"FBC" (space) message & send to 7575

فیس سیونگ کارروائیاں… (2)

اِن دنوں سموگ کا عفریت پوری طرح سے سر اُٹھا چکا ہے‘ تقریباً پانچ سال پہلے ہماری زندگیوں میں دخل اندازی کرنے والی اِس مصیبت نے تو اب جیسے اپنی مستقل جگہ بنا لی ہے۔ جیسے ہی موسم سرد ہونے لگتا ہے‘ یہ مصیبت یکدم ہمارے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ اِس کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف اِسے روکنے کے لیے ایک ہنگامہ سا برپا ہوجاتا ہے۔ متعلقہ محکمے بڑھ چڑھ کر اپنی اپنی کارروائیوں کی تفصیل بتانے میں جت جاتے ہیں۔ یقین کیجئے کہ محکمانہ کارکردگی کے حوالے سے اتنے وٹس ایپ پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ اکثر اوقات تو اُلجھن سی ہونے لگتی ہے ۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دھواں چھوڑنے والی اتنی گاڑیوں اور انڈسٹریز کو بند کردیا گیا ہے یا انہیں بھاری جرمانے کیے گئے ہیں۔ گاڑیوں کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن فیکٹریوں کا معاملہ قدرے الگ ہے۔ کئی مرتبہ یوں بھی ہوا ہے کہ جس فیکٹری کو بند کرنے کی بابت بتایا گیا‘موقع پر جا کر دیکھا تو صورت حال بالکل مختلف دکھائی دی۔ فیکٹری نہ صرف چلتی ہوئی بلکہ دھواں چھوڑتی بھی دکھائی دی۔ ماحول کو صاف رکھنے کی اولین ذمہ داری محکمہ تحفظ ماحولیات پر عائد ہوتی ہے۔ اِس اہم ادارے کی عملی کارکردگی یہ ہے کہ لاہور میں ایئرکوالٹی انڈیکس ماپنے کے لیے لگائے گئے آٹھ سٹیشنوں میں چار پر نصب آلات کام ہی نہیں کررہے۔ مطلب سموگ کے سیزن میں کارکردگی کا یہ عالم ہے تو معمول میں کیا ہوتا ہوگا۔ آپ کسی بھی انڈسٹریل ایریا میں چلے جائیں، آپ کو جابجا فیکٹریاں انتہائی مضرِصحت دھواں چھوڑتی ہوئی ملیں گی۔ مومن پورہ انڈسٹریل سٹیٹ اِس حوالے سے سرفہرست ہے۔ یہاں بیشتر فیکٹریوں میں اتنی کثرت سے ٹائر جلائے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ! صبح کے وقت دھویں کی وجہ سے حدِ نظر انتہائی محدود ہوجاتی ہے۔ اِس علاقے کے اردگرد آبادیوں میں موجود گھروں میں ہر طرف کالک ہی کالک دکھائی دیتی ہے‘ اسی باعث یہاں رہنے والوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔
کیا یہ ہوسکتا ہے کہ محکمے کے افسران کو اِس بابت کچھ معلوم نہ ہو؟کئی مرتبہ آف دی ریکارڈ گفتگو کے دوران خود محکمے کے افسران صورتِ حال میں بہتری نہ آنے کی وجوہات بتاتے ہیں۔ سب کو علم ہے کہ یہاں کیا ہورہا ہے لیکن مجال ہے کسی کے کان پر جون بھی رینگتی ہو۔ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں فیکٹریوں میں ٹائر جلائے جاتے ہوں‘ وسیع و عریض علاقہ دھویں اور راکھ کی لپیٹ میں ہو اور محکمے کو علم ہی نہ ہو کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ معاملہ یہاں بھی وہی ہے کہ جب تک معاملات 'باہمی رضامندی‘سے چلتے رہتے ہیں تب تک سب ٹھیک رہتا ہے اور جیسے ہی کچھ اونچ نیچ ہوتی ہے تو دکھاوے کی کارروائی کرکے اُس کی تشہیر شروع کردی جاتی ہے۔ میں خود ایسے مواقع پر اِس تمام صورت حال پر کئی رپورٹس بنا چکا ہوں، ذاتی طور پر بھی متعدد بار محکمے کے افسران کی توجہ اِس جانب مبذول کروا چکا ہوں لیکن صورتِ حال میں رتی برابر بھی بہتری نہیں آئی۔ یہاں مومن پورہ انڈسٹریل سٹیٹ کے اردگر رہنے والوں کے حوصلے یا پھر مجبوری کی داد دینا پڑتی ہے کہ جو آلودگی کے مرکز میں زندگی گزار رہے ہیں۔
اِس سے آگے رنگ روڈ پر دریائے راوی کا رخ کر لیں‘ راستے کی صورت حال دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ ہرطرف سوائے دھویں کے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ مزید آگے ‘ لاہور سے ملحقہ ضلع شیخوپورہ کی طرف سے چلتے جائیں تو حالات مزید خراب دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ ہے زمینی صورتِ حال اور دعوے دیکھئے۔ گزشتہ دنوں پنجاب کے ریلیف کمشنر کی ایک میڈیا بریفنگ میں شرکت کا موقع ملا، اُن کی باتیں سن کر طبیعت باغ باغ ہوگئی۔ یوںمحسوس ہورہا تھا کہ جیسے سموگ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ عملاً حالات یہ ہیں کہ عدالت کی طرف سے یہ کہا جا چکا ہے کہ سموگ کے حوالے سے محکموں نے کچھ نہیں کیا۔ دوسری طرف کارروائیوں سے متعلق جاری کردہ روداد پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سموگ کا سر پوری طرح سے کچلا جاچکا ہے ۔ اس وقت سموگ کے سبب لاہور ملک میں تو کیا‘ دنیا بھر میں آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں اپنا مقام بنا چکا ہے۔ ہرروز شہر میں ایئرکوالٹی انڈیکس کے جو اعدادوشمار سامنے آتے ہیں وہ دل دہلا دیتے ہیں۔
یہ چند ایک محکموں کی صورتِ حال ہے جن سے عوام کا براہ راست تعلق ہے‘ ورنہ تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کچہریوں اور ہسپتالوں کی صورت حال دیکھ لیں تو بہتری کی رہی سہی اُمیدیں بھی دم توڑ جاتی ہیں۔ کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو وہ انصاف کے لیے تھانے کچہری کا رخ کرتا ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ چکر لگاتے لگاتے عمریں بیت جاتی ہیں لیکن انصاف تک رسائی نہیں ہوپاتی۔ اِن حالات میں اگر کبھی کسی وکیل سے اونچ نیچ ہوجائے تو جسمانی تشدد کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ ہرروز عدالتوں میں تالابندی عام سی بات ہے۔ چھوٹی عدالتوں میں تشدد کے واقعات معمول بن چکے ہیں ۔ چند روز پہلے ماڈل ٹاؤن کچہری میں ڈنڈوں اور ہاکیوں سے ایک سائل کو ''فوری انصاف‘‘ فراہم کیا گیا تھا‘ جس کی وڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی‘ ایف آئی آر بھی درج ہوئی مگر کارروائی...۔ اب تو کچہریوں سے باہر بھی اظہارِ طاقت کے مظاہر عام ہوچکے ہیں۔ پی آئی سی حملے کو بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ دوسری طرف دعوے دیکھیں کہ انصاف میں تاخیر‘ انصاف سے انکار کے مترادف ہے‘ دہلیز پر انصاف کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اولین ترجیح کا یہ عالم ہے تو باقی ترجیحا ت کا معلوم نہیں کیا بنتا ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ اگر انصاف تک عام آدمی کی آسان رسائی ممکن ہوگئی تو معاشرے میں زور آوروں کو کون پوچھے گا ، سو معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ ہسپتالوں کی صورت حال بھی ہم سب کے سامنے ہے۔ بیمار انسان کے لیے اللہ کے بعد ڈاکٹر‘ سب سے بڑی اُمید ہوتا ہے لیکن زندگی کے متلاشی افراد کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟سرکاری ہسپتالوں میں کوئی پوچھتا نہیں تو پرائیویٹ ہسپتالوں کے اخراجات سن کر ہی عام آدمی کے ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ نظروں سے گزری تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں ڈاکٹر حضرات 70فیصد تک ٹیسٹ بلا ضرورت لکھ دیتے ہیں۔
فیس سیونگ کارروائیوں کا یہ معاملہ صرف محکموں کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اوپر سے نیچے تک یہی صورت حال ہے۔ وزیراعلیٰ کسی ضلع کے دورے پر جاتے ہیں تو ساتھ ہی یہ اعلان اخبارات کی زینت بن جاتا ہے کہ ناقص کارکردگی پر فلاں فلاں افسر کو معطل کر دیا گیا۔ ایسے کئی مواقع کا ہم خود مشاہدہ کر چکے ہیں‘ قصوروار ٹھہرائے جانے والے افسر کو صفائی تک کا موقع نہیں دیا جاتا۔ البتہ کچھ ہی دنوں یا ہفتوں بعد وہی افسر کسی دوسری جگہ اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ ایسے اقدامات کا مقصدصرف اپنی طاقت کا اظہار اور عوام کی توجہ مسائل سے ہٹانا ہوتا ہے‘ وگرنہ سب جانتے ہیں کہ اِن اقدامات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ اگر ایسے اقدامات کا کوئی نتیجہ نکلتا ہوتا تو کیا حالات اِس نہج تک پہنچتے؟ بدقسمتی سے شو آف کا چلن ہمارے معاشرے میں کچھ ایسا رچ بس گیا ہے کہ اب اِس سے جان چھڑانا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوچکا ہے۔ آپ دیکھئے کہ ہم سب اللہ اور روزِ جزا پر یقین رکھتے ہیں لیکن عملاً‘ الا ماشاء اللہ ہر وہ کام کرتے ہیں جو خالق کائنات کے حکم کے برعکس ہو۔ ہماری مارکیٹوں میں لین دین کے معاملات ایسے ہیں کہ خریداری کرنے والے اِس اعتماد کے ساتھ خریداری نہیں کر پاتے کہ وہ اصل چیز ہی خرید رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم جو کہتے ہیں‘ وہ کرتے نہیں؟ شاید اِس لیے کہ ہم خود کو تبدیل کرنا ہی نہیں چاہتے، بس فیس سیونگ کارروائیوں سے زندگی رواں دواں رکھنے کے خوگر ہو چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں