"FBC" (space) message & send to 7575

بغلیں بجانے کی عادت

یہی کوئی ہفتہ‘ دس دن پہلے کی بات ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو غلیظ، گندا اور نجانے کیسے کیسے القابات سے نواز دیا تھا۔ امریکی صدر کی طرف سے اِن خیالات کا اظہار‘ دوسرے صدارتی اُمیدوار جوبائیڈن کے ساتھ ایک مباحثے کے دوران سامنے آیا تھا۔ دورانِ گفتگو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو غلیظ اور گندا ترین ملک قرار دیتے ہوئے مزید بھی بہت کچھ کہہ ڈالا۔ ویسے اُنہوں نے ایسا کچھ غلط بھی نہیں کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت کے اندرونی حالات انتہائی دگرگوں ہیں۔ بھارت کو مناسب وجوہات کی بنا پر دنیا بھر میں سب سے زیادہ گندا ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اندازہ لگائیے کہ سوا ارب آبادی والے اِس ملک کی صرف 47 فیصد آبادی کو بیت الخلا کی سہولت میسر ہے‘ باقی نصف سے زائد آبادی حوائجِ ضروریہ سے فراغت کے لیے کیا کرتی ہوگی‘ قطعاً سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ اِس کے لیے وہ ریل کی پٹریوں، ندی نالوں، دریاؤں کے کناروں، پارکس اور ساحل سمندر سمیت ہراُس جگہ کا رخ کرتے ہیں جہاں بھی اُنہیں جگہ میسر آ جاتی ہو۔ ذات پات کا نظام تو خیر اُس معاشرے میں صدیوں سے ستم ڈھاتا چلا آ رہا ہے جس نے پورے بھارتی معاشرے کو ناقابل عبور رکاوٹوں میں جکڑ رکھا ہے۔ یقینا امریکی صدر نے انہی تمام حالات کے پیش نظر ہی بھارت کو گندا اور غلیظ ملک قرار دیا ہو گا۔ ویسے اُن کی طرف سے بھارت کو ایسے القابات سے نوازا جانا کافی حیرت انگیز بھی قرار دیا گیا کیونکہ اِس وقت اُنہیں بھارتی نژاد امریکی باشندوں کے ووٹوں کی اشد ضرورت ہے۔ اندازہ ہے کہ امریکا کے صدارتی انتخابات میں کم از کم 40 لاکھ بھارتی نژاد امریکی شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ایسے میں جبکہ امریکی انتخابات کی آمد آمد ہے تو اِس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کے الفاظ نے بھارتیوں کو کافی سیخ پا کر دیا ہے۔ بھارتیوں کی طرف سے امریکی صدر کے کافی لتے لیے گئے۔ ہمارے لیے حسب روایت اِن الفاظ میں خوشی حاصل کرنے کے کافی مواقع موجود تھے اور اِس پر ہم نے کافی بغلیں بھی بجائیں لیکن اب بھارت کے بارے میں امریکی رویے کی نئی قسط بہت مختلف انداز میں سامنے آئی ہے۔
گزشتہ منگل کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مارک ایسپر بھارت میں موجود تھے۔ اُسی روز دونوںممالک کے درمیان دفاعی شعبے میں انتہائی اہم معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کے تحت امریکا اِس ''گندے اور غلیظ‘‘ ملک کو حساس سیٹلائٹ ڈیٹا فراہم کرے گا۔ ایسا حساس ڈیٹا کہ جس کی مدد سے وہ دشمن کے طیاروں، میزائلوں اور ڈرونز کو بہت درستی کے ساتھ نشانہ بنانے کے قابل ہو جائے گا۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ اتنے اہم معاہدے پر دستخط کیے ہوں بلکہ دونوں کے درمیان دفاعی شعبے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کافی تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ رواں سال ابھی تک بھارت‘ امریکا سے 20 ارب ڈالر کا دفاعی ساز و سامان حاصل کر چکا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ بھی موجود ہے جس کے تحت دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کی بندرگاہوں اور دوسری سہولتوں سے فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔ دونوں کے درمیان خفیہ اور محفوظ مواصلاتی نیٹ ورکس پر معلومات کے تبادلے کا معاہدہ بھی موجود ہے۔ ایسے ملک کے بارے میں جب ٹرمپ کے استہزائیہ ریمارکس سامنے آئے تو جہاں ایک طرف بلاشبہ یہ بھارت کے اندرونی حقائق کی عکاسی کر رہے تھے‘ وہیں اِن الفاظ نے بھارت کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوڑ کر اُسے اقوام عالم میں ننگا بھی کر دیا؛ تاہم ہمارے ہاں یہ تاثر اُبھرا کہ شاید بھارت اور امریکا کے مابین دوریاں پیدا ہو رہی ہیں لیکن یہ بات نظر انداز کی گئی کہ صرف باتوں سے زیادہ توجہ عمل کو دینی چاہیے۔ عملاً امریکا بھارت کو عموماً ہر شعبے‘ خصوصاً دفاعی شعبے میں بے پناہ سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ آنے والے وقت میں بھی اِس تعاون میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ خطے میں پیدا ہونے والی نئی صورتحال کے پیش نظر اِن دونوں ممالک کی قربتوں میں مزید اضافے کے تمام اجزائے ترکیبی موجود ہیں۔ اب جو حالات پیدا ہو رہے ہیں‘ وہ شاید آگے چل کر ہمارے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ بظاہر تو امریکا بھارت قربت چین پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہے لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ضرورت پڑنے پر بھارت اپنی قوت ہمارے خلاف استعمال نہ کرے۔ دراصل امریکا اور چین کے تعلقات میں اِس قدر سرد مہری آ چکی ہے کہ اِس کا موازنہ سرد جنگ سے کیا جانے لگا ہے۔ شاید وہ وقت آن پہنچا ہے جس کی طرف بہت عرصہ پہلے ایک امریکی جنرل نے اشارہ کیا تھا۔ غالباً 2014ء کی بات ہے‘ ایک امریکی جنرل مارٹن ڈیمپسی کی طرف سے کہا گیا تھا کہ بہت جلد امریکا کو کھل کر چین کے مقابلے پر آنا پڑے گا، بالکل ویسے ہی جیسے ہم سوویت یونین کا مقابلہ کرتے رہے۔ اب اگر دیکھا جائے تو امریکا بڑی حد تک کھل کر چین کے مقابلے پر آ رہا ہے۔ ماہِ نومبر کے دوران امریکا، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا کی افواج خلیج بنگال اور بحیرہ عرب میں مشترکہ فوجی مشقوں میں بھی شریک ہوں گی۔ اِن مشقوں کا اعلان ہوتے ہی چین کی طرف سے اِس پر سخت رد عمل سامنے آیا تھا لیکن ظاہر ہے کہ وہ صرف احتجاج ہی ریکارڈ کرا سکتا ہے۔ اِن چاروں ممالک کے درمیان فوجی اتحاد کا ڈول بھی ڈالا جا چکا ہے۔ لامحالہ یہ سب کچھ چین کا گھیراؤ کرنے کے لیے ہی کیا جا رہا ہے لیکن اِس میں ہمارے لیے بھی پریشانی کا واضح عنصر موجود ہے۔ بھارت کی طرف سے تو یوں بھی ہمیشہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں جاری رہتی ہیں۔ جب اُس کے پاس مزید طاقت ہوگی تو یقینا وہ ہمیں مزید پریشان کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ اِسی تناظر میں ہماری وزارتِ خارجہ نے بروقت یہ بات اُجاگر کی ہے کہ بھارت اور امریکا کے درمیان ہونے والے نئے معاہدے سے خطے میں خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔ کوئی شک نہیں کہ اِس سے خطے میں دفاعی توازن بھی بگڑے گا جس سے لامحالہ ہمارے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ یقینا ملکی دفاع کے ضامن ادارے بھی تمام صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اِس کا توڑ بھی کر رہے ہوں گے لیکن حقائق کو بہرحال نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اب امریکی انتخابات میں چاہے ڈونلڈ ٹرمپ جیتیں یا جو بائیڈن‘ خطے کے لیے امریکی پالیسیوں میں زیادہ تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔ 2016ء میں دونوں ممالک کے درمیان جو لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم ایگریمنٹ ہوا تھا‘ اُس کے لیے 10 سالوں تک گفت و شنید چلتی رہی۔ اِس دوران دونوں ممالک میں حکومتی تبدیلیاں بھی ہوئیں لیکن معاہدے کے حوالے سے بات چیت جاری رہی اور بالآخر یہ طے پا گیا۔ دوسری طرف ہمارا یہ حال ہے کہ ہماری کسی پالیسی میں کوئی تسلسل دکھائی نہیں دیتا۔ اِس تمام صورتحال کے تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے ہمیں جو وقتی خوشی ملی تھی‘ وہ کافور ہو جانی چاہیے۔ یہ ہمارے لیے ایک سبق بھی ہے کہ آئندہ باتوں سے زیادہ عمل پر یقین کیا جائے۔ شاید یہ عادت بن چکی ہے کہ ہم حقیقت کو ایک طرف رکھتے ہوئے سطحی باتوں سے ہی خوش ہو جاتے ہیں اور پھر اِسی خوش فہمی کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے ایسے رویوں نے ایک سے زائد مواقع پر ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔ 1971ء میں امریکی بیڑے کے انتظار میں ہم اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے تھے۔ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی اور ہم احتجاج کرتے رہ گئے۔ جب گھر میں ہی انتشار پھیلا ہو تو دوسرے کیونکر ہماری باتوں کو اہمیت دیں گے؟ آج ہم اِس پر ہی بغلیں بجا رہے ہیں کہ فیٹف کی بلیک لسٹ میں جانے سے بچ گئے ہیں، اس پر ہمیں افسوس نہیں کہ ہم گرے لسٹ میں کیوں شامل ہوئے؟ کیا یہ ایسے ہی حالات کا نتیجہ نہیں کہ آج وہ باتیں بھی کھلے عام کی جا رہی ہیں جوکبھی سرگوشیوں میں کی جاتی تھیں۔حقیقت یہ ہے کہ صرف باہمی اتحاد و اتفاق ہی فیصلہ کن قوت فراہم کرتا ہے۔ یہ سب کچھ موجود ہو تو تبھی ہم طاقتور پیغام دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ورنہ طاقتور اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور کمزور چند الفاظ پر ہی بغلیں بجاتے رہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں