"FBC" (space) message & send to 7575

کہیں سے تو خیر کی خبر آئے!

عجیب وقت چل رہا ہے جو ہنگام اپنے عروج پر پہنچ کر بھی چین نہیں لے رہا۔ گو ہمارے ہاں افراتفری تو ہمیشہ سے افراط میں رہی ہے لیکن جو حالات آج ہو چکے ہیں وہ دل دہلائے دیتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک خبر کہ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جائے۔ سیاست کا میدان بھی پوری طرح سے گرم ہو چکا ہے جس کی زد میں ادارے بھی آ رہے ہیں۔ اِس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس میں کچھ رہنمائوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کھل کر بات کی جس کے بعد مقتدر ادارے کو واضح کرنا پڑا کہ اُس کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اِسی کانفرنس کے نتیجے میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اپوزیشن اتحاد بھی وجود میں آیا جو اب حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کو لے کر آگے بڑھے گا۔ کانفرنس کے اعلامیے میں آئندہ ماہ سے ملک گیر مظاہرے شروع کرنے کا اعلان سامنے آیا تو ایک مخصوص مرحلے پر اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دینے کا آپشن بھی کھلا رکھا گیا۔ اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے متعدد دیگر مطالبات بھی سامنے رکھے گئے ۔ اِس کے بعد کچھ سیاستدانوں کی عسکری قیادت سے ملاقاتوں کی باتیں سامنے آنا شروع ہوگئیں جن پر ہنوز تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اِسی دوران مسلم لیگ نون کے رہنما شہباز شریف بھی آمد ن سے زائد اثاثوں کے کیس میں نیب کی گرفت میں آ گئے۔ اِس صورتحال کا کچھ بھی مطلب نکالا جائے لیکن یہ طے ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات بگڑنے کے خدشات ردّ نہیں کیے جا سکتے۔ اللہ نہ کرے کہ کہیں ایک مرتبہ پھر 2014ء جیسے حالات پیدا ہوں‘ جب ہر شام ملک کے دارالحکومت میں تماشا لگا کرتا تھا۔ 126دنوں پر محیط پی ٹی آئی کے دھرنے نے ملک میں جو کچھ ''نئی روایات‘‘ متعارف کرائی تھیں، آج ہم وہ سب کچھ عملی طور پر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ خیر! اوئے‘ توئے کا کلچر تو ملکی سیاست کا ہمیشہ سے گہنا رہا ہے لیکن اِس دھرنے میں تو افسران کو پھانسی پر چڑھانے تک کی باتیں ہوتی رہیں۔ سنتے ہیں کہ دھرنے کے نیتجے میں ملکی معیشت کو 457 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ یہ سب کچھ کرنے والے آج اپوزیشن کی ممکنہ تحریک کو ملک دشمنی قرار دے رہے ہیں۔
اتنا سب کچھ کرنے کے بعد اقتدار تو مل گیا لیکن افسوس کہ عملاً کچھ نہ ہو سکا۔ ملکی معیشت میں بہتری آ سکی نہ عوام گڈ گورننس کا مشاہدہ کر سکے۔ بدعنوانوں سے ڈکاری ہوئی رقم نکلوانے کے دعوے بھی دم توڑ چکے ہیں، اُلٹا بہت سے اپنے بھی اِس رنگ میں رنگے گئے ہیں۔ اب اُن کو پکڑا جائے تو حکومت کی ساکھ متاثر ہوتی ہے، نہ پکڑا جائے تو اپوزیشن کو یکطرفہ احتساب کا نعرہ بلند کرنے کا موقع ملتا ہے۔ شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد یہ نعرے مزید بلند ہو چکے ہیں۔ حکومت کے ترجمانوں کی اچھی خاصی فوج حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرنے کی اپنی سی کوشش تو کر رہی ہے لیکن زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو پا رہی۔ اِن میں سے متعدد تو ماضی میں بھی مختلف حکومتوں کی ترجمانی کے فرائض انجام دے چکے ہیں‘ شاید اِسی لیے اُن کی باتوں پر زیادہ کان دھرا نہیں جاتا۔ ایک صاحب تو شاید خود کو کوئی نجومی سمجھتے ہیں‘ کہ ان کی ہر روز کوئی نئی پیش گوئی سامنے آ جاتی ہے۔ دس‘ گیارہ روز قبل بھی اُنہوں نے ایک پیش گوئی کی تھی کہ آئندہ چند روز میں آٹے اور چینی قیمتیں کم ہونا شروع ہو جائیں گی۔ قیمتیں تو کم نہ ہوئیں اُلٹا آٹے کے نرخوں میں مزید 3روپے کلو تک کا اضافہ ہوگیا۔ رہی سہی کسر ادویات کے نرخوں میں 9سے 262فیصد اضافے نے پوری کر دی ہے۔ جن ادویات کی قیمتیں بڑھی ہیں، اُن میں جان بچانے والی ادویات بھی شامل ہیں۔ اِس حوالے سے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کی منطق یہ ہے کہ بلیک مارکیٹ میں غیر معیاری ادویات کی فروخت کے باعث حکومت کو مجبوراً یہ اقدام کرنا پڑا، ہاں! البتہ اب فارماسیوٹیکل کمپنیاں 2021ء تک ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کر سکیں گی۔ یوٹیلٹی سٹورز پر بھی متعدد اشیا کے نرخوں میں اضافے کی خبر بھی ساتھ ہی سنا دی گئی ہے۔
جو ہو چکا‘ سو ہو چکا لیکن جو کچھ ہونے جا رہا ہے‘ اُس کا مختصر احوال کچھ یوں ہے کہ آنے والے موسم سرما میں گیس کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔ اِس خدشے کا اظہار اعلیٰ ترین حکومتی سطح سے سامنے آیا ہے جس کے بعد اِس پر کوئی دو آرا نہیں ہونی چاہئیں۔ سوئی گیس کی دونوں بڑی کمپنیوں کی طرف سے اعتراف کیا جا چکا ہے کہ سردیوں کے دوران گیس کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے جس کے اثرات ابھی سے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اچھی خاصی گرمی میں بھی کچھ علاقوں میں گیس کا پریشر کم ہونے کی شکایات مل رہی ہیں۔ دوسری جانب بجلی کی فی یونٹ قیمت میں بھی ایک روپے سے زائدکا اضافہ کیا جا چکا ہے۔ مہنگائی‘ مہنگائی کی دہائی ہرگزرتے دن کے ساتھ بلند تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں معلوم نہیں ملبہ ماضی کی حکومتوں پر گرا کر کہاں تک کام چلایا جائے گا یا پھر کب تک احتساب کی گردان دہرائی جائے گی۔ اگر اِیسا کرنے سے لوٹی ہوئی دولت واپس آ سکتی ہے یا مہنگائی کے ستائے ہوؤں کو کچھ ریلیف مل سکتا ہے تو پھر اِس پر یقینا کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے ورنہ تو ؎
میں ڈھڈوں بھکا ظالما، میرے بھک نے کھچے ساہ
مینوں جنت حوراں دسنا ایں، کوئی چج دا لارا لا
عجیب بات ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے لتے لیتے رہتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر تھوڑی سی توجہ دینے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے۔ شاید یہی پالیسی ہے کہ کچھ نہ کچھ مسالے دار بیان کرتے رہو اور بیانات کی حد تک چھائے رہو۔ اپنی کارکردگی کی بات ہو تو ملبہ ماضی کی حکومتوں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاؤ۔ ماضی کی حکومتوں نے کچھ نہیں کیا اور اب سب کچھ ہمیں کرنا پڑ رہا ہے، ماضی کی حکومتوں نے بدعنوانی کو فروغ دیا جس سے اب ہمیں نمٹنا پڑ رہا ہے۔ مان لیا کہ بڑے منصوبوں کے لیے رقم نہیں لیکن گڈ گورننس پر تو توجہ دیں۔ کچھ تو ایسا نظر آئے کہ اچھی خبر سننے کے لیے ترسے ہوئے عوام کو دلاسا ملے۔کہاں دھرنے کے وقت کی ایک انتہا اور کہاں اقتدار میں آنے کے بعد دوسری انتہا۔ بظاہر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ نہ پہلے کچھ سوچا گیا اور نہ ہی اب سوچ بچار پر زیادہ وقت صرف کیا جا رہا ہے۔
یہ وہ حالات ہیں جنہوں نے اپوزیشن کو صرف دو سالوں کے اندر ہی اکٹھا ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ اب لاکھ کہا جاتا رہے کہ یہ ہارے ہوؤں کا اکٹھ تھا، یہ بدعنوانوں کا اکٹھ تھا، یہ ملک کی ترقی کے دشمنوں کا اکٹھ تھا لیکن کہیں نہ کہیں تو تیر نشانے پر جا کر لگا ہے، کہیں نہ کہیں تو اِس اکٹھ نے ہلچل پیدا کی ہے۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر اے پی سی اپنے کہے ہوئے میں سے 50 فیصد پر بھی عمل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو حکومت کے لیے اچھی خاصی مشکل پیدا ہو جائے گی۔ اگرچہ اجتماعی استعفوں کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن کانفرنس میں شامل تمام جماعتوں کا متحد ہونا معمولی بات ہرگز نہیں ہے۔ حکومت کے لیے متوقع صورتحال کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوگا۔ خصوصاً عوامی سطح پر عوامی اُمنگوں کا جس طرح خون ہوا ہے، اُس نے بھی اپوزیشن کا کام آسان بنا دیا ہے۔
دوسری طرف یہ خدشہ بھی بہرحال موجود ہے کہ کہیں دھرنے والوں کی طرح‘ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی کچھ بہت زیادہ تو نہیں کہہ دیا گیا، بہت کچھ ایسا کہ جس پر عمل کرنا ہی ممکن نہ ہو۔ سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ معلومات کا دور ہے، اب ماضی کی طرح کچھ چھپا کر رکھنا ممکن نہیں رہا۔ آج تو کسی ریڑھی والے کے پاس بھی کھڑے ہو جائیں تو وہ بھی منٹوں میں پوری صورتحال کا پوسٹ مارٹم کرکے رکھ دیتا ہے۔ بہرحال ہمیشہ کی طرح کم از کم سب اچھے کی اُمید تو ضرور رکھنی چاہیے اور یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ یا الٰہی! کسی طرف سے تو کوئی خیر کی خبر آئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں