"FBC" (space) message & send to 7575

شو آف!

10مقدمات کے باوجود قانون کی گرفت میں نہ آنے والا عابد ملہی 11ویں مقدمے میں نامزد ہونے کے بعد بھی چھلاوہ بنا ہوا ہے۔ یہ اُس کی بدقسمتی ہی قرار دی جاسکتی ہے کہ 11واں مقدمہ انتہائی حساس نوعیت اختیار کرگیا وگرنہ پہلے دس مقدمات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اُس کا کیا بگاڑ لیا تھا؟گجرپورہ زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کے خلاف لاہور اور بہاولنگر میں متعدد مقدمات درج ہیں۔ 2013ء میں اُس نے فورٹ عباس میں ڈکیتی کے دوران ایک خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ایک اور ڈکیتی کے دوران ایک ماں اور بیٹی اُس کی ہوس کا نشانہ بنیں۔ 2017ء میں اُس کے خلاف کچھی والا میں زیادتی کا مقدمہ درج ہوا لیکن وہ اِس میں بھی بچ نکلا۔ اب گجرپورہ زیادتی کیس نے حساس نوعیت اختیار کر لی ہے تو اُسے ہرصورت میں کیفر کردار تک پہنچانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اگر یہ معاملہ بھی دبا رہتا تو کیا یہ بھی پچھلے 10مقدمات کی طرح اپنی موت آپ نہ مر جاتا؟ بالکل! اُسی طرح جیسے ایک آدھ روز پہلے ہی خیرپور ٹامیوالی میں زیادتی کا شکار ہونے والی ایک خاتون کے ساتھ ہوا۔ یہ خاتون طویل عرصے سے تھانے کے چکر لگا رہی تھی لیکن داد رسی نہ ہونے پر بالآخر اُس نے زہر پی کر خود کشی کر لی۔ 2019ء میں پانچ سالہ عمر راٹھور کے ساتھ کیا قیامت بیت گئی تھی جسے چار درندوں نے زیادتی کا نشانہ بنایا؟ اُس کی پٹیوں میں جکڑی ہوئی لاش برآمد ہوئی تو پورا ملک سکتے میں آ گیا تھا لیکن بعد میں کیا ہوا؟ چاروں ملزمان پکڑے بھی گئے لیکن ابھی تک مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ ڈی این اے رپورٹس سے بھی پکڑے جانے والے مجرم ثابت ہو چکے ہیں لیکن عمر راٹھور کا باپ آج بھی جوتیاں چٹخا رہا ہے۔ یہ صرف دو مثالیں ہیں‘ ورنہ تو ظلم ہر جگہ بچے جنتا چلا جا رہا ہے۔ پھر ہم اندازے لگاتے ہیں کہ صرف ایک سال کے اندر ایک صوبے پنجاب میں 3880 خواتین کے ساتھ زیادتی کے کیسز کیسے سامنے آ جاتے ہیں۔ ایک ہی سال کے اندرکیسے 12 ہزار خواتین اغوا ہو جاتی ہیں۔ تیرہ سو بچوں کو کیسے زیادتی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب زیادتی کے مرتکب ہونے والے افراد کے لیے سخت ترین سزائیں موجود ہیں اور بات اب اِنہیں نامرد بنا دینے تک آن پہنچی ہے۔
اِنہیں ضرور نامرد بنائیں یا سرعام پھانسی پر لٹکائیں، ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے سے ہی خواتین کے حوالے سے پانچ بدترین ممالک میں شامل ہمارے ملک میں خواتین کو سکھ کا سانس نصیب ہو سکے۔ خواتین کے حوالے سے بدترین ممالک میں شمار ہونے والے دیگر ممالک میں افغانستان، یمن، سوڈان اور شام شامل ہیں، بدقسمتی سے سب مسلم ممالک۔ دوسری طرف خواتین کے لیے بہترین ممالک کی فہرست میں سوئٹزر لینڈ، ڈنمارک، ناروے، فن لینڈ اور اور آئس لینڈ شامل ہیں۔ جہاں پھانسی کی سزا دی جاتی ہے نہ سخت سزاؤں کا کوئی تصور موجود ہے، وہاں خواتین کے لیے حالات بہترین اور جہاں پہلے سے ہی سخت سزائیں موجود ہیں‘ وہاں حالات ابتر۔ کیا یہ عجیب محسوس نہیں ہوتا کہ جہاں عوام اور حکومتیں صرف قانون پر عمل کرتی ہیں‘ وہاں حالات بہترین اور جن ممالک میں اکثریت مسلمانوں کی ہے‘ جہاں مبلغین بھی دن رات بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں‘ جہاں ہم بات بات پر اپنے کیے کا حساب دینے کے خوف سے لرزتے رہتے ہیں‘ وہاں حالات بدترین۔ چلیں بدترین جاری خانہ جنگی کی وجہ سے افغانستان، شام اور یمن میں صورت حال انتہائی بدتر ہونے کی وجہ سمجھ آتی ہے لیکن ہمارے ملک میں تو کوئی خانہ جنگی نہیں ہو رہی۔ ہمارے ہاں تو الحمدللہ جمہوریت کا بول بالا ہے‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا جم غفیر ہے‘ عدلیہ بھی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم خود بھی پکے اور سچے مسلمان ہیں‘ اِس سب کے باوجود معلوم نہیں مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر کیوں ہے کہ بات زیادتی کے مجرموں کو نامرد بنا دینے تک آن پہنچی ہے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر سرعام پھانسی پر لٹکا دینے کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ مطلب وہ سب کچھ سننے میں آ رہا ہے جو پہلے بھی ہائی پروفائل بن جانے والے ایسے کیسز میں سننے کو ملتا رہا۔ یہاں کچھ عرصہ شور برپا ہوتا ہے‘ پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد سب اپنی اپنی راہ لیتے ہیں اور دوبارہ سے کسی دوسرے ایسے واقعے کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔ 
اب مذکورہ کیس سامنے آنے کے بعد جو ہاہاکار مچی ہے تو اِس واقعے کی گرد بیٹھنے کے بعد کیا ہوگا؟ وہی جو کچھ پہلے ہوتا رہا ہے؟ کتنے واقعات گنواؤں جن کے پیش آنے کے بعد پوری قوم ہل کر رہ گئی تھی لیکن بعد میں کیا ہوا؟ ابھی تو کوئٹہ میں ٹریفک اہلکار کو کچلنے والے ایک سیاستدان کی رہائی کی بازگشت بھی فضاؤں میں موجود ہے، اِس سے پہلے سانحہ ساہیوال‘ جس پر ملک بھر میں زلزلہ آ گیا تھا، قومی اسمبلی میں آستینیں چڑھا چڑھا کر دعوے کیے گئے تھے۔ خدا کی پناہ! دن دہاڑے ایک ادارے کے اہلکار بچوں کے سامنے اُن کے والدین کو خون میں نہلا دیتے ہیں اور پھر بری بھی ہو جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تب کے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو کیوں اپنی وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا تھا؟ موصوف پر اسلام آباد میں اپنے فارم ہاؤس کے قریب رہائش پذیر ایک خاندان سے لڑائی جھگڑے کا الزام تھا۔ ظاہر ہے کہ کیس میں بھی وہی کچھ ہوا تھا جو انتہائی طاقتور اور انتہائی کمزور فریقوں کے درمیان ہوتا ہے۔ بعد میں موصوف نے اپنا کہا نہ ماننے پر آئی جی اسلام آباد تک کو تبدیل کرا دیا گیا، وہ تو معاملہ عدالت کے نوٹس میں آ گیا تو یہ تمام کارنامے بھی منظرعام پر آ گئے‘ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور تواتر سے ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آج کسی بھی شخص کی نبض پر ہاتھ رکھیں، اس کا اندر آنکھوں کے راستے باہر آنے میں تاخیر نہیں کرے گا۔ سب سے زیادہ خیرات دینے والے‘ مظلوموں کے حمایتی بننے والے‘ ہم کرکیا رہے ہیں؟ صرف باتیں اور Show Off۔
جان رکھیے کہ بات شو آف سے آگے بڑھے گی تو کچھ بات بنے گی۔ ہمارے ملک میں قوانین پہلے سے موجود ہیں لیکن مسئلہ اُن پر عمل درآمد کا ہے۔ آپ انتہائی سخت سزاؤں سے اوپر کی بھی کوئی سزا لے آئیں، یہ معاملات اِسی طرح چلتے رہیں گے‘ جب تک قوانین پر عمل درآمد کو ممکن نہیں بنایا جائے گا۔ فرسٹریشن اِسی طرح موجود رہے گی جب تک طاقتور اور کمزور قانون کے ایک ہی پلڑے میں نہیں تولے جائیں گے۔ جرائم کا گراف اِسی طرح بڑھتا رہے گا جب تک عوام کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی۔ آپ دیکھئے کہ جو حکومتیں قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے دعوے کرتی ہیں، بے شمار صورتوں میں خود عوام کو لوٹ رہی ہوتی ہیں۔ ذرا بجلی کے بل تو اُٹھا کر دیکھئے کہ کیا کیا ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔ بجلی کی اصل قیمت سے دگنے تو ٹیکس عائد کر دیے جاتے ہیں اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں گے۔ عدالتیں کہتی ہیں کہ پولیس صحیح تفتیش نہیں کرتی‘ جس کا فائدہ ملزموں کو پہنچتا ہے، پولیس کہتی ہے کہ وہ محنت کرکے ملزم پکڑتی ہے اور مجرم ضمانتیں کروا لیتے ہیں۔ ہم سب کے سب ایک دوسرے کو تو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں لیکن خود کو ٹھیک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بھائی دنیا میں اچھے کام کریں گے تو ہی آخرت میں اِن کا اجر ملے گا، صرف عوامی سطح پر ہی نہیں‘ حکومتی سطح پر بھی۔ اب جو نامرد بنا دینے کی باتیں کر رہے ہیں تو یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ہمارے ہاں مخالفین کو پھنسانے کے لیے جھوٹے الزامات عائد کرنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک خاتون وکیل نے ہاہاکار مچا دی کہ اُسے اغوا کرکے سات روز تک حبس بے جا میں رکھا گیامگر تحقیقات پر اصل کہانی کچھ اور ہی نکلی۔ اگر پھر بھی آپ یہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اِس سے پہلے صرف اتنا ساکام کر لیجئے کہ شو آف کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنا دیجئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں