورے کے لیے وہ اپنے وزیراعظم بدھی کو طلب کرکے تمام صورت ِحال اُس کے سامنے رکھتا ہے۔ اپنے زمانے کا یہ عقل مند ترین آدمی راجہ کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ خود ہی شہزادی مائی کے ساتھ شادی کرلے۔ اتنا سننا تھا کہ راجہ داہر نے آسمان سر پر اُٹھا لیا کہ کیسی عجیب بات کی گئی ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کیا کہے گی؟ بدھی مان کہنے لگا: جناب کا اقبال بلند ہو ‘یہ جو دنیا کیا کہے گی والا معاملہ ہے تو اس کا جواب دینے کے لیے مجھے کچھ روز عنایت کردئیے جائیں۔ بدھی مان اپنی رہائش گاہ پر واپس آیا اور ایک دنبہ لے کر اُس کی اون میں تیل اور کچھ جڑی بوٹیوں کے بیج ڈال کر روزانہ انہیں پانی دینے لگا۔ کچھ روز بعد دنبے کی اون سرسبز بیل بوٹوں سے سج گئی ۔ دنبے کو بازاروں میں چھوڑ دیا گیا۔ اب‘ یہ عجیب وغریب دنبہ جس طرف کا بھی رخ کرتا تو وہاں اسے دیکھنے والوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے‘ اسے دیکھنے کے لیے ایک دنیا پاگل ہوئی جاتی تھی۔ بس‘ کچھ روز ہی مزید گزرے ہوں گے کہ اس میں دیکھنے والوں کی دلچسپی کم ہونے لگی۔ چند روز بعد یہ بیچارہ دنبہ اکیلا ہی گھومتا ہوا دکھائی دینے لگا کہ اس میں دیکھنے والوں کی دلچسپی بالکل ختم ہوچکی تھی۔ تب مناسب موقع جان کر بدھی مان ‘ راجہ داہر کے پاس پہنچا اور اُسے تمام احوال بتا کر گویا ہوا کہ جناب دنیا کی یادداشت بس اتنی سی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ راجہ داہر نے اپنے وزیراعظم بدھی مان کے مشورے پر عمل تو کیا‘ لیکن صرف دکھاوے کی شادی کی حد تک‘ جس کے بعد شہزادی مائی تمام عمر ایک الگ محل میں رہی۔ 
راج نیتی میں منتری بدھی مان کا سرسبز دنبہ داخل تو راجہ داہر کے زمانے میں ہوا ‘لیکن پھر اس نے جیسے راج نیتی میں اپنی مستقل جگہ بنا لی ہے۔ حکمرانوں کے ہاتھ ایک ایسا نسخہ لگ گیا کہ جسے ہرہر موقع پراپنے اقدامات کا تحفظ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ جان چکے کہ دنیا کی یادداشت بس دوچار روز کی ہی ہوتی ہے‘ اُس کے بعد پھر سب کچھ بھلا چنگا ہوجاتا ہے۔ کہاں ہے ‘وہ چینی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے کا دنبہ؟سب نے بھاری منافع بھی جیبوں میں ڈال لیا اور اس حوالے سے راوی اب‘ چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ 55,60روپے کلو میں فروخت ہونے والی چینی بلا دھڑک 80سے 85روپے کلو میں فروخت ہورہی ہے۔ آٹے کے نرخ مسلسل بڑھ رہے ہیں ‘ ایسے کہ جیسے حکومت کی کہیں کوئی رٹ ہی باقی نہ رہی ہو۔ پٹرولیم مصنوعات کا دنبہ تو تازہ تازہ ہماری نظروں سے گزرا ہے۔ 10جون کو اوگرا کے ترجمان کا ایک بیان اخبارات کی زینت بنتا ہے۔ بیان میں ترجمان نے پہلے تو تسلیم کیا کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی فروخت خسارے میں جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ گلہ بھی کیا گیا کہ ہمارے ملک میں آئل کمپنیاں 70سال سے منافع کما رہی ہیں ۔ اب‘ اگر حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ کیا ہے تو اُنہیں اس فیصلے پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔افسوس کہ ان گلے شکوؤں کا کوئی فائدہ ہونا تھا نہ ہوا۔ یکم جون سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد ان کی پیدا ہونے والی مصنوعی قلت تبھی ختم ہوئی‘ جب ان کے نرخوں میں اضافہ کردیا گیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسا ہونا توقعات کے عین مطابق تھا ‘کیونکہ ہمارے وزیراعظم اعلیٰ سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا نوٹس لے چکے تھے۔اِس سے پہلے چینی اور آٹے وغیرہ کے نرخوں میں اضافے کا بھی سخت نوٹس لیا گیا تھا۔ اس پر بعد میں جو کچھ ہوا‘ اُس کے مطابق شاید ہی کسی کو یقین تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قلت پر اضافے کا نوٹس لیے جانے کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوگا‘ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا کہ حکومت نے تمام اصول و ضوابط بالائے طاق رکھتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ریکارڈ اضافہ کردیا۔ اس پر حسب ِمعمول چیخ و پکار ہوئی اور مہنگائی مہنگائی کا ایک مرتبہ پھر غلغلہ مچا ُ‘لیکن سب جانتے ہیں کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ گرد بھی بیٹھ جائے گی۔ اس دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر حکومتی زعما کی طرف سے عجیب وغریب توجیحات سا منے آتی رہیں۔ ایسی صورتِ حال میں سب سے گھٹیا دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جناب ابھی بھی ہمارے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ دوسرے ممالک سے کم ہیں۔ یہ تو کہا جاتا ہے‘ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ ہمارے ہاں ڈالر کا ریٹ کیا ہے اور ہمارے ہاں پٹرو ل بک کس معیارکا رہا ہے؟ڈھٹائی اور بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے‘ لیکن شاید وزیروں اور مشیروں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ دن کو بھی رات ثابت کرنا اُن کی ذمہ داری کا حصہ ہوتا ۔ حالت یہ ہے کہ آج جبکہ دنیا یورو 6پٹرول پر پہنچ چکی‘ تو ہمارے ہاں ابھی بھی ناقص یورو 2 معیارکا پٹرول فروخت ہورہا ہے ۔ معلوم نہیں ہمارا ملک یورو2 معیار کے پٹرول تک بھی کیسے پہنچ گیا ؟ یورو1 معیار کے پٹرول میں سلفر کی مقدار ایک ہزار پارٹس فی ملین ہوتی ہے ‘ یورو2 کوالٹی کے پٹرول میں یہ مقدار پانچ سو پی پی ایم رہ جاتی ہے‘ یورو3 میں 350‘ یورو4میں پچاس اور یورو5 میں سلفر کی مقدار صرف 10پی پی ایم تک رہ جاتی ہے۔دنیا اس سے بھی آگے یورو6 کوالٹی کے پٹرول پر کمندیں ڈال چکی۔ دُور کیا جانا کہ اکثر ہمارے وزرا؛ عمر ایوب‘ ندیم بابر اور شہباز گل وغیرہ کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے ہاں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ ہمسایہ ملک بھارت سے کہیں کم ہیں‘ لیکن وہ یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ وہاں رواں سال کے اختتام پر یورو6معیار کا پٹرول متعارف کرانے کی تیاری مکمل کی جاچکی۔ اس کامیابی نے بھارت کو امریکہ‘ جاپان اور دوسرے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ بھارت 2000ء میں یورو1 پر تھا‘جس کے بعد 2017ء تک وہ اپنے ہاں یورو5معیار کا پٹرول متعارف کراچکا تھا۔ اب‘ کوئی عقل کا اندھا بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ یورو2اور یورو 5 یا6 معیار کے پٹرول کی قیمتوںمیں تو فرق ہوگا ہی۔ کیا یورو2 معیار کا پٹرول قدرے سستے داموں فروخت کرکے بڑا تیر مارا جارہا ہے؟ قیمتوں کا موازنہ کرتے ہوئے ان نابغوں نے کبھی یہ بتانے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ خطے کے دوسرے ممالک میں ڈالر کی شرح تبادلہ کیا ہے۔ 
ہمارے نابغے کبھی یہ موازنہ پیش کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے کہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت ہماری حکومت پٹرولیم مصنوعات پر کتنا ٹیکس وصول کررہی ہے۔ خود پٹرولیم ڈویژن کے مطابق نرخوں میں حالیہ اضافے کے بعد ایک لٹر پٹرول پرتقریباً 51روپے حکومت کی جیب میں جاتے ہیں۔ کس حساب سے‘یہ بھی پڑھ لیجئے۔ تیس روپے لیوی ٹیکس‘ 14روپے74 پیسے جی ایس ٹی تو دو روپے 44پیسے کسٹم ڈیوٹی کے نام پر شہریوں کی جیبوں سے نکالے جارہے ہیں۔ دراصل قصہ مختصر یہ ہے کہ حکومت چلانے کیلئے پیسہ چاہیے ‘ ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں ہوسکتا‘ اس لیے پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں میں اضافہ ضروری ہے‘ تو بھئی سیدھی بات کرو‘کیوں منتری بدھی مان بنتے ہوئے سمجھ رہے ہو کہ دنیا کی یادداشت دوچار روز کی ہی ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں