"FBC" (space) message & send to 7575

پاؤں رکاب میں‘ ہاتھ باگ پر

معاملات نے حیران کن حد تک تیزی سے کروٹ لی ہے۔ اچانک سے تو نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی‘ موجوں میں پیدا ہونے والا ہیجان اپنے جلو میں بہت کچھ لے کر آیا ہے۔ طرفین پوری تیاری سے میدان میں اتر رہے ہیں۔ پہلے ایک فریق کی طرف سے کچھ سستی نظر آ رہی تھی اور بزعم خویش‘ ایک سینئر سیاسی شخصیت ہی تمام بار اپنے کندھوں پر اُٹھائے ہوئے نظر آتی تھی۔اِس صورت حال کا نوٹس لیے جانے کے بعد اب حکومتی سطح پر دیگر زعما نے بھی اِس شخصیت کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا ہے۔ اپوزیشن کی صورت میں مخالف فریق تو تمام تر مشکلات کے باوجود پہلے سے ہی زور و شور سے اپنا موقف پیش کرنے میں مصروف نظر آتا تھا۔ اب جو حکومتی سطح پر بھی مزید شخصیات کو میدان میں اُتارا گیا ہے تو گویا کان پڑی آواز سننا بھی مشکل ہو چکا۔ حتمی مرحلے سے پہلے ایک دوسرے کو چیلنج کرنے، اُنہیں کم اور خود کو زیادہ محب وطن قرار دینے کا سلسلہ زور و شور سے شروع ہو چکا ہے۔ وزیراعظم صاحب بھی براہ راست میدان میں کود چکے تو دوسری طرف سے بھی اپنے ''آزمودہ‘‘ ہتھیاروں کی آزمائش کی جا رہی ہے۔ اگر طویل خاموشی کے بعد یکایک طوفان کھڑا کر دیا گیا ہے تو اِس کے پیچھے کچھ نہ کچھ وجہ تو ضرور رہی ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ یقین دہانیوں کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہو کہ اب خاموشی توڑ دینی چاہیے۔ ایک طرف سے محاذ گرم کیا گیا تو حکومت کی طرف سے بھی اِس کا جواب دینا بنتا تھا۔ اِسی تناظر میں ایک مرتبہ پھر مخالفین کو نیچا دکھانے کا کھیل عروج پر پہنچ چکا ہے۔ اِس میں کھیل کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بھی تواتر سے جاری ہے۔ بس ایک بات بری طرح کھل رہی ہے‘ وہ یہ کہ بغیر سوچے سمجھے کی جانے والی باتوں کے حتمی نتائج کو کیوں نہیں سمجھا جا رہا؟ ایک دوسرے پر ایسے ایسے الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ جنہیں بادی النظر میں ہضم کرنا مشکل ہے۔ سیاست کے کھیل میں داؤ پیچ تو آزمائے ہی جاتے ہیں لیکن الفاظ کے چناؤ میں بہرحال احتیاط لازم ہے۔
دیکھا جائے تو حقیقت تو یہی ہے کہ اِس حمام میں ہم سب ننگے ہیں لیکن پھر بھی ہمیشہ خود کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اب تو جیسے پارسائی کا ایک ہی فارمولا باقی رہ گیا ہے کہ اہلِ حکومت ایماندار ہیں اور اپوزیشن والے سب کرپٹ۔اِن حالات میں ایک کی بات کی جائے تو دوسرا ناراض، دوسرے کو راضی کرنے کا جتن کیا جائے تو پہلے کی پیشانی پر شکنیں اُبھرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ذرا دیکھئے تو طرفین اپنے اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے کے لیے کیسی کیسی بولیاں بول رہے ہیں۔ بوجوہ وزرا کی پوری کھیپ یکایک اپوزیشن کے لتے لینے میں مصروف ہو چکی ہے۔ دوسری طرف اے پی سی کے بعد بھی لندن سے ہلکی پھلکی گولا باری کا سلسلہ جاری ہے اور آثار بتاتے ہیں کہ اب یہ سلسلہ کسی نہ کسی حد تک چلتا رہے گا۔ واقفانِ حال کے مطابق لندن سے اِسی حکمت عملی کو جاری رکھا جائے گا، گاہے گاہے ہلکے پھلکے بیانات داغ کر حکومت کو جوابات دینے میں مصروف رکھا جائے گا۔ لامحالہ اگر یہ صورتحال طوالت اختیار کرتی ہے تو باقیوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ حکومت کے لیے مصیبت یہ ہے کہ اُس کے متعدد دفاع کار دہری شہریت رکھتے ہیں۔ عوامی سطح پر اُن کے بارے میں یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ صرف اِس حکومت کے برسراقتدار رہنے تک ہی یہاں موجود رہیں گے، جیسے ہی حکومت کے دن پورے ہوئے‘ وہ واپس اپنے اپنے آشیانوں کو لوٹ جائیں گے۔ اِسی تناظر میں عوامی سطح پر اُن کی گفتگو کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومتی دفاع اور موقف بیان کرنے کی زیادہ ذمہ داری شیخ رشید نے اُٹھا رکھی ہے۔
اس کھینچا تانی میں بغاوت کے مقدمات کی صورت نیا عنصر بھی آن موجود ہوا ہے۔ نواز شریف تو لندن میں ہیں لیکن مریم نواز، احسن اقبال، راجہ ظفر الحق، رانا ثنا اللہ اور دیگر پارٹی لیڈران تویہیں موجود ہیں اور اُنہیں اب اِن مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔ گویا اب نون لیگ کی بچی کھچی قیادت بھی حوالۂ زنداں ہو سکتی ہے۔ لامحالہ اپوزیشن کی سیاست پر اِس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کو افسوس تو ہو رہا ہو گا کہ کاش میاں نواز شریف کو بھی یہیں رکھا جاتا تو پھر رہا سہا ڈنک بھی نکل جاتا۔ اب میاں نواز شریف کے بارے میں لاکھ کہا جاتا رہے کہ وہ جھوٹ بول کر لندن جانے میں کامیاب ہوئے‘ لیکن جب تیر کمان سے نکل چکا ہو تو پھر کیا ہو سکتا ہے۔ اب وہ وہاں بیٹھ کر حکومت کے لیے دردِ سر بن چکے ہیں۔ ملک کے اندر موجود لیگی قیادت کا تو بندوبست کر دیا گیا ہے لیکن میاں نواز شریف کا کیا کیا جائے‘ ابھی تک یہ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ یہاں تو لاکھ مجبوریاں اُن کے راستے کی رکاوٹ تھیں، وہاں تو ایسی کوئی قدغن بھی نہیں ہے۔ پھر یہ اُن کی خوش قسمتی ہی قرار دی جائے گا کہ حالات بھی کسی حد تک اُن کے حق میں کروٹ بدلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اُنہوں نے بھی اِس سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جس کے حکومت پر مرتب ہونے والے اثرات، حکومتی گھبراہٹ کی صورت میں نظر بھی آ رہے ہیں لہٰذا حکومت جب یہ کہتی ہے کہ نواز شریف جھوٹ بول کر لندن گئے تو اِس پر یقین کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ کچھ تو حقائق ایسی باتوں کو جھٹلاتے ہیں، کچھ حکومتی سطح پر الفاظ کے چناؤ میں بے احتیاطی بھد اُڑانے کا باعث بنتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہی اعلیٰ ترین حکومتی شخصیت نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران جس طرح کی باتیں کیں، اُن پر کافی دلچسپ تبصرے سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملے۔ میں‘ میں کی ایک طویل گردان تھی۔ حیرت ہوتی ہے جب پریس کانفرنسز میں حکومتی زعما کی گفتگو سننے کا موقع ملتا ہے‘ ایک ایک گھنٹے کی گفتگو میں بس اپنی سنا کر نکلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے رویوں کے بہرحال منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ اور وہ ہو رہے ہیں۔ 
اب آئندہ پیدا ہونے والی صورتحال کے آثار تو واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ میدان کارزار پوری طرح سے گرم ہو چکا ہے۔ حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ کسی طرح سے اِس صورتحال سے باہر نکل آئے لیکن اب یہ آسان نہیں رہا۔ دیکھا جائے تو صرف دو سالوں کے دوران ایسے حالات پیدا کرنے میں خود حکومت کا بھی بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ حکومت کے دو سالوں کے دوران لوٹا ہوا پیسہ واپس آیا نہ گڈ گورننس نامی چڑیا کہیں دکھائی دی۔ سب سے بڑھ کر بے محابا مہنگائی نے جو ستم ڈھایا ہے‘ حکومت تو ابھی تک اُس کا ٹھیک سے اندازہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی۔ کوئی تو بتائے کہ مہنگائی کی شرح 9.43 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ادویات عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکیں۔ ہسپتالوں میں ٹیسٹوں کی فیسوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے، دوسالوں کے دوران بجلی تقریباً دو گنا مہنگی ہونے کے باوجود گردشی قرضہ 14 سو ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اب اگر یہ پوچھا جائے کہ وسائل کہاں خرچ ہو رہے ہیں تو پھر تان نواز شریف پر آ کر ٹوٹے گی۔ 
ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ ''ڈھڈ نہ پئیاں روٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں‘‘ (جب پیٹ ہی بھرا نہ ہو تو سب باتیں بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں) معلوم نہیں کہ حکومت یہ سمجھنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہے۔ ایسے میں اگر حکومتی موقف کو تمام تر قوتیں صرف کرنے کے باوجود عوامی سطح پر زیادہ پذیرائی نہیں مل رہی تو اِس میں سوچنے سمجھنے کے لیے بہت کچھ پنہاں ہے۔ بہرحال یہ تو واضح ہوگیا کہ ایک طرف جہاں نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کے چوتھے ٹکراؤ تک پہنچ چکے ہیں تو دوسری طرف سے بھی پاؤں رکابوں میں اور ہاتھ باگ پر رکھ لیے گئے ہیں۔ الزامات کا طومار ہے جو ایک دوسرے پر باندھا جا رہا ہے جس کے انتہائی منفی نتائج ہمیشہ کی طرح عوام کو ہی بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں