"FBC" (space) message & send to 7575

زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں… (2)

کالم کے گزشتہ حصے میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان جاری چپقلش کا تاریخی اور تفصیلی جائزہ لیا جا چکا۔ اُس تناظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کو زیادہ حیرانی کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ اِس کی کوئی ایک نہیں بلکہ متعدد وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ قرار دی جا سکتی ہے کہ 1948ء میں اپنے قیام کے فوراً بعد سے اسرائیل نے خود کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی طرف توجہ دی۔ کئی مواقع پر اُس کی طرف سے ثابت کیا گیا کہ وہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ یہ بھی تسلیم کہ اسرائیل کو یورپ اور امریکہ کی بالخصوص بھرپور اور غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔ اِس وقت بھی اسرائیل‘ امریکہ سے سب سے زیادہ امداد وصول کرنے والا ملک ہے، دوسرے نمبر پر مصرآتا ہے، لیکن بھاری امریکی امداد حاصل کرنے والے اِن دونوں ممالک کی اقتصادی اور معاشی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ مصر میں آج بھی عوام کی بڑی تعداد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ امداد کا ٹھیک طریقے سے استعمال نہیں کیا جا رہا۔ حکمرانوں کو جواب دہی کا کوئی ڈر نہیں کہ وہ سوچ سمجھ کر پیسہ خرچ کریں۔ انور السادات کے قتل کے بعد حسنی مبارک برسر اقتدار آئے تو اقتدار سے چمٹ کر ہی بیٹھ گئے۔ اِس دوران اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جو آمروںکا خاصہ ہوتا ہے۔ عوام کو دبایا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا۔ عرب بہار کے نتیجے میں اقتدار سے محرومی کے بعد کچھ عرصہ کے لیے اخوان المسلین کے محمد مرسی، مصر کے صدر بنے لیکن اُن کا اِس عہدے پر برقرار رہنا طاقتوروں کے مفاد کے خلاف تھا چنانچہ اُن کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ اب فیلڈ مارشل السیسی حکومت کر رہے ہیں اور طریقہ کار وہی ہے کہ عوام کو دبا کر رکھو اور طاقتوروں سے بنا کر رکھو۔ دوسری طرف اسرائیل نے حاصل ہونے والی امداد کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا۔ اِس وقت بھی اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ فرق دونوں ممالک کے درمیان نظامِ حکومت کا ہے۔ ایک آمرانہ اور دوسرا جمہوری نظامِ حکومت۔
عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے پر اسلامی ممالک کی طرف سے سامنے آنے والے ردعمل کا جائزہ لیا جائے تو ایک حقیقت بہت واضح طور پر آشکار ہوتی ہے۔ جن ممالک کی طرف سے اِس معاہدے پر زیادہ ردعمل سامنے آیا ہے، وہاں چاہے لولا لنگڑا ہی سہی لیکن کسی حد تک جمہوری نظام رائج ہے۔ وہاں کے حکمران جانتے ہیں کہ معاہدے کی مخالفت کرنے پر اُنہیں عوامی پذیرائی حاصل ہوگی کیونکہ مسلم ممالک میں عوامی سطح پر اِس معاہدے کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ جن ممالک کی طرف سے معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے‘ وہاں بادشاہت رائج ہے۔ اِن ممالک کے حکمرانوں کو عوامی جوابدہی کا ڈر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اُن کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ اُن کی بادشاہت قائم رہے۔ دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے لیکن اُن کی بادشاہت پر آنچ نہیں آنی چاہیے۔ اِن ممالک کی فوجی طاقت کا جائزہ لیا جائے تو بے پناہ وسائل ہونے کے باوجود اُنہوں نے اپنی افواج کو ایک خاص حد سے زیادہ مضبوط نہیں ہونے دیا، مبادا وہ اُن کے اقتدار کے لیے ہی خطرہ بن جائیں۔ بڑی مسلم قوتوں کے اسرائیل کے ساتھ ڈھکے چھپے تعلقات بھی اب زیادہ ڈھکے چھپے نہیں رہ گئے۔ اسرائیل رواں سال جنوری کے دوران ہی اپنے شہریوں کو سعودی عرب کا سفر کرنے کی اجازت دے چکا ہے۔ اِس سے پہلے 2018ء میں سعودی عرب کی طرف سے ایئر انڈیا کے طیاروں کو اسرائیل جانے کے لیے سعودی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی جا چکی ہے۔ اِس اجازت کے بعد سے ایئر انڈیا کے طیارے کہیں کم وقت میں اسرائیل پہنچ جاتے ہیں۔ اب اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے یہ دعوے بھی سامنے آرہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے بعد جلد ہی بڑے مسلم ملک کے ساتھ بھی اُن کے کھلے عام روابط استوار ہو جائیں گے۔ اُردن میں بھی بادشاہت ہے‘ جو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرچکا ہے۔ شام اِس قابل رہا ہی نہیں کہ اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ بن سکے سو اب راوی اسرائیل کے لیے چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ 
یہ بات طے ہے کہ خلیج میں پیدا ہونے والی صورت حال صرف مخصوص خطے تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ اِس کے اثرات خطے سے باہر بھی مرتب ہوں گے جن سے پاکستان کا متاثر ہونا بھی بعید از قیاس نہیں ہے‘ خصوصاً اِن حالات میں کہ خارجہ محاذ پر پاکستان کے لیے کچھ مشکلات پیدا ہو چکی ہیں۔ ہمارے دیرینہ دوست ممالک کی طرف سے کئی ایسے اشارے پہلے سے ہی مل رہے ہیں کہ وہ ہمارے ایک دیرینہ دشمن کے قریب ہو رہے ہیں۔ ماضی قریب میں کئی مواقع پر محسوس ہوا کہ اُن کی طرف سے ہمارا ساتھ دیے جانے کے بجائے ہمارے ہمسائے کا ساتھ دیا گیا ہے۔ گویا ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا گیا کہ ہر ملک کو صرف اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اپنے مسائل کی وجہ سے ہمیں بیشتر مواقع پر اپنی منشا کے خلاف چلنا پڑتا ہے۔ اِس حوالے سے ایک نہیں درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن معاملہ چونکہ بہت نازک ہے لہٰذا اِس پر زیادہ بات سے گریز ہی مناسب ہوگا۔ ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی قدر جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ کبھی کسی ڈرامے پر مر مٹتے ہیں تو کبھی اُمت کے نام پر اپنے قومی مفادات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ بہرحال موجودہ حالات میں یہ بات طے ہے کہ خلیج میں پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنا ہمارے لیے آسان ٹاسک نہیں ہوگا کیونکہ امریکہ اور اسرائیل کے اِس ایک اقدام سے مسلم دنیا مزید تقسیم ہوتی نظر آتی ہے۔ ایک کیمپ وہ ہے جہاں سے امارات، اسرائیل معاہدے کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔ دوسرے کیمپ میں وہ مسلم ممالک شامل ہیں جن کی طرف سے اِس معاہدے پر خاموشی اختیار کی گئی ہے جبکہ تیسرے کیمپ میں شامل ممالک کی طرف سے معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اِس کیمپ میں شامل کچھ ممالک کا ردعمل اگر ابھی تک سامنے نہیں آیا تو بھی اسے اُن کی خاموش تائید ضرور حاصل ہے۔ رہ گئی بات فلسطینی بھائیوں کی تو اُنہیں پہلے کون سا کبھی درخورِ اعتنا سمجھا گیا جو اب اُن کی آرا کا احترام کیا جائے گا۔ اُن کی بے بسی فلسطینی رہنما حنان اشراوی کے ایک ٹویٹ سے جھلک رہی ہے۔ فلسطینی رہنما حنان اشراوی اپنے ٹویٹ میں لکھتی ہیں:کاش کوئی بھی اپنی دھرتی چرائے جانے کے کرب سے دوچار نہ ہو، کاش کسی کو نظربندی جیسی کیفیت سے دوچار نہ ہونا پڑے، کاش کوئی بھی اپنی نگاہوں کے سامنے اپنا ہی گھر گرتا ہوا نہ دیکھے اور اپنے کسی پیارے کو ہلاک ہوتا ہوا نہ دیکھے، کاش کوئی اپنے ہی دوستوں کے ہاتھوں فروخت ہونے کے عذاب سے نہ گزرے۔
حنان اشراوی کا ٹویٹ فلسطینیوں کے جذبات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے لیکن عملاً فلسطینی خود کو کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں پاتے۔ یوں بھی فلسطینیوں کے ساتھ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا لیکن اب تو واضح طور پر صورت حال تبدیل ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ نظر آ رہا ہے کہ پہلے سے مصائب سے دوچار فلسطینیوں کے لیے مزید مشکل صورتحال پیدا ہونے جا رہی ہے۔ اب بدلتا ہوا وقت اِس بات کا متقاضی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرکے، اپنی بادشاہتوں کو بچایا جائے تو پھر بھلا کون سی رکاوٹ آڑے آ سکتی ہے۔ رہی بات ایران اور ترکی کی تو ایران نے تو 1950ء میں ہی اسرائیل سے تعلقات قائم کرلیے تھے تاہم 1979ء میں انقلابِ ایران کے بعد یہ پالیسی تبدیل ہو گئی۔ جہاں تک ترکی کا معاملہ ہے تو اب ترکی اور اسرائیل کے درمیان تلخی تو بڑھی ہے لیکن دونوں کے درمیان سفارتی تعلقات بھی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا سلسلہ بھی جاری ہے، اِن حالات میں عوامی سطح پر پذیرائی حاصل کرنے کے لیے زبانی کلامی تو اسرائیل کے لتے لیے جا سکتے ہیں لیکن عملاً وہ بھی کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ سو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیدا ہونے والے حالات کے امکانات تو طویل عرصے سے پیدا ہو رہے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں