"FBC" (space) message & send to 7575

آپشن تو ہمیشہ موجود ہوتی ہے سر

4اپریل 1979ء کو جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو تب اُن کی عمر صرف اکاون برس تھی۔ اپنی اس اکیاون سالہ زندگی کے دوران سیاسی لحاظ سے مقبولیت کے جس مقام تک پہنچے ‘ وہ اُن کے بعد سے آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوسکا۔ صرف ملک کے اندر ہی نہیں ‘بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اُن کو عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ لیبیا کے معمر قذافی‘ ایران کے رضا شاہ پہلوی‘کابل کے داؤد خان اور متعدد دیگر اسلامی ممالک کے رہنما اُن کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ بھارت کی قید سے نوے ہزار فوجیوں کو چھڑانے کا سہرا اُن کے سر تھا۔ ایک شکست خوردہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں اُنہوں نے اہم ترین کردارادا کیا۔ وہ عوام کے مقبول ترین قائد تھے ۔ اس تمام صورتِ حال کے تناظر میں وہ یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب تھے کہ اگر انہیں پھانسی دی گئی تو ہمالیہ بھی روئے گا‘لیکن‘پھر جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ چار اپریل 1979ء کو اُنہیں خاموشی کے ساتھ راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ جیل میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ صبح دو بجے دی جانے والی پھانسی کا اعلان دن گیارہ بجے کیا گیا‘ جس میں یہ بھی بتایا گیا کہ اُن کی تدفین کا عمل بھی مکمل ہوچکا ہے۔ کیسی بدنصیبی رہی کہ اُن کے اہل ِخانہ کو بھی اُن کی آخری رسومات میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہماری ملکی تاریخ کا ایک اہم ترین کردار خاموشی کے ساتھ دنیا سے چلا گیا۔ ہمالیہ رویا اور نہ ہی اُن کے جانے کے بعد جگہ خالی رہی۔
ایک سیاسی رہنما کی جگہ لینے والے آمر کو آغاز میں کچھ مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا‘ لیکن‘ پھر افغانستان میں تب کے سوویت یونین کی مداخلت اُس کے لیے نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئی۔ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو سوویت یونین سے نمٹنے کے لیے ایک آمر کی ہی ضرورت تھی‘ جو پاکستان میں پہلے سے ہی برسراقتدار آچکا تھا۔ امریکہ ‘ویتنام کی جنگ کے دوران خود کو پہنچنے والے زخموں کا حساب ‘ افغانستا ن میں چکانے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ جب سب کچھ طے ہوگیا تو قائد عوام کی موت کو مطلق فراموش کردیا گیا اور کچھ ہی عرصے کے بعد سب کچھ پہلے جیسا ہی چلنے لگا۔ افغان جنگ کے شعلوں کی تپش میں سب نے ہی فراموش کردیا کہ کس طرح ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنما کو اقتدار سے محروم کرکے جیل میں ڈالا گیا۔ اُن پر ایک مقدمہ چلایا گیا اور پھر تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اس تمام عرصے کے دوران وہ فخر ایشیا کے زعم میں ہی مبتلا رہے۔ جیل میں بھی اُنہیں یہی احساس رہا کہ اُن کا دورتلک کوئی متبادل نہیں‘ پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب اُن کا اپنے وکلا سے اعتبار اُٹھ گیا تو اُنہوں نے غیرملکی وکلا کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا‘ لیکن ستم دیکھئے کہ اس حوالے سے اُن کا اپنا ہی ایک فیصلہ راستے کی رکاوٹ بن گیا۔ اپنے دوراقتدار کے دوران اُنہوں نے خود ہی غیرملکی وکلا کے پاکستان آنے اور مقدمات لڑنے پر پابندی عائد کردی تھی؛ چنانچہ انہیں غیرملکی وکلا کو بلانے کی اجازت نہ ملی؛ بلاشبہ ایک مقبول ترین سیاسی رہنما کو پھانسی پر لٹکا دینا انتہائی افسوسناک قرار دیا جاسکتا ہے‘ لیکن ایسا ہوا۔
بھٹوصاحب کے پھانسی پر لٹک جانے کے بعد جنرل ضیاالحق کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دُور ہوچکی تھی ۔ آئین کو موم کی ایسی ناک بنا دیا کہ اس دستاویز کا حلیہ ہی بگڑ کر رہ گیا۔ اپنی صدارت کے لیے ریفرنڈم کرایا اور سوال یہ رکھا کہ آپ ملک میں اسلام چاہتے ہیں یا نہیں؟اب‘ کون مسلمان ہوسکتا ہے‘ جو یہ کہے کہ وہ اسلام کا نفاذ نہیں چاہتا۔ سو‘ بھاری اکثریت نے ہاں کا آپشن چنا‘ جس کے نتیجے میں ضیاالحق صاحب نے مسند ِ صدارت سنبھال لی۔ وہ تو قدرت کے اپنے ہی فیصلے ہوتے ہیں ‘جو وہ طیارہ حادثے کا شکار ہوگئے‘ ورنہ تب تک بھی اُن کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ وہ بھی بجا طور پر یہ سمجھ رہے تھے کہ اُن کے علاوہ کوئی دوسری آپشن نہیں۔ اُن کے بعد جمہوریت کو کچھ سانس لینے کا موقع ملا‘ لیکن پھر پرویز مشرف نے ایک مرتبہ سب کچھ اُٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔ اُن پر بھی ایک وقت ایسا آیا تھا جب وہ خود کو بین الاقوامی رہنما کی صورت دیکھنے لگے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ دنیا اُنہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سپہ سالار سمجھتی ہے۔ اس زعم میں اُنہوں نے کئی ایک ایسے فیصلے بھی کیے کہ جس نے اپنے ہی عوام کو عذاب میں مبتلا کردیا۔ سوات کے عوام کہاں اُن کے من مانے فیصلے بھولے ہوں گے‘ جن کے نتیجے میں سوات جیسا خوب صورت اور پرامن ترین علاقہ بدترین عذاب میں مبتلا رہا۔ دنیا کو باور کرایا گیا کہ اگر پرویز مشرف نہ رہے تو دہشت گرد سب کچھ بہا لے جائیں گے۔ تمام تر طاقت کے باوجود ‘ وکلا تحریک کے باعث وہ کمزور ہوئے اور بالآخر اقتدار سے محروم ہوئے۔ آج کل پرویز مشرف بیرونِ ملک مختلف بیماریوں سے لڑ رہے ہیں۔ سوچیں تو ذہن میں آتی ہوں گی کہ جس اقتدار کے لیے میں تمام تر پاپڑ بیلتا رہا‘ وہ آخر کیوں کر مجھ سے روٹھ گیا؟ میرے علاوہ تو کوئی دوسری آپشن ہی نہیں تھی تو میرے بعد ملک کیسے چل رہا ہے؟
اب کے ہمارے وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ بیان سامنے آنے کے بعد لاکھ یہ کہا جاتا رہے کہ وزیراعظم کی طرف سے دیا گیا بیان ‘ دراصل کسی اور کے لیے ہے ۔ وہ کسی اور کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ اگر نظام چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اقتدار میں رکھنا آپ کی مجبوری ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے توکیا پھر بھی یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں کسی انسان کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا؟ سوشل میڈیا پر اکثر ایک پوسٹ گردش کرتی رہتی ہے کہ اگر کبھی خود کو ناگزیر سمجھنے لگو تو قبرستان کا ایک چکر لگا لیا کرو‘ وہاں ایسے اَن گنت لوگ قبروں میں پڑے ہیں ‘جو یہ گمان کرتے تھے کہ اُن کے بغیر دنیا نہیں چل سکتی۔ جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے ‘ تب سے لے کر آج تک انسان آرہے ہیں اور جا رہے ہیں‘ لیکن دنیا چلتی ہی چلی جارہی ہے ۔ کاروبارِ کائنات تبھی رکے گا‘ جب خالق کائنات چاہے گا۔ ہم انسانوں کی بھلا کیا اوقات کہ جو خود ناگزیر سمجھنے لگیں۔ آپ نہ میں اور نہ ہی کوئی اور دنیا کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ دنیا اسی طرح چلتی آئی ہے اور اس نے چلتے ہی رہناہے۔ شاید یہ انسان کی فطرت ہے کہ اقتدار کا نشہ اُس کے منہ سے بڑے بڑے بول نکلوا دیتا ہے‘ جو آگے چل کر اُس کے سامنے آتے ہیں۔ 
آ پ دیکھ لیجئے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے جو بڑے بڑے بول بولے گئے تھے‘ وہ آج ہر جگہ حکومتی زعما کا تعاقب کرتے ہیں۔ بیرون ِملک سے دوسوارب ڈالر واپس لانے کے دعوے۔ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے دعوے اور معلوم نہیں ایسا کیا کیا کہا جاتا رہا کہ کہنے والے آج منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ اب خود حکومتی صفوں سے ہی مائنس ون کی آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ جو کرپشن ختم کرنے کے دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے‘ آج ہر بڑے سکینڈل کا کھر اُن کے اپنے ہی گھروں کو جارہا ہے۔پائلٹس کے حوالے سے وزیر صاحب کے ایک بیان سے پوری دنیا میں ملک کی بھد اُڑ رہی ہے۔ معاملے کو اتنے غیر سنجیدہ انداز میں ہینڈل کیا گیا ہے کہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتاہے۔ ملائیشیا اور ویتنام سمیت دنیا کی متعدد ایئرلائنز میں خدمات انجام دینے والے پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کردیا گیا ہے۔
مافیاز کی گرفت کے سامنے حکومت خود کو بے بس محسوس کر رہی ہے۔یوں محسوس ہورہا ہے کہ حکومتی رٹ کہیں بھی باقی نہیں رہ گئی ہے اور دعوے کیے جارہے ہیں خود کے ناگزیر ہونے کے‘ اگر ایسے بیانات سے کسی کو کوئی پیغام دینا بھی مقصود ہے تو زبان سے زیادہ عمل سے بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یوں بھی جن کو پیغام دینے کی بات کی گئی ہے‘ اُن کے ہاں یہ رواج ہے کہ اُن کے پاس ایک متبادل پلان ہمیشہ موجود رہتا ہے ‘جسے بوقت ِضرورت فوری طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ شاید خود حکومتی صفوں سے مائنس ون کی آوازیں بھی اسی تناظر میں اُٹھنا شروع ہوچکی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں