"FBC" (space) message & send to 7575

سی پیک کا نیا سنگ میل

گزشتہ ماہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل(ر)عاصم سلیم باجوہ کا ایک ٹوئٹ نظروں سے گزرا ۔ ٹوئٹ میں اُن کی طرف سے اورنج لائن ٹرین منصوبے میں ملازمتوں کے مواقع کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ یہ رواں سال کے دوران دوسرا موقع تھا جب یہ یقین ہونا شروع ہوا تھا کہ اب اورنج لائن ٹرین چل پڑے گی۔اس سے قبل کوئی آٹھ ماہ پہلے بھی ایک اشارہ ملا تھا کہ اب حکومتی سطح پر اورنج لائن ٹرین کو پٹری پر لانے کی سنجیدہ کوششیں ہورہی ہیں۔ یہ تب کی بات ہے جب آٹھ ماہ قبل لاہور میں ایک اجلاس طلب کیا گیا۔ اجلاس میں شرکت کیلئے جن افسران اور دیگر ذمہ داران کو دعوت دی گئی تھی اُنہیں بتایا گیا کہ اجلاس میں کچھ بڑے فیصلے ہونے ہیں۔ حسبِ روایت تمام افسران اپنی اپنی کارکردگی کی رپورٹیں مرتب کرنے میں مصروف ہوگئے ۔ یہ ضروری تصور کیا جاتا ہے کہ ایسے اجلاسوں میں اپنی اپنی کارکردگی کو بھی نمایاں طور پر پیش کیا جائے‘ اس لیے بیشتر اجلاسوں میں افسران کی توجہ اپنی کارکردگی ظاہر کرنے پر مرکوز رہتی ہے۔ اجلاس سے پہلے چیئرمین پی اینڈ ڈی حامد یعقوب شیخ اور دیگر افسران تین روز تک اپنے اجلاس منعقد کرتے رہے تھے۔خیر اجلاس کا دن بھی آگیا۔ اجلاس کے دوران سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین عاصم سلیم باجوہ نے اورنج لائن ٹرین منصوبے پر مکمل بریفنگ لی۔ بیوروکریسی کی رمزیں پہچاننے والے ہمارے ساتھی حسن رضا کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ اجلاس کے دوران جنرل عاصم سلیم باجوہ منصوبے کی صورتحال پر کچھ برہم بھی ہوئے لیکن اختتام پر انہوں نے واضح کردیا کہ اب اس پراجیکٹ کو کیسے مکمل کرنا ہے۔ اجلاس میں پراجیکٹ کو مکمل کرنے سے متعلق حکمت عملی مرتب کی گئی اوربڑے فیصلے کئے گئے۔ اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سی پیک اتھارٹی کے سربراہ عاصم سلیم باجوہ کی ون آن ون ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں اس پراجیکٹ کو فوری مکمل کرنے کا ٹاسک رکھا گیا۔ یہیں سے اورنج لائن ٹرین منصوبے پر کام کی رفتار میں تیزی آگئی ۔ 
بلاشبہ آج کا دن اہل لاہور کیلئے ایک بہت اچھی خبر لے کر آیا ہے کہ اورنج لائن منصوبہ بالآخر پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔لگے ہاتھوں اس منصوبے کی مختصر سی کہانی بھی سن لیجئے کہ بیچارے کے ساتھ کیا کیا کھلواڑ ہوتے رہے۔ اورنج لائن ٹرین منصوبے کا پہلا پاک چائنہ معاہدہ 2014 ء میں طے پایا تھا ۔2015 ء میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے منصوبے پر کام کا افتتاح کیا ۔ اندازہ تھا کہ اورنج لائن ٹرینیں رواں دواں ہونے کے بعد روزانہ کم و بیش اڑھائی لاکھ مسافر اس پر سفر کریں گے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب اتنی بڑی تعداد میں مسافر اورنج لائن ٹرین پر سفر کریں گے تو پھر شاہراہوں پر ٹریفک کے بوجھ میں کتنی کمی آئے گی۔ لاہور تو اب یوں بھی مستقل آلودگی اور سموگ کا مریض بن چکا ہے۔ اس وقت بھی سموگ کی انٹری ہوچکی ہے اور گزشتہ پانچ سالوں کی طرح ‘ آنے والے دنوں میں سموگ کی کافی شدت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سموگ پیدا ہونے میں جہاں دوسرے عوامل اپنا کردار ادار کرتے ہیں وہیں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اس میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے۔ ذمہ داران کا بتانا ہے کہ لاہور میں پیدا ہونے والی سموگ میں 45 فیصد حصہ گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کا ہوتاہے۔ اس تناظر میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد میں کمی لائی جائے گی‘ لیکن عملًا ابھی تک کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اب تو خیر محکمہ تحفظِ ماحولیات کے افسران پر میڈیا سے گفتگو کرنے کی پابندی عائد کی جاچکی ہے لیکن پھر بھی تعلقات تو قائم رہتے ہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی بھرپورکوششوں کے باوجود سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد میں کمی نہیں لا سکی۔ اب اورنج لائن ٹرین چلنے سے شاید یہ مسئلہ کسی حد تک حل ہوجائے ۔ 
اس منصوبے پر کام کی افتتاحی تقریب کے دوران بتایا گیا کہ اسے 27 ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جائے گا۔میاں شہباز شریف کے دورِحکومت کے دوران ہی اس ٹرین کا ایک آزمائشی رن بھی مکمل کیا گیا تھا جس میں ہمیں بھی سفر کا اعزاز حاصل ہوا۔ بلاشبہ یہ ایک شاندار تجربہ تھا ۔ محسوس ہی نہیں ہورہا تھا کہ ہم محو سفر ہیں اور ساتھ میں بلندی سے لاہور کے نظارے کا لطف الگ سے حاصل ہورہا تھا۔ یہ ستائیس ماہ اب تقریباً پانچ سالوں پر محیط ہوچکے ہیں۔ سابقہ دورِ حکومت کے دوران ہی کچھ این جی اوز کی طرف سے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی گئی۔اُن کا موقف تھا کہ ٹرین کی دھمک سے ٹریک کے اردگرد واقع تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچے گا۔ این جی اوز کی طرف سے عدالتوں میں درخواستیں دائر ہوتی رہیں جن کے فیصلے آنے میں تاخیر نے بھی منصوبے کو کافی نقصان پہنچایا۔ اس تناظر میں ایک بات بہت دلچسپی کی حامل ہے۔ لاہور سے واہگہ بارڈ کی طرف جانے والے ریلوے ٹریک پر چوبچہ پل کے قریب کسی زمانے میں لاہورکی گورنر رہنے والی ایک شخصیت کا مقبرہ واقع ہے۔ اندازہ ہے کہ یہ مقبرہ کوئی تین سو سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ کم از کم ایک سوسالوں سے تیزرفتار ٹرینیں اس مقبرے کے قریب سے گزر رہی ہیں لیکن یہ ویسے کا ویسا ہی ہے۔ ایسے میں بھلا ایک کم رفتار کی شہری ٹرین سے کسی عمارت کو کیسے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؟ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی کہ میاں شہباز شریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد منصوبے کے بارے میں مختلف کہانیاں سامنے آنے لگیں۔ نئی آنے والی حکومت کی طرف سے اسے سفید ہاتھی قرار دے کر ایک طرح سے سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ منصوبے کیلئے ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ بھی جوں کی توں چھوڑ دی گئی۔ شہری دہائیاں دیتے رہے کہ کم از کم سڑکوں کی مرمت تو کردو ‘لیکن سو باتوں کا ایک ہی جواب کہ اتنے فنڈز نہیں ہیں۔ 
اس چکر میں اورنج لائن ٹرین کے 27.1 کلومیٹر طویل ٹریک کے ارد گرد شہری کافی عذاب میں مبتلا رہے۔ ہم نے بھی زیادہ نہیں تو اس صورتحال پر کم از کم آدھ درجن رپورٹس توبنائی ہی ہوں گی ۔ ان کے جواب میں بھی یہی سننے میں آتا تھا کہ بس جلد ہی منصوبے پر کام شروع کردیا جائے گا۔ اسی آوا جاوی میں منصوبے کی لاگت تین سو ارب روپے تک پہنچ گئی تو اتنی زیادہ رقم کا حصول مزید مشکل ہوگیا۔ ایک موقع پر تو چینی ماہرین بھی کام چھوڑ کر چلے گئے تھے‘ جس کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کے اتنے بڑے منصوبے پر مایوسی کے چھائے ہوئے سائے مزید گہرے ہوگئے۔ اسی صور تحال کے تناظر میں یہ خدشات بھی پیدا ہوچکے تھے کہ منصوبے پر خرچ کی جانے والی رقم ضائع چلی جائے گی۔عدالت عالیہ کی طرف سے صوبائی حکومت کو ٹرین چلانے کیلئے آخری ڈیڈ لائن مئی 2020 ء دی گئی تھی ۔ یہ تاریخ بھی گزر گئی لیکن ٹرین نہ چل سکی ‘لیکن آٹھ ماہ قبل ہونے والے ایک اجلاس نے حالات کو یکسر تبدیل کردیا۔اس اجلاس کے بعد اور ٹوئٹ سے پہلے بھی ایک بار سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین نے ٹوئٹ کیا تھا کہ منصوبے کے مشکل معاملات حل کرلیے گئے ہیں اور کرائے کا تعین کرکے ٹرین کا آزمائشی سفر بھی شروع کردیا گیا ہے۔ گویا یہ اس بات کا واضح اعلان تھا کہ اب لاہوریے جلد ہی اورنج ٹرینیوں کو نہ صرف پٹریوں پر رواں دواں دیکھ سکیں گے بلکہ ان پر سفر کا لطف بھی اُٹھا سکیں گے۔ کچھ کرگزرنے کا عزم کرلیا گیا تو رقم کا انتظام بھی ہوگیا اور منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی دور ہوگئیں۔ ایسے میں صرف آٹھ‘ نو ماہ کے دوران اس ڈرامائی تبدیلی کے ذمہ داران کا شکریہ ادا کرنا تھا بنتا ہی ہے ورنہ تو'' کوئی اُمید بر نہیں آتی/کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘ والا معاملہ ہوچکا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں